اس سیریز کے ذریعہ وہاں کی خوبصورتی یا بدصورتی کو پیش کئے بغیر وہاں کے عوام اور ان کے حقیقی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2025, 10:43 AM IST | Mohammed Habib | Mumbai
اس سیریز کے ذریعہ وہاں کی خوبصورتی یا بدصورتی کو پیش کئے بغیر وہاں کے عوام اور ان کے حقیقی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ریئل کشمیر فٹ بال کلب
(Real Kashmir Football Club)
اسٹریمنگ ایپ: سونی لیو(۸؍ایپی سوڈ)
اسٹار کاسٹ: محمد ذیشان ایوب، مانو کول، ابھیشانت رانا، وشاکھا سنگھ، افنان فاضلی، کنگن برواہ نانگیا
ڈائریکٹر: راجیش ماپوسکر، مہیش متھائی
رائٹر: ادھیر بھٹ، چنتن گاندھی، سیماب ہاشمی، مہیش متھائی، دھرو نارنگ، دانش رینزو، امنگ ویاس
پروڈیوسر: ایان جوشی، ابھیجیت چھابرا، سیماب ہاشمی
موسیقار: ملار سین، ایشان دیویچا، انڈین اوشن
ریٹنگ:***
’رِیئل کشمیر فٹبال کلب‘ سونی لِو پر ریلیز ہونے والی ایسی ویب سیریزہےجو صرف فٹبال کی کہانی نہیں سناتی بلکہ کشمیر کے نوجوانوں کی امید، شناخت اور بے یقینی کے سائے میں جینے والی ایک پوری نسل کی اندرونی کشمکش کا آئینہ بن کر سامنے آتی ہے۔ یہ سیریز حقیقی ریئل کشمیر ایف سی کے قیام اور سفر سے متاثر ہے، جو۲۰۱۶ءکے بعد وادی کی پہلی پروفیشنل ٹیم کے طور پر قومی لیگ تک پہنچی اور مقامی نوجوانوں کے لیے مقصد، وقار اور امید کی علامت بنی۔
کہانی
کہانی بنیادی طور پر۲؍کرداروں یاشخصیات کے وژن کے گرد گھومتی ہے: ایک کشمیری صحافی شمیِم معراج اور بزنس مین سندیپ چھَٹو، جنہوں نے حقیقی زندگی میں یہ کلب بنایا، جب۲۰۱۴ءکے سیلاب اور سیاسی کشیدگی کے بعد وادی کا نوجوان مایوسی اور بے سمتی کا شکار تھا۔ سیریز میں ان کی جگہ محمد ذیشان ایوب کے کردار سہیل میر اور مانَو کال کے کردار پر مبنی فکشنل روپ دکھایا گیا ہے، جو فٹبال کو صرف کھیل نہیں بلکہ اجتماعی ’مشترکہ مقصد‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈراما کلاسک ’انڈر ڈاگ‘ فارمولا اپناتا ہے، مگر یہاں جیت کا مطلب صرف ٹرافی نہیں بلکہ سماج میں امید، خود اعتمادی اور شناخت کی بازیابی ہے، جو بیانیے کو جذباتی گہرائی دیتی ہے۔
سیریز کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ یہ کشمیر کو صرف شِکارا، برف اور وادیوں کے پوسٹر کی طرح نہیں دکھاتی، بلکہ تنگ گلیوں، خالی ہاؤس بوٹس، کرفیو، سیکورٹی چیک پوسٹس اور بے روزگاری کے پس منظر میں ایک حقیقت پسند تصویر بناتی ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کی انفرادی کہانیاں، بے روزگار گریجویٹ، پتھراؤ کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنے والا لڑکا، فیملی دباؤ میں گھِرا ہوا باصلاحیت فٹ بالر، ہر ایک کی بیک گرائونڈاسٹوری کے ذریعے یہ واضح کرتی ہیں کہ میدان میں کِک کیا جانے والا ہر بال دراصل اُن کی ذاتی زندگی کی کسی شکست یا امید سے جڑا ہوا ہے۔ ساتھ ہی سیریز یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ ایک فٹبال کلب کشمیر کے تمام مسائل حل کر دے گا، یہ کھیل کو بس ایک راستہ دکھاتی ہے، حتمی حل نہیں، جو اسے پروپیگنڈا بننے سے بچاتا ہے۔
ہدایت کاری
۸؍ایپی سوڈپر مشتمل سیریز کا بیانیہ مجموعی طور پر سست رفتار، خام لیکن زمینی ہے، جو روایتی تیز رفتار اسپورٹس ڈراما سے مختلف تاثر دیتا ہے۔ پہلے حصے میں بعض سب پلاٹس سیاسی احتجاج، ٹریفک پولیس سےجھگڑے، بیوروکریسی کے چکر، گھریلو تنازعات، کوچ اور کھلاڑیوں کے پاور ٹرپ بلا ضرورت طوالت اختیار کر لیتے ہیں، جس سے رفتار کمزور اور کچھ مناظر ’ڈرامہ کے لیے ڈرامہ‘ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک اسکاٹش کوچ کے آنے والا آرک، جہاں وہ ’سائنس دان سے مومن‘ میں بدلتا ہے، کہیں کہیں فارمولا معلوم ہوتا ہے اور ریئلزم کے عمومی مزاج سے تھوڑا ٹکراتا ہے۔ لیکن آخری دو اقساط میں جذباتی شدت مضبوط ہے، اور ٹیم، شہر اور تماشائیوں کے درمیان بننے والا رشتہ بیانیے کو بامعنی انجام تک پہنچا دیتا ہے۔
اداکاری
محمد ذیشان ایوب کا کردارسہیل میر اس سیریز کا جذباتی مرکز ہے، وہ اپنے اصولوں سےسمجھوتہ نہ کرنے والا صحافی ہے جو میڈیا کی ’کمپرومائزڈ‘ سیاست سے تنگ آ کر کھیل کے ذریعے تبدیلی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور ذیشان، اس کے غصے، تھکن، امید اور گِلٹ خاص طورپرگھر اور فیملی کو نظر انداز کرنے کے احساس کو بہت باریک جذبات کے ساتھ نبھاتےہیں۔ مانَو کول بطور شریک بانی، سرمایہ کار ایک متوازن، تھوڑا عملی اور تھوڑا جذباتی ستون کی طرح کھڑے نظر آتےہیں، جن کی اداکاری میں خاموش وقار اور اندرونی الجھن کا امتزاج سیریز کو مضبوط بناتا ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کا مجموعی کاسٹ بھی کافی حد تک قائل کر لینے والا ہے، ہر ایک کی اپنی چھوٹی کہانی اور کشمکش ہے، جو ٹیم کوجرسی نمبرنہیں زندہ انسانی چہروں کا مجموعہ بناتی ہے۔
نتیجہ
یہ سیریزکشمیر کو صرف سُرخی یا منظرنامہ نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کی زمین بنا کر پیش کرتی ہے جسے دیکھنا دلچسپ ہوگا۔