Inquilab Logo

ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہے،اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کابہترین استعمال کریں

Updated: May 05, 2024, 6:07 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

حکومت کے انتخاب کااختیار کوئی معمولی بات نہیں، اس طاقت کو پہچانیں، یہ کوئی رسم نہیں، ایک فریضہ ہے، سوچ سمجھ کر ووٹ دیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں ورنہ خطا ایک لمحے کی ہوگی لیکن اس کی سزا صدیوں بھگتنی پڑے گی

While voting, we have to take care that our vote does not directly or indirectly benefit those whose food is anti-Muslim. Photo: INN
ووٹ دیتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ہمارے ووٹ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اُسے فائدہ نہ پہنچے جس کی خوراک ہی مسلم دشمنی ہے۔ تصویر : آئی این این

انتخاباتکوعام طورپر امیدواروں کیلئے امتحان تصور کیا جاتا ہے لیکن آج کی تاریخ میں یہ رائے دہندگان بالخصوص مسلمانوں کیلئے ایک بڑا امتحان بن گیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے خود کو ایک پارٹی اور ایک طبقے کا وزیراعظم بتا کر مسلمانوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج پیش کردیا ہے۔ ان کے سامنے ’کرو یا مرو‘ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ انتخابات کے ۲؍ مراحل ختم ہو چکے ہیں، تیسرا مرحلہ پرسوں یعنی ۷؍ مئی کو ہے۔ اس کے بعد مزید چار مرحلے ہوں گے جبکہ نتائج کااعلان ۴؍ جون کو ہوگا۔ یہ نتائج ثابت کریں گے کہ ہندوستانی مسلمان ایک زندہ قوم ہیں یانہیں ؟ ان میں وقت و حالات کا ادراک ہے یا نہیں ؟ وقار کےساتھ ان میں رہنے کی رمق باقی ہے یا نہیں ؟ ان میں اپنے اندر موجود میرجعفروں اورمیر صادقوں کی شناخت کی صلاحیت ہے یانہیں ؟ ان تمام سوالات کے جواب۴؍ جو ن کو ہی ملیں گے لیکن اس کے بہت کچھ آثار پہلے ہی سے ظاہر ہوجائیں گے۔ 
 یہ الیکشن کوئی عام الیکشن نہیں ہے۔ اس کے نتائج ثابت کریں گے کہ ملک کس رخ پر جائے گا اور اس میں مسلمانوں کی کیا حیثیت رہے گی؟ عام دنوں میں ہم کچھ زیادہ نہیں کرسکتے لیکن آج ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ۲۰؍ فیصد کی آبادی کم نہیں ہوتی۔ بیشترحلقوں میں ۲۰؍ فیصد ووٹ پاکر کچھ امیدوار کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ عام طورپر ہر الیکشن میں ملک کو بچانے اور ملک میں جمہوریت کو قائم و دائم رکھنے کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہی عائد ہوتی ہے اور مسلمانوں نے بڑی حدتک اس ذمہ داری کو نبھایا بھی ہے، لیکن اس بار کی صورتحال زیادہ نازک اور امتحان زیادہ سخت ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمان اپنے ایک ایک ووٹ کا حساب رکھیں اور ان ووٹوں کانہایت شعور کے ساتھ بہترین استعمال کریں۔ 
 اس بار حالات جہاں سخت ہیں، وہیں اس بات کی آسانی بھی ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ نہیں ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام رائے دہندگان کے سامنے اِکا دُکاجگہوں کو چھوڑ کر تصویر پوری طرح واضح ہے۔ انہیں اِدھر رہنا ہے یا اُدھر رہنا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے درمیان موجودکالی بھیڑیں ہمارے پاس آئیں گی اورہم میں سے بعض کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں گی۔ ان حالات میں نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ جانے والوں کو روکنا ہے بلکہ ان کالی بھیڑوں کی شناخت بھی کرنی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آج کی تاریخ میں مین اسٹریم کی کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جو مسلمانوں کی ہمنوائی کرے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو پارٹی کھلم کھلا مسلم دشمنی کا اظہار کرتی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہی وہ وقت ہے، جب ہم اسے اقتدار کے گلیاروں میں پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: یوپی ایس سی امتحان میں مسلم طلبہ کی نمایاں کامیابی کا پیغام :ستاروں سےآگے جہاں اور بھی ہیں

ووٹ دیتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں ہمارے ووٹ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ اُسے فائدہ نہ پہنچے جس کی خوراک ہی مسلم دشمنی ہے۔ ہمیں صرف آج یا آئندہ کا پانچ سال ہی نہیں دیکھنا ہے بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے اپنا، اپنے بچوں کا اوراپنے ملک کا مستقبل بھی ہونا چاہئے۔ چند سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچنے سے قبل ہمیں حالیہ چند برسوں میں ہونےوالی اپنی دگرگوں کا حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارا ایک غلط ووٹ، ہماری مخالف طاقت کو دُہری قوت عطاکرے گا۔ غلطی ہم آج کریں گے اور اس کا خمیازہ ہماری نسل صدیوں بھگتےگی۔ ہمارے درمیان میرجعفروں اور میرصادقوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ اپنے فائدے کیلئے یہ ہر دور میں قوم کا سودا کرتے رہے ہیں۔ یہ آج بھی وہی کریں گے۔ ہمیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اچھی بات ہے کہ ان کی شناخت اب بہت آسان ہوگئی ہے۔ 
 آج چونکہ پورے ملک میں مقابلہ دو طرفہ ہی ہے، اسلئے اس محاذ پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں توجہ اس بات پر دینی ہے کہ اپنے علاقوں میں پولنگ زیادہ سے زیادہ ہو۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی فرد ووٹ دینے کے حق سے محروم نہ رہ جائے۔ اس کیلئے ایک ایک گھر، ایک ایک بلڈنگ، ایک ایک محلہ اور ایک ایک بوتھ پر نظر رکھنی ہوگی اور اس کا حساب کتاب رکھنا ہوگا۔ 
 جمہوریت میں جہاں ’بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘ وہاں ایک ایک ووٹ کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ ایک ایک ووٹ سے ہار جیت ہوتی ہے۔ ایسے میں نتائج آنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوگا، جو کچھ کرنا ہے، آج ہی کرنا ہے اورسوچ سمجھ کرکرنا ہے۔ راجستھان اور کرناٹک میں ( باکس میں دیکھئے) ایک ایک ووٹ سے نتیجے اِدھر سے اُدھر ہو گئے۔ اس کی وجوہات بھی دیکھئے لیکن بعد میں پچھتانے سے کیا ہوگا جب چڑیا کھیت چگ گئی۔ اسلئے وقت رہتے ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا، اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور صحیح سمت میں صحیح طریقے سے اپنی توانائی کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا۔ یاد رہے، ووٹ نہ دینے والے، ووٹ غلط دینے والے، ووٹرس کو بہکانے والے اور صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کو آئندہ کچھ بولنے اور شکایت کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ بقول شاعر:
ہو بے گناہ تو ہونے سے کچھ نہیں ہوگا
ثبوت دیجئے رونے سے کچھ نہیں ہوگا 
دیا دیئے سے جلاؤ تو روشنی ہوگی
دیا زمین میں بونے سے کچھ نہیں ہوگا
ہار جیت ایک ووٹ سے بھی ہوسکتی ہے
ریکارڈ کے مطابق آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اسمبلی انتخابات میں اب تک ۲؍ مواقع ایسے آئے ہیں جب امیدواروں کو ایک ایک ووٹ سے ہار جیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 
پہلا موقع (کرناٹک اسمبلی ): 
 ۲۰۰۴ء میں ہونےوالے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران ’سنتھے مرا ہلی‘ اسمبلی حلقے میں انتخابی نتائج ظاہر ہوئے تو اسے سن کر جو جہاں تھا، وہیں ساکت و جامد رہ گیا۔ ۴۰؍ ہزار ۷۵۲؍ ووٹ پانے والے کانگریس کے امیدوار آر دھرو نارائن کو فاتح قرار دیا گیاکیونکہ انہیں جنتادل سیکولر کے امیدوار اے آر کرشنا مورتی سے ایک ووٹ زیادہ ملے تھے۔ 
 شکست کی وجہ: بعد میں اس طرح کی خبریں آئیں کہ کرشنا مورتی کا ڈرائیور ووٹ نہیں ڈال سکا تھا۔ وہ ووٹ ڈالنا چاہتا تھا لیکن اپنی انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے کرشنا مورتی نے ووٹ دینے کیلئے اسے چھٹی دینے سے منع کردیا تھا۔ 
 دوسرا موقع( راجستھان اسمبلی):
 کرناٹک میں سنسنی خیز نتیجہ سامنے آنے کے چار سال اسی طرح کا ایک نتیجہ راجستھان اسمبلی کے انتخابات سے بھی برآمد ہوا۔ یہاں ۲۰۰۸ء کے اسمبلی الیکشن میں ’ناتھ دوارا‘ حلقےمیں بی جے پی کے امیدوار کلیان سنگھ چوہان نے کانگریس کے امیدوار سی پی جوشی کو ایک ووٹ کے فرق سے شکست دی تھی۔ اس میں کلیان سنگھ چوہان کو ۶۲؍ ہزار ۲۱۶؍ ووٹ ملے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سی پی جوشی اُس وقت کانگریس کے ریاستی سربراہ تھے اور پارٹی کی کامیابی کی صورت میں وزیراعلیٰ بننے کے دعویدار تھے، لیکن ایک ووٹ نے ان کا راستہ مسدود کر دیا اور اشوک گہلوت آسانی سے وزیراعلیٰ بن گئے۔ 
 شکست کی وجہ: ۲۰۱۳ء میں ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونےوالی ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اُس الیکشن میں سی پی جوشی کی والدہ، بہن اور ڈرائیور ووٹ نہیں ڈال سکے تھے۔ اگر ان کے تین ووٹ ڈالے گئے ہوتے تو نتیجے کچھ اور ہوتے.....

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK