Inquilab Logo

کیا موسم بدل رہا ہے؟

Updated: April 22, 2024, 1:22 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

کیا سیاسی و انتخابی موسم اور حالات بدل رہے ہیں ؟ کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام کچھ سوچ کر بیٹھے ہیں اور پولنگ بوتھ پر اپنے پہنچنے کا انتظار کررہے ہیں ؟ کیا جمعہ ۱۹؍ اپریل سے شروع ہونے والا انتخابی سلسلہ سابقہ دو پارلیمانی انتخابات سے قطعاً مختلف ہونے جارہا ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کیا سیاسی و انتخابی موسم اور حالات بدل رہے ہیں ؟ کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام کچھ سوچ کر بیٹھے ہیں  اور پولنگ بوتھ پر اپنے پہنچنے کا انتظار کررہے ہیں ؟ کیا جمعہ ۱۹؍ اپریل سے شروع ہونے والا انتخابی سلسلہ سابقہ دو پارلیمانی انتخابات سے قطعاً مختلف ہونے جارہا ہے؟ کیا وہ لہر جسے مودی لہر کا نام دیا جاتا رہا، مفقود ہے؟ کیا عوام میں  ناراضگی ہے؟ کیا ناراضگی کا ووٹوں  کے ذریعہ اظہار بالکل طے ہے؟ کیا یہ بیانیہ کہ ’’مودی نہیں  تو کون؟‘‘ اپنا اثر کھو چکا ہے؟
  ان سوالوں  کے ممکنہ جوابات سے بحث کرنا مشکل ہے کیونکہ عوام کے دلوں  میں  کیا ہے اور وہ پولنگ بوتھ پر جانے کے بعد کس کو منتخب کرنا چاہیں  گے یہ اُن کا فیصلہ ہے۔ بعض اوقات حق رائے دہی کی ادائیگی تک کچھ رائے دہندگان کشمکش کا شکار رہتے ہیں  اور آخری وقت میں  جو دل میں  آیا، کر گزرتے ہیں ۔ مگر، چند باتیں  ایسی ہیں  جو دکھائی دینے لگی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ بات کہ آئین خطرہ میں  ہے، عوام کے درمیان موضوع بحث ہے۔ یہ بات کہ بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، جہاں  تہاں  سنائی دے رہی ہے۔ یہ بات کہ مودی سرکار نے جن وعدوں  کے ذریعہ سابقہ دو انتخابات جیتے وہ پورے نہیں ہوئے،کل تک اتنے لوگو ں  کی زبان پر نہیں  تھی جتنی آج ہے۔ یہ بات بھی اب شدومد کے ساتھ محسوس ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ جس سیاستداں  یا پارٹی پر بدعنوانی کا الزام خود وزیر اعظم لگا چکے ہوں  جب وہ اُن کی پارٹی کا حصہ بن جاتی ہے یا اُن سے ہاتھ ملا لیتی ہے تو اُس پر سے بدعنوانی کا الزام ہٹ جاتا ہے۔ اس بات کی گونج بھی اب سنائی دینے لگی ہے کہ دھنا سیٹھوں کے بینک لون معاف کردیئے جاتے ہیں ، عام انسانوں  اور کسانوں  کے ساتھ رعایت نہیں  کی جاتی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جس انتخابی بَونڈ کے بارے میں  یہ سمجھا جارہا تھا کہ یہ اعلیٰ تعلیمیافتہ لوگوں  کے سمجھنے کی چیز ہے اور بی جے پی، جو بڑے بڑے معاملات مثلاً پیگاسس، رفائل وغیرہ سے بڑی مہارت کے ساتھ بچ نکلی، اس سے بھی اپنا دامن بچا لے جائیگی، وہ اَب عوامی بحثوں  میں  شامل ہوچکا ہے اور عام ووٹرس بھی یہ جان چکے ہیں  کہ معاملہ کیا تھا۔ 
 ان سب باتوں  کی وجہ سے بی جے پی پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے جو ڈھکا چھپا نہیں  ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عوام میں  یہ باتیں  مین اسٹریم میڈیا کے بتائے بغیر پہنچی ہیں  جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گودی میڈیا کہلانے والے ذرائع ابلاغ کی ساکھ کافی حد تک کمزور ہوئی ہے۔اس کے باوجود یہ میڈیا اگر عوامی جذبات و احساسات کی قدر نہیں  کررہا ہے اوراُنہیں  جگہ دینے یا اُن کا احاطہ کرنے سے گریز کررہا ہے تو ا س میں  پریشان ہونے کی ضرورت نہیں  کیونکہ دیگر ذرائع بہتر نعم البدل کے طور پر عوام کے درمیان ہیں  اور عوام اُن سے کماحقہ استفادہ کررہے ہیں ۔ یہی بات سیاستدانوں  اور سیاسی جماعتوں  پر بھی منطبق ہوتی ہے کہ ان میں  سے جو بھی عوام کے مسائل اور اُ ن کے احساسا ت کو سمجھنے سے گریزاں  ہے عوام اُس سے بھی فاصلہ کرنے لگے ہیں  یہ بات مہاراشٹر اور بہار جیسی ریاستوں  میں  خاص طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں  علی الترتیب پارٹیاں  توڑی گئیں  اور وزیر اعلیٰ کو مہا گٹھ بندھن کی شراکت داری سے نکال کر این ڈی اے کا حصہ بنایا گیا۔ 
 ابھی چھ مرحلے باقی ہیں  اس لئے انتخابی رجحان کے بارے میں  وثوق سے کچھ نہیں  کہا جاسکتا مگر مذکورہ بالا صورت حال سےاہم اشارے ضرور ملتے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK