Inquilab Logo

رائے دہندگان میں جو ش و خروش کا فقدان، کسے فائدہ، کسے نقصان؟

Updated: May 05, 2024, 5:39 PM IST | Amitabh Tiwari | Mumbai

لوک سبھا انتخابات۲۰۲۴ء کے پہلے مرحلے میں کم پولنگ ہونے سے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پوچھا جارہا ہے کہ ووٹنگ کا کم فیصد کیا ظاہر کرتا ہے؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

لوک سبھا انتخابات۲۰۲۴ء کے پہلے مرحلے میں کم پولنگ ہونے سے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پوچھا جارہا ہے کہ ووٹنگ کا کم فیصد کیا ظاہر کرتا ہے؟ ایسے میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے مختلف نظریات و خیالات سامنے آرہے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں ہی نے دعویٰ کیا ہے کہ کم ووٹنگ ان کیلئے مژدہ جاں فزا ہے۔ 
 خیال رہے کہ پہلے مرحلے میں ۱۰۲؍ سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی۔ اس میں پولنگ کی شرح۶۵ء۵؍ فیصد رہی جبکہ۲۰۱۹ء میں ان سیٹوں پر ۶۹ء۹؍ فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک جو ڈیٹا سامنے آیا ہے اس میں ۴ء۴؍ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا، این جی اوز اور نیوز چینلوں کی بیداری مہم کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے بڑے انتخابات میں ’ٹرن آؤٹ‘ میں اتنی بڑی کمی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے ساتھ ہی عوام کو بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ووٹنگ کا فیصدکم کیوں ہوا؟ تاکہ آئندہ کے مراحل میں کچھ بہتری آسکے۔ ایسا ان حالات میں ہوا ہے جبکہ یہاں پر بی جے پی اور بائیں بازو جیسی کیڈر والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو نظریاتی طور پر ’ووٹ حاصل کرنے‘ کی حکمت عملی کو نافذ کرنے اور ووٹرس کو متحرک کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ 
 ووٹنگ کا فیصد کیوں اہمیت رکھتا ہے؟
 زیادہ یا کم ووٹنگ کے انتخابی نتائج پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ہے؟ البتہ زیادہ ٹرن آؤٹ کو اقتدار میں تبدیلی کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ کم ٹرن آؤٹ میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عوام تبدیلی نہیں چاہتے۔ حالانکہ گزشتہ انتخابات کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی واضح تعلق یا رجحان نہیں ہے۔ 
 ۱۹۵۲ء سے۲۰۱۹ء تک۱۷؍ لوک سبھا انتخابات ہو چکے ہیں۔ ۱۹۵۷ء سے۲۰۱۹ء تک کے۱۶؍ لوک سبھا انتخابات میں (پہلے الیکشن کو چھوڑ کر) ووٹنگ کا فیصد ۶؍ مرتبہ کم ہوا اور۱۰؍ مرتبہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک نتائج کی بات ہے، ان میں سے موجودہ حکومتیں ۸؍ مرتبہ اقتدار میں واپس آئی ہیں اور اتنی ہی بار تبدیل بھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ۱۰؍ مرتبہ جب ووٹنگ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، تو حکمراں جماعت۴؍ بار ہاری ہے اور۶؍ بار جیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی واپسی کی شرح ۶۰؍ فیصد رہی۔ اس کے برعکس۶؍ بار جب ووٹنگ فیصد میں کمی آئی تو حکمراں جماعت۴؍ مرتبہ ہارہی ہے اور۲؍ بار جیتی ہے۔ مطلب یہ کہ ووٹنگ کی شرح میں کمی کی صورت میں حکومت کی واپسی کی شرح۳۳؍ فیصد ہی رہی۔ کم پولنگ نہ صرف جذبات بلکہ حلقہ، امیدوار اور ذات پات کی سیاست جیسے مختلف عوامل پر بھی انحصار کرتا ہے۔ واضح تصویر حاصل کرنے کیلئے حلقہ انتخاب کے حساب سے ووٹنگ فیصد کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ۲۰۱۴ء کے مقابلے۲۰۱۹ء میں ۷۹؍ سیٹوں پر ووٹنگ میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ان میں سے۲۰۱۴ء کی جیتنے والی پارٹی ۲۰۱۹ء میں ۴۳؍ سیٹوں پر الیکشن ہار گئی۔ باقی۳۶؍ سیٹیں جیتنے والی پارٹی اپنی سیٹ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح ۲۳؍سیٹوں پر ووٹنگ میں کمی دیکھی گئی۔ ان میں سے۲۰۱۴ء کی جیتنے والی پارٹی۱۸؍ سیٹوں پر ہار گئی جبکہ باقی ۵؍ سیٹیں بچانے میں وہ کامیاب رہی۔ 
کم ووٹنگ کی مختلف وجوہات
 کم ٹرن آؤٹ کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ فی الحال جو سب سے بڑی وجہ سمجھ میں آرہی ہے، وہ ملک بھر میں جاری گرمی کی لہر ہے۔ اتراکھنڈ جیسی پہاڑی ریاستوں میں بھی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ بی جے پی کے ووٹروں اور کارکنوں میں حد سے زیادہ اعتماد کا بڑھ جانا بھی ہے کیونکہ ان کی اعلیٰ قیادت میں ۴۰۰؍ پار کا نعرہ دے کر انہیں کاہل بنا دیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عوام کی کچھ ایسی ذہن سازی کی گئی گویا اس سے قبل کسی فلاحی اسکیم کا کوئی وجود ہی نہیں تھا

انہیں لگ رہا ہےکہ ہم تو جیت ہی رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی نعرہ اپوزیشن کے حامی ووٹرس کی حوصلہ شکنی کا سبب بھی بنا ہو، اسلئے وہ ووٹ دینے کیلئے گھروں سے باہر نہ نکلے ہوں۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف خطوں میں مختلف طبقوں کی حکمراں جماعت سے ناراضگی بھی کم پولنگ کی وجہ ہوسکتی ہیں۔ جیسے راجستھان اور مغربی اتر پردیش میں راجپوت اورجاٹ ووٹروں کا حکومت کے تئیں عدم اطمینان ہے۔ 
 جنوبی ہند میں، چنئی جیسی شہری سیٹوں پر، بے حسی واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں نوجوانوں اور پہلی بار ووٹ دینے والوں میں بھی شکوک و شبہات تھے۔ انتخابات میں لہر اور ٹھوس موضوعات کا نہ ہونا بھی کم ووٹنگ کا ایک اہم سبب ہوسکتا ہے۔ سوراج انڈیا کے بانی یوگیندر یادو کے مطابق این ڈی اے کی سیٹوں پر ووٹنگ فیصد میں ۵ء۹؍کی کمی درج کی گئی ہے جبکہ `دوسری سیٹوں پر یہ کمی ۳ء۲؍ فیصد ہے۔ 
 اگر اس رپورٹ کے تناظر میں دیکھیں تو بھی یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ اس سے بی جے پی ہی کا نقصان ہوگا۔ پہلے مرحلے کی۱۰۲؍ سیٹوں میں سے بی جے پی نے ۲۰۱۹ء میں ۴۰؍ سیٹیں جیتی تھیں۔ ان سیٹوں پر اس کی جیت کا اوسط فرق ۲۱؍ تھا لہٰذا، ان سیٹوں پر ووٹنگ میں ۵ء۹؍کی کمی کو اگر یہ مان لیا جائے کہ سبھی بی جے پی کے ووٹر تھے، تو بھی اس سے اپوزیشن کو کچھ خاص فائدہ ملتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ بی جے پی کے حامی ووٹرس کے ووٹ نہ دینے سے اپوزیشن کی مدد نہیں ہوگی۔ اگر وہ پولنگ بوتھ تک جاتے اور کانگریس یا اس کے حلیفوں کو ووٹ دیتےتو اثر پڑتا۔ 
 گجرات اس کی ایک واضح مثال ہے جہاں ۲۰۱۷ء اور۲۰۲۲ء میں ووٹنگ کا فیصدکم ہوا تھا، اس کے باوجوددونوں ہی مرتبہ بی جے پی اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی تھی البتہ اس کی جیت کا فرق کم ضرور ہوا تھا۔ کچھ اسی طرح کی صورتحا ل ۲۰۲۲ء میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں دیکھی گئی تھی۔ 
مختصر یہ کہ پارٹیاں، امیدوار، مبصرین اور رائے دہندگان اپنے اپنے انداز میں ووٹنگ میں کمی کے پیچھے کی مساوات کو پڑھ اور سمجھ رہے ہیں۔ تاہم ۴؍جون کو آنے والے نتائج ہی ثابت کریں گے کہ کون سا نظریہ درست ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK