Inquilab Logo Happiest Places to Work

اعلیٰ حضرتؒ نےعشق رسول ؐ کی ایسی شمع روشن کی جس سے تاریک فضائیں آج تک روشن ہیں

Updated: October 01, 2021, 1:38 PM IST | Mufti Muhammad Mujahid Hussain Habibi

امام احمد رضا نے تاحیات مسلمانوں کے ایمان وعقیدے کا تحفظ فرمایا اور بدعقیدگی کے امنڈتے ہوئے ہر سیلاب پر بند باندھ کر اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائی ہے

Hazrat Dargah located in Bareilly Sharif.Picture:INN
بریلی شریف میں واقع درگاہِ اعلیٰ حضرت۔ تصویر: آئی این این

امام عشق ومحبت ، مجدد دین وملت، شیخ الاسلام والمسلمین، سید الفقہا والمحدثین اعلیٰ حضرت امام اہل سنت احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپ کی علمیت کا لوہا مانتے ہیں اورحسب ضرورت آپ کے علمی شہ پاروں سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ آپ نے اپنی تجدیدی شان کے ذریعہ ۱۴؍ویںصدی میں اٹھنے والے ہر فتنہ اور گمرہی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، گستاخان رسول ؐکی ایک بڑی جماعت کو کیفردار تک پہنچایا، بے دینوں اور اسلا م دشمنوں کی جانب سے جب اسلامیانِ ہند کے دینی عقائد پر شب خون مارنے اور انہیں عقائد اسلامیہ حقہ سے دور کرنے کی سازشیں رچی جارہی تھیں، امام احمد رضا نے نہ صرف ان تمام سازشوں کا پردہ چاک کردیا بلکہ قرآنی آیات اور احادیث کے ایسے دلائل وشواہد کا انبار اور ذخیرہ جمع فرمادیا کہ بیگانے بھی عش عش کر اٹھے۔
 امام احمد رضا نے تاحیات مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کا تحفظ فرمایا اور بدعقیدگی کے امنڈتے ہوئے ہر سیلاب پر بند باندھ کر اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائی ہے۔ آپ عاشق رسولؐ تھے اور عشق ومحبت رسولؐ کا پیغام ہر مسلمان کو دیا کرتے تھے۔ آپ کا جینا اسلام کے لئے اور مرنا ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے تھا۔  آئیے اس عظیم ہستی کے حالات زندگی کا مختصر مطالعہ فرمالیں۔
ولادت باسعادت:امام احمد رضا کی ولادت باسعادت ۱۰؍  شوال ۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۴؍جون ۱۸۵۶ء بروز اتوار شہر بریلی شریف محلہ جسولی میں ہوئی۔ پیدائشی نام ’’محمد‘‘ اور تاریخی نام المختار ہے۔ جد امجد مولانا رضا علی نے آپ کا اسم شریف ’’احمدرضا‘‘ رکھا ۔تعلیم وتربیت:رسم بسم اللہ خوانی کے بعد اعلیٰ حضرت کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ چار برس کی ننھی سی عمر میں جب کہ عموماً دوسرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں، قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد حضرت مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، پھر اپنے والد ماجد تاج العلما سند المحققین حضرت مولانا شاہ نقی علی خاں ؓسے درسیات کی تعلیم لیتے رہے ۔    (سوانح اعلیٰ حضرت ، ص:۹۱)
فتویٰ نویسی کاآغاز:  تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں ۱۴؍ شعبان ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ اسی دن مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتویٰ لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا ۔ جواب بالکل صحیح تھا۔ والد ماجدنے آپ کی غیر معمولی اور قابل قدر صلاحیت دیکھ کر اسی وقت سے فتویٰ نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کردی۔
بیعت وخلافت:امام احمد رضا اور آپ کے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی مارہرہ شریف میں حضور پر نورسید شاہ آل رسول احمدیؒ کے دست حق پرست پر ۱۲۹۴ھ بمطابق ۱۸۷۷ء میں سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں بیعت ہوئے، اسی وقت مرشد برحق نے آپ دونوں حضرات کو خلافت نامہ عطا فرماکر خرقہ مقدسہ سے بھی سرفراز فرمایا۔
وعظ وخطاب: شہر بریلی میں ہر سال آپ کے تین زبردست وعظ تو پابندی کے ساتھ ہوا کرتے تھے، ایک وعظ طلبہ فارغ التحصیل کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے موقع پر ہوتا تھا، دوسرا بیان جلسۂ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر  جو ہر بارہویں ربیع الاول کو آپ کی طرف سے حضرت مولانا حسن رضا خاںؒ کے دولت کدہ پر منعقد ہوتا تھا۔ اس  میں شہر بھر کے عمائد ومعززین مطبوعہ دعوت نامہ کے ذریعہ مدعو کئے جاتے۔ 
 اس مبارک جلسہ کی اہمیت پورے شہر میں ایسی تھی کہ اس تاریخ کو کسی دوسری جگہ اہتمام و انتظام کے ساتھ مجلس نہیں ہوتی تھی ،تیسرا بیان مرشد برحق حضرت مولانا سید آل رسول مارہروی ؒکے عرس شریف کے موقع پر جو ہر سال ۱۸؍ ذو الحجہ کو آپ کے کاشانۂ اقدس پر منعقد ہوتا تھا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کی عرض وتمناپر شہر اور بیرون شہر میں بھی آپ کے بیانات ہوتے تھے۔
محدثانہ مقام: امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کا علم حدیث میں مقام بہت ہی بلند وبالا ہے، جس کا اعتراف محدثین وقت ومشائخ عصر نے بھی کیا ہے۔  حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھویؒفرماتے ہیں:  ’’ایک بار میں نے استاد محترم محدث سورتی ؒسے دریافت کیا کہ علم حدیث میں ان کا (فاضل بریلوی کا) کیا مرتبہ ہے تو  فرمایا :’’وہ اس وقت امیر المومنین فی الحدیث ہیں۔‘‘ پھر فرمایا صاحبزادے! اس کا مطلب سمجھے؟ یعنی اگر میں اس فن میں عمر بھر ان کا تلمذ کروں  تو بھی ان کے پاسنگ کو نہ پہنچوں ۔ میں نے کہا سچ ہے۔ ولی را ولی می شناسد وعالم را عالم می داند۔  (امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات، ص:۱۹۲۔۱۹۱، مشائخ قادریہ رضویہ ، ص:۴۱۲۔  ۴۱۱)
فقہی مقام: آپ کی فقاہت کا اعتراف عرب و عجم کو ہے۔’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ایسا فقید المثال شاہکار ہے جسے علوم و معارف کا گنجینہ اور فقہی جزئیات و تشریحات کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جاسکتا ہے۔ آپ کے دارالافتاء میں ہندوستان ، پاکستان ، برما ، چین ، امریکہ، افغانستان، افریقہ،  حجاز مقدس اور بلاد اسلامیہ سے بکثرت سوال آتے تھے جن کی تعداد ایک وقت میں کبھی چار سو اور کبھی پانچ سو تک جاپہنچتی تھی۔ (فتاویٰ رضویہ ، ج:۴، ص:۱۴۹)آپ کے فتوے عربی ،  اردو، فارسی اور انگریزی میں ہیں، انگریزی فتوے ان قلمی مجلدات میں ہیں جو بریلی شریف میں محفوظ ہیں۔

تاریخ وصال: آپ ۲۵؍ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق  ۲۸؍اکتوبر ۱۹۲۱ء بروز جمعہ مبارکہ بہ عمر ۶۸؍ سال محبوب حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
(مضمون نگار آل انڈیا تبلیغ سیرت مغربی بنگال کے سکریٹری ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK