Inquilab Logo

ہندوستانی زبانوں کے حروف کا جشن

Updated: March 22, 2024, 1:17 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

مارچ ۲۰۲۴ء کی ۱۱؍ تا ۱۶؍ تاریخ کو ساہتیہ اکیڈمی نے نئی دہلی میں دنیا کا سب سے بڑا ادبی تہوار یا جشن منعقد کیا۔ ۶؍ دنوں میں ۱۷۵؍ سے بھی زیادہ زبانوں اور بولیوں کے ۱۱؍ سو سے بھی زیادہ ادباء اور شعراء نے شرکت کی اور ان کیلئے مختلف موضوعات پر ۱۹۰؍ سے بھی زیادہ سیشن منعقد کئے گئے۔

On 11th to 16th March 2024, Sahitya Academy organized the world`s biggest literary festival . Photo: INN
مارچ ۲۰۲۴ء کی ۱۱؍ تا ۱۶؍ تاریخ کو ساہتیہ اکیڈمی نے نئی دہلی میں دنیا کا سب سے بڑا ادبی تہوار یا جشن منعقد کیا۔۔ تصویر : آئی این این

اُردو میری مادری زبان ہے اور مَیں اپنی مادری زبان کا جو خالص ہندوستانی زبان ہے شیدائی ہوں۔ مجھے ہر وہ کام اچھا لگتا ہے جس میں اُردو کی ترویج و اشاعت کا امکان ہو اور مَیں ہر اس کام سے دور رہتا ہوں جو اُردو کی تشہیر یا ترویج و اشاعت کے نام پر اپنی تشہیر کیلئے کیا جاتا ہے۔ مجھے ہندوستان کے وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کا یہ بیان اچھا لگا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں سبھی کیلئے آٹھویں تک مادری زبان میں تعلیم دینے کا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اب ہم اُردو والوں کی خاص کر اُردو و اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت اور اس کے شعبوں سے رابطہ کرکے اُردو میں ابتدائی تعلیم کی راہ ہموار کرے۔ اب تک ہوتا یہ رہا ہے کہ اُردو تعلیم اور معیاری تعلیم میں کسی ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت ہو تو لوگ انگریزی تعلیم کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اُردو اسکولوں میں عموماً وہی بچے بھیجے جاتے ہیں جن کے والدین معاشی طور پر مستحکم نہ ہوں۔ اس کے باوجود ہزاروں ایسے افراد ملیں گے جنہوں نے اُردو ذریعۂ تعلیم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور کامیابی کے قابل رشک ریکارڈ بنائے۔ قابل مبارکباد ہیں اُردو اسکولوں کے بیشتر اساتذہ جنہوں نے اپنے طلباء کیلئے ناشتے پانی کا بھی انتظام کیا اور تعلیم بھی دی اسلئے ذریعۂ تعلیم پر رائے دیتے ہوئے مادری زبان کی اہمیت اور تعلیم حاصل کرنے والے بچے کی مالی حیثیت کو ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ احساس بھی ضروری ہے کہ لاکھوں اور ہزاروں کا ڈونیشن دے کر معیاری سمجھے جانے والے اسکولوں میں بچے داخل کئے گئے اور پھر چند برس بعد ہی اسکول سے ان کے نام کاٹ دیئے گئے اس کے بعد وہ کہیں کے نہیں رہے۔
 تقریبات اور اُردو والوں کی پیشہ ورانہ یا سماجی حیثیت اُردو کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتی ہے۔ اسی مارچ کی ۱۱؍ تا ۱۶؍ تاریخ کو ساہتیہ اکیڈمی نے نئی دہلی میں دنیا کا سب سے بڑا ادبی تہوار یا جشن منعقد کیا۔ ۶؍ دنوں میں ۱۷۵؍ سے بھی زیادہ زبانوں اور بولیوں کے ۱۱؍ سو سے بھی زیادہ ادباء اور شعراء نے شرکت کی اور ان کیلئے مختلف موضوعات پر ۱۹۰؍ سے بھی زیادہ سیشن منعقد کئے گئے۔ ان سیشنز میں جن موضوعات پر مقالے اور مضامین پڑھے گئے یا گفتگو کی گئی ان پر عام طور سے گفتگو نہیں کی جاتی حالانکہ ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مثلاً ان سیشنز میں مختلف زبانوں کے شاعروں نے تو اپنا کلام سنایا ہی جن میں خواتین اور نوجوانوں کے سیشن الگ الگ تھے، کہانیاں بھی پیش کی گئیں اور بھکتی ادب پر بھی بات ہوئی یا ادب اطفال کے ترجمے کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش ہوئی مگر ایل جی بی ٹی کیو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی، ان کی شاعری اور نگارشات انہیں کی زبانوں سے سنی گئیں۔ ادب اور ٹیکنالوجی، ادب بطور اسلحہ، ادب اور سفارتکاری، ادب اور اخلاقیات، ادب اور سماجی تحریکیں جیسے نایاب موضوعات پر بھی کھلے ذہن سے گفتگو ہوئی۔ اس جشن میں شمال و جنوب کے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ خاص طور سے شمال مشرق کے قبائل سے تعلق رکھنے والے ادباء اور شعراء بھی شریک تھے۔ تھیڑ پر بات ہوئی، اس سوال پر بھی غور کیا گیا کہ کیا ادب کا ترجمہ کلچر کا تبادلہ ہے۔ کئی شاعروں اور تخلیق کاروں نے یہ بتایا کہ وہ آزادی سے کیا مراد لیتی/ لیتے ہیں یا وہ کیوں لکھتی/ لکھتے ہیں۔ اُردو کے دو خاص سیشن ہوئے۔ ایک میر تقی میر پر ۲؍ روزہ سمینار اور ایک گوپی چند نارنگ پر یک روزہ سمپوزیم۔ یہاں کچھ ایسے مشورے دیئے گئے جن پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ بیشک ہمیں اپنی زبان، اس کے ادب کے ساتھ رسم الخط بھی عزیز ہے۔ اس رسم الخط کے بارے میں گوپی چند نارنگ کا مضمون موجود ہے جس میں اس کا ہندوستانی ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ۶؍ روزہ ادبی تہوار یا جشن کو فیسٹیول آف لیٹرس (حروف کا جشن) کا نام دیا گیا تھا اور حروف میں ش، لا، ی، ث، ص، س جیسے اُردو حروف بھی شامل تھے۔ ساہتیہ اکیڈمی کے بارے میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کا اصل نام نیشنل اکیڈمی آف لیٹرس ہے اور ۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ء تک اس کے صدر رہ چکے سابق صدر جمہوریہ ایس رادھا کرشنن نے کہا تھا کہ ہندوستانی ادب اگرچہ لکھا جاتا ہے مختلف زبانوں (رسم الخط) میں مگر ہے ایک ہی۔ یہی حقیقت بھی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اُردو کے چمن میں ایران توران کے پھول کھلتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اُردو میں وہی پھول کھلتے ہیں جو ہندوستانیت اور ہندوستانی آب و ہوا کے مطابق ہوں۔ حرف جس کی جمع حروف ہے کے لغوی معنی کنارہ، طرف، پہاڑ کی چوٹی، آواز کو ظاہر کرنے والے نشان کی ہے۔ علم صرف میں حرف وہ آواز ہے جس کی تکمیل دوسرے حرف سے ملے بغیر نہیں ہوتی۔ بات، لفظ، سخن، نقص، طنز، عیب کے معنی میں بھی لفظ حرف استعمال ہوتا ہے۔ اُردو نے عربی فارسی حروف کو اپنے مزاج کے مطابق اور اپنی شرط پر قبول کیا ہے۔ بھ، ڈھ تو خالص ہندوستانی آوازیں ہیں اور بھابھی، ڈھال جیسے لفظوں کو حروف میں منتقل کرنے کیلئے دریافت کی گئی ہیں۔ لفظوں سے ہی جو حروف کے بامعنی مجموعے ہیں انسان کی شخصیت، مزاج، کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے ایک عظیم سنت تکارام نے کیا اچھی بات کہی ہے کہ الفاظ ہی وہ جواہر ہیں جو میری ملکیت ہیں، الفاظ ہی وہ لباس ہیں جنہیں مَیں پہنتا ہوں، الفاظ ہی وہ خوراک ہیں جن پر میری زندگی کا انحصار ہے اور الفاظ ہی وہ دولت ہیں جنہیں مَیں لوگوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ساہتیہ اکیڈمی کے ۶؍ روزہ جشن کو ہندوستانی زبانوں کے حروف و الفاظ کا جشن کہہ سکتے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ اس جشن کا اور بڑے پیمانے پر استقبال ہوتا مگر کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھا کر کہ ان کو کیوں بلایا گیا، ہمیں کیوں نہیں بلایا گیا اس جشن کو اور جشن سے زیادہ خود کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایسے ہی لوگوں نے یعنی صرف اپنی ذات کیلئے جینے والوں نے اُردو تعلیم و تدریس، تہذیب اور ادب کو نقصان پہنچایا ہے ان سے توقع نہیں ہے کہ یہ آٹھویں تک اُردو پڑھانے کی عملی تدابیر اختیار کریں گے پھر بھی دوسروں کے ساتھ ان سے بھی درخواست کیا جانا ضروری ہے کہ اُردو کی ترویج و اشاعت کا انحصار اس کی تعلیم پر ہے وہ اس کی عملی صورتوں پر غور کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK