’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: April 29, 2025, 12:02 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
پاتور کے ذمہ دار ان کی جد وجہد کو سلام
ہم اردو سائن بورڈ سے متعلق سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کا احترام کرتےہیں ۔ اردو زبان رابطے کا پل ہے، تقسیم کی دیوار نہیں۔ اردو زبان ايك میٹھی زبان ہے جس کا استعمال ہرکوئی کرتا ہے۔ ہند وستانی فلموں میں بھی اردو کا استعمال ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ سچ ہے کہ حقیقت خود کو منواليتی ہے مانی نہیں جاتی۔ ہم پا تور ضلع ا کولہ کے سید برہان اور ان کے تمام ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ، یہ ان کی جدو جہد کا نتیجہ ہے۔ آپ نے قانونی لڑائی لڑ کر اور جمہوری نظام کا استعمال کرکے تا ریخ مرتب کی ہے۔ تمام کی مشترکہ کوششوں کو سلام۔ اس طرح کے عدالتی فیصلوں سے اردو داں طبقے کو حوصلہ ملتا ہے۔ اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھانے والے والدین بھی خوش ہوتےہیں اور انہیں اپنے بچوں کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف (مہاپولی بھیونڈی )
یہ جیت اردو کیلئے بہت بڑی جیت ہے
میں پاتو ر کے رہنے والوں کی تعریف کرتا ہوں جنہوں نے آج کے دور میں اردو کے لئے جدوجہد کرکے ہمیں فتح دلائی۔ جنہوں نے اپنی جدوجہد سے اردو کے سائن بورڈ کو جائز ٹھہرایا۔ اردو زبان کیلئے جو باتیں عدالت نے کہیں وہ اور بھی بے مثال ہیں۔ سب سے بڑی امید عدالت پرہے۔ جس طرح یہ فیصلہ عدالت نے سنا کر سیکولر ذہن کوقائم رکھا ہے، اسی طرح آنے والے فیصلوں میں ہمیں عدالت پر یقین ہے اور فیصلے بھی ہمارے حق میں ہوں گے جس طرح پاتور کے لوگوں نے عدالت سے رجوع ہوکر قانونی لڑائی لڑی، اسی طرز پر ہم لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہئے تھا تاکہ آنے ولے دنوں میں ان لوگوں کو عدالت سے سبق ملے اورآئندہ کے لئے کسی کے بارے میں یہ لوگ عدالت میں جانے سے پہلے سوچیں۔
امتیاز احمد ملک (زکریا بندر، سیوڑی)
اردوداں طبقہ حق کے حصول کیلئے پرعزم
سپریم کورٹ نے مختلف مواقع پر یہ واضح کیا ہے کہ ریاست کو چاہئے کہ وہ اقلیتی زبانوں اور روایتی زبانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اگر عدالت نے اردو سائن بورڈز کی حمایت میں فیصلہ دیا ہے تو یہ دراصل آئینِ ہند کی شق۳۴۳، ۳۴۴؍ اور۳۵۰؍ کے تحت زبان کے حق کو تسلیم کرنے کا اظہار ہے۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ عوام کی زبان کو سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر جگہ دینا جمہوری تقاضاہے۔ پاتور کے مقامی افراد، جنہوں نے اردو سائن بورڈ کی بحالی یا تنصیب کے لئے آواز بلند کی، ان کی یہ جدوجہد محض زبان کے لئے نہیں بلکہ ایک سماجی پہچان کے لئےبھی ہے۔ یہ جدوجہد یہ ظاہر کرتی ہے کہ اردو بولنے والی کمیونٹی اپنے ثقافتی ورثے، تعلیمی حق اور عوامی نمائندگی کے حق کے حصول کے لئے پرعزم ہے۔
کاشف انجم (مدرس، اقراء شاہین اردوہا ئی اسکول، جلگاؤں )
اردو کو کسی سند کی ضرورت ہی نہیں
اردو زبان نے خود کو پروان چڑھانے کے لئے کبھی کسی مذہبی آنچل کا سہارا لیا۔ وہ تو اس مُلک کا مسلمان اردو کے ذریعے تعصب سے اوپر اٹھ کر ہمیشہ مُلک و مِلت کی فلاح و بہبود کرنے پر یقین رکھتا تھا، ہے اور ہمیشہ کرتا ر ہے گا، کیونکہ تعصب زدہ دماغ کبھی کسی تندرست ماحول کو آسانی سے قبول نہیں کرتا، تعریف کے لائق ہیں پاتور میونسپل کونسل کے سید برہان اور ان کے رفقاء جنہوں نے مُلک کے اردو داں طبقےکی کامیاب پیروی کر کے اردو کو اس کے صحیح مقام پر فائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۔ اردو ہے ہی ایسی زبان کہ جس سے دشمنی کرکے بھی عوام میں خود کو نمایاں کرایا جا سکتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے تو صرف مہر لگائی ہے، ورنہ اردو کو کسی سند کی ضرورت ہی نہیں وہ ہمیشہ سے دِلوں پر راج کرتی آئی ہے اور آگے بھی کرتی ر ہے گی۔
محمد سلمان شیخ(تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
عدالت نے بصیرت افروز تبصرے کئے
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مہاراشٹر کے خطہ ودربھ میں واقع پاتور میونسپل کونسل (ضلع اکولہ ) کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کونہ صرف درست قرار دیا بلکہ اسے ہندوستانی تہذیب کی عظیم علامت کے طورپر سراہا بھی۔ جسٹس سدھانشودھولیا اورجسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے اس مقدمے ( ورشاتائی بنام ریاست مہاراشٹر) میں زبان، تہذیب اور بھائی چارے کے بارے میں بصیرت افروز تبصرے کئے۔ یہ مقدمہ پاتور شہر کی سابق کونسلر ورشا تائی سنجے باگڑے کی جانب سے دائرکردہ درخواست سے شروع ہوا تھا جنہوں نے میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مہاراشٹر لوکل اتھاریٹیز ( سرکاری زبانیں ) ایکٹ کے تحت صرف مراٹھی زبان کا استعمال جائز ہے لیکن سپریم کورٹ نے اس دعوے کو نہایت سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو مذکورہ قانون اورنہ ہی کوئی دوسری قانونی شق اردو کے استعمال پرپابندی عائد کرتی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اردو زبان کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستان کی سرزمین پر جنم لینے والی ایک ہند آریائی زبان ہے جو صدیوں کے ثقافتی امتزاج سے پروان چڑھی۔ بنچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے ہندی اور اردو کے درمیان مصنوعی تقسیم پیدا کی۔ ہندی کو ہندوؤں اور اردو مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ اس تقسیم نے زبانوں کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا جو بھارتی وحدت اور تنوع کے جذبے کے منافی ہے۔
سلطان احمد پٹنی ( بیلاسس روڈ، ممبئی)
اُردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسے ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر پالا
اُردو زبان کیلئے مہاراشٹر میں کام کرنے والوں کی خدمات بے مثال رہی ہیں۔ مہاراشٹر ایک ایسی ریاست ہے جہاں اُردو بولنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں اور یہاں اُردو کے تحفظ و فروغ کیلئے مختلف افراد، تنظیمیں اور ادارے برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر ہم مہاراشٹر میں اُردو کی خدمت کرنے والی کچھ نمایاں شخصیات اور اداروں کی بات کریں تو ان میں شامل ہیں :(۱) ڈاکٹر رفیق زکریا – ایک مشہور ماہرِ تعلیم اور اُردو کے حامی، جنہوں نے اورنگ آباد میں معروف ’معارف کالج‘ قائم کیا اور اُردو تعلیم کو فروغ دیا۔ (۲)پدم شری مجروح سلطانپوری – اگرچہ بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن انہوں نے اپنی شاعری سے اُردو کو عوامی سطح پر مقبول بنایا۔ (۳)مہاراشٹر اردو اکادمی ریاست بھر میں اُردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے سرگرم ہے اور متعدد تعلیمی و ادبی پروگرام منعقد کرتی ہے۔ (۴) ادارہ ادب اسلامی مہاراشٹر – جو اُردو ادب کے ذریعے اسلامی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ (۵) کئی مقامی ادیب، شاعر اور صحافی بھی اُردو کے فروغ میں مسلسل سرگرم رہے ہیں۔ (۶) اُردو میڈیا – جیسے روزنامہ ’انقلاب‘، ’صحافت‘ اور ’اُردو ٹائمز‘ بھی اُردو زبان کوزندہ رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ اُردو کیلئے جدوجہد ایک مسلسل عمل ہے اور مہاراشٹر میں اس کے تحفظ و ترقی کیلئے جو کام ہوا ہے، وہ پورے ملک کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے۔ الحمدللہ پاتور کے ذمّے دار بھی بہت قابل تحسین ہیں کہ انہوں جدوجہد کی اور ہماری کورٹ بھی اپنی جگہ صحیح فیصلہ کر کے سارے ہندوستان کو ایک نئی اُمید اور ہم وطنوں کو ایک دوسرے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی تلقین کی کہ اُردو اسی ہندوستان میں پیدا ہوئی اور یہاں پھلی پھولی اور یہاں سے سارے عالم میں ایک پیغام دیا : ’ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں = زمانہ ہم سے خود ہے زمانے سے ہم نہیں ‘ اُردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسے ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر پالا۔
انصاری اخلاق احمد محمد اسماعیل(کھیر نگر میونسپل سیکنڈری اسکول نمبر ۲؍باندرہ ایسٹ ممبئی)
زبان کے تعلق سے ہمیں اپنا طرز عمل بدلنے کی ضرورت ہے
عدالت عالیہ کا عديم المثال فیصلہ ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ زبان کے تعلق سے ہمیں اپنا طرز عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہےکہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ نہ صرف ذہین ثابت ہوا ہے بلکہ اپنی کاوشوں سے دیگر زبانوں پر غلبہ حاصل کر نے میں وہ کامیاب رہتا ہے۔ فی زمانہ والدین کے ذہنوں پر انگریزی زبان کا رعب چھایا ہوا ہے۔ ان اسکولوں میں فیس کے بے تحاشہ اضافہ کے سبب اکثر والدین اقتصادی پریشانیوں کے با وجود اپنے بچوں کو مذکورہ اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جس سے پچھتاوے کے سواکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زبان کو اگر فرو غ دینا ہے تو اپنی زبان کے الفاظ استعمال کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ گزشتہ ۱۰؍ سال کے دوران لسانی عصبیت کا ماحول نہایت ہی تیز رفتاری کے ساتھ ملک کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے۔
سپریم کورٹ کاحالیہ تاریخ ساز فیصلہ متعصب ذہنوں کیلئے ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں سپرم کورٹ کے معزیز جج صاحبان جسٹس سدھا نشو دھو لیا اور جسٹس کے ونود چندرن صاحبان نے اپنے تاریخ ساز اور عظیم المثال فیصلہ میں اردو کے اکیلے پن کو ہمیشہ کیلئے دور کردیا اور اس زبان کے ازلی دشمنوں کے فتنے پر ہمیشہ کیلئے قفل لگا دیا۔ بڑی نا انصافی ہوگی اگر ہم پا تور کے جناب سید برہان نبی اور ان کے رفقاء کیلئے تعريفی کلمات ادا نہ کریں۔ یہ اردو زبان کے وہ محسن اور وہ جیالے ہیں جنھوں نے ایک طویل عرصے تک اس ز بان کی حقیقت کو منوانے کیلئے عدالتی لڑائی لڑی ۔
زبیر احمد بوٹکے (نالا سوپارہ، ویسٹ)
آئینی حقوق کے تحفظ کی مثال
سپریم کورٹ کا اردو سائن بورڈ سے متعلق فیصلہ زبان، شناخت اورآئینی حقوق کے تحفظ کی ایک اہم مثال ہے۔ ۔ جہاں تک پاتور کی ذمہ داران کی جدوجہد کا تعلق ہے، ان کی مستقل کوششوں نے نہ صرف عوام میں شعور پیدا کیا بلکہ اداروں کو آئینی ذمہ داریاں یاد دلائیں یہ فیصلہ ان تمام افراد اور تنظیموں کی فتح ہے جو مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
مومن ناظمہ محمد حسن
سپریم کورٹ سے اُردو کو انصاف ملا
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اُن لوگوں کیلئے جواب ہے جو کہتے تھے کہ اُردو اس ملک کی زبان نہیں۔ برسوں سے کچھ لوگ اردو کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس فیصلے نے ثابت کیا کہ اردو اس ملک کی مٹی میں رچی بسی ہے، اسلئے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ ذمہ داری ہم سب پر ہے کہ اردو کو صرف بولنے کی زبان نہ سمجھیں بلکہ اسے آگے بڑھانے کیلئے بھی کام کریں۔ اپنے گھروں میں، روزمرہ کی بات چیت میں اردو کا استعمال کریں اور بچوں کو بھی اردو سکھائیں۔ اردو صرف ایک زبان نہیں، یہ ہماری پہچان اور ہماری تہذیب ہے۔ اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو اردو کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
جواد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
فیصلے کا خیرمقدم اور پا تور کے ذمہ داران کی ستائش کی جانی چا ہئے
اُردو سائن بورڈ معاملے پرعدالت عظمیٰ کا فیصلہ تاریخ ساز ہے جو واقعتاً قابل تعریف ہے، اسلئے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چا ہئے۔ عدالت نے اس فیصلے سے یہ ثابت کر دیا کہ اردو ایک مشترکہ زبان ہے اور یہ آ زادی سے قبل بھی ہندوستان کی مقبول ترین زبان رہی ہے۔ اردو محض ایک زبان ہی نہیں مشترکہ تہذیب ہے۔ ماضی میں یہ زبان اپنی وضع داری، رواداری، اخلاق و محبت، ایثار و قربانی اوروطن دوستی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی لیکن آ ج اسے تعصب کے عینک سے دیکھا جا رہا ہےاور ایک خاص قوم سے جوڑا جا رہا ہے۔ عدالت نے ایسے لوگوں کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے۔ اردو صرف اقبال، غالب، میر تقی میر، میر انیس اور فیض احمد فیض کی زبان نہیں ہے بلکہ اس زبان کی زلفیں سنوارنے میں پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم، فراق گورکھپوری، بشیشور پرساد لکھنوی، ماسٹر رام چندر، پنڈت رتن ناتھ سرشار اورکنہیا لال کپور نے بھی اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔ اردو زبان کے تعلق سے راجندر پال سنگھ صد اانبالوی نےکیا خوب کہا ہے۔
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے:اُف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسے کسی خاص طبقے یا قوم کے دائرے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو ہر زبان سیکھنے، لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا حق ہے۔ اس سلسلے میں شہر پاتور کے ذمہ داران قابل ستائش ہیں، ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اور جس جرأت مندانہ طریقے سے اردو زبان کی حفاظت اور بقاء کا کام کیا ہے اسے آ نے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ میں ان تمام افراد اور ان کی ہمت و حوصلے کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے اس کار خیر میں اپنا تعاون پیش کیا۔
مقصود احمد انصاری(سابق معلم رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی)
یہ فیصلہ ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا
اُردو سائن بورڈ سے متعلق سپریم کورٹ کا سنایا گیا فیصلہ اپنے آپ میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس فیصلے کی بازگشت برسوں نہیں بلکہ صدیوں تک سنائی دے گی اور جب بھی اردو کے تعلق سے تعصب کا رویہ اختیار کیا جائے گا، اس فیصلے کو ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ آفرین ہیں پاتور کے وہ لوگ، جنہوں نے یہ لڑائی لڑی۔ اہل پاتور نے کتنا بڑا کام کیاہے اور آج کے مشکل حالات میں اردو کے تحفظ کیلئے کیسی قربانی دی ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ زیربحث فیصلہ یقیناً آب زر سے لکھنے کے قابل ہے مگر فیصلہ آجانے سے اُردو کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے، یہ ممکن نہیں ہے۔ اس فیصلے کو عملاً نافذ یا رائج کرنے کے مقصد سے اہل اردو کو آگے آنا ہوگا اور اپنے اپنے طور پر ہر کسی کو کوشش کرنی ہوگی۔
ایم پرویز عالم نور محمد( رفیع گنج، بہار)
یہ فیصلہ لسانی تنوع کے احترام کا مظہر ہے
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس آئینی حقیقت کو مدنظر رکھا کہ اُردو کا استعمال کسی بھی سرکاری ادارے کے سائن بورڈز پر قانونی طور پر جائز ہے۔ فیصلے میں عدالت نے ہندی کے فروغ کو یقینی بنانے کیلئے آئین میں ہندی کے لفظ کے شامل ہونے کا ذکر بھی کیا تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی ریاستی اسمبلی کسی مقامی زبان کو فروغ دینے کے اختیار سے دستبردار ہو جائے۔ ہندوستان ایک کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہے جہاں مختلف زبانیں اور ثقافتیں ایک ساتھ بستی ہیں۔ اردو اس ملک کی ایک اہم زبان ہے جو خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان بولی جاتی ہے لیکن اس کا استعمال دیگر طبقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اردو کا تحفظ اور فروغ ہندوستان کی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ اردو کے تحفظ اور اس کے استعمال کے حق میں ایک مثبت قدم ہے جو لسانی تنوع کے احترام کو فروغ دیتا ہے۔ ریاستی حکومتوں اور مقامی اداروں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اردو کے استعمال کو فروغ دیں اور اس کے آئینی حقوق کا تحفظ کریں۔ سپریم کورٹ کا اُردو کے حق میں فیصلہ آئین کی روح اور لسانی تنوع کے احترام کا مظہر ہے۔
حافظ افتخاراحمدقادری(کریم گنج، پورن پور، یوپی)
اُردو سخت جان نہ ہوتی تو کب کا مرجاتی
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب عدالتی فیصلے پرمسلمانوں نےمسرت کا اظہار کیا ہے اور قانون کے تئیں اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی معاملات سامنے آئےہیں جب عدالت کے فیصلوں کو مسلمانوں نے مرہم جانا لیکن افسوس کہ اس مرہم سے افاقہ ہونے کے بجائے ان کے زخموں میں اضافہ ہونے لگاہے لہٰذا مسلمانوں کیلئے مرہم سے زیادہ ان کانٹوں پر پابندی ضروری ہے جو انھیں بار بار زخمی کرتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اردو پر ایسے تیر چلائے گئے کہ اگر یہ سخت جان نہ ہوتی تو کب کا مر جاتی۔ اگرچہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن سازشوں کی بنا پر ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ مذہبی منافرت کے نشے میں چور فرقہ پرستوں نے اُردو کو دیش سے نکالا دینے تک کا نعرہ بلند کیا۔ جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو اردو کو مٹانے کی مختلف تدبیریں اپنانے لگے جس کی تازہ مثال پاتور کا یہ معاملہ ہے کہ بی جے پی کی ایک لیڈر ورشا تائی سپریم کورٹ پہنچ گئی، لیکن عدالت عظمی نے اُردو کے حق میں فیصلہ سناکر فرقہ پرستوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے۔
ریاض نورانی(مالیگاؤں )
’زبان تفریق نہیں، تہذیب کی پہچان ہے‘
سپریم کورٹ کا یہ جملہ تاریخی ہے کہ زبان کسی تفریق کا ذریعہ نہیں بلکہ تہذیب، ثقافت اور میل جول کی علامت ہوتی ہے۔ عدالت نے اردو کو’گنگا جمنی تہذیب کا مظہر‘ قرار دیا جو ہندوستان کی مشترکہ روایات اور ثقافتی ہم آہنگی کی نمائندگی کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ، جس کی سربراہی جسٹس سدھانشو دھولیا نےکی اور جس میں جسٹس کے ونود چندرن بھی شامل تھے، نے اپنے فیصلے میں تقسیم ہند کے بعد اُردو کو ہونے والے نقصان کا ذکر کیا۔ بنچ نے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ آزادی کے بعد یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ ’ہندوستانی‘ زبان ملک کی لنگوا فرینکا (مشترکہ عوامی زبان) ہوگی اور اس وقت ’ہندوستانی‘ ہی زبان اردو کے قریب تھی۔
سپریم کورٹ کایہ فیصلہ نہ صرف اردو بولنے والوں کیلئے خوشی کی خبر ہے بلکہ یہ ہندوستان کے تنوع اور تہذیبی یکجہتی کی خوبصورت مثال بھی ہے۔ مبارک باد کےمستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نے اردو زبان کی بقا کیلئے جدوجہد کی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور کسی بھی مرحلے پر ہمت نہیں ہاری۔
مولانا حسیب احمد انصاری( حراء انگلش اسکول، بھیونڈی)
غور کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہورہی ہے؟
گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان میں اردو کا جائز آئینی حق حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے مگر ابھی تک اس میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ قومی زبانوں میں ہندی اور اردو کانام سرفہرست آزادی سے پہلے بھی تھااور آج بھی ہے۔ مہاتما گاندھی نے ان دونوں ہی زبانوں کو ہندوستانی قرار دیا تھا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آزادی سے پہلے اردوزبان نے جتنی ترقی کی وہ آزادی کی نصف صدی سے زائد گزرنے کے بعد بھی اپنوں میں رہ کر نہیں کرسکی۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ہم حکومت پہ الزام لگاتے ہیں کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کراس کےساتھ سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے مگر خود اردو والے کیا کررہے ہیں ؟ ہزاروں اردو اسکولوں میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں۔ پڑھانے والے مسلمان، پڑھنے والے مسلمان، انتظامیہ مسلمان پھر بھی بچے وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے جو دوسری زبان کے بچے حاصل کرتے ہیں۔ اس پر غور کرنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہورہی ہے؟ قوم کے بڑوں بلکہ خود اردو اساتذہ کے بچے اردو اسکولوں میں نہیں پڑھتے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نئی نسل اردو سےدور ہوتی جارہی ہے۔
اقبال احمد خان دیشمکھ( مہاڈ، رائےگڑھ)
قانون کے سنگ اُردو کی لو جل اُٹھی
سپریم کورٹ کا اردو سائن بورڈ سےمتعلق حالیہ فیصلہ محض ایک عدالتی حکم نہیں بلکہ اردو زبان کے وقار، اس کی آئینی حیثیت اور اس کے تہذیبی رشتہ کو تسلیم کرنے کا ایک جرأت مندانہ اعتراف ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا پیغام ہے کہ ملک کی ہر زبان کو مساوی احترام ملنا چاہئے اور اردو جیسی زبان جو برصغیر کی تہذیب کی گواہ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ پاتور کے ذمہ داران کی جدوجہد اس تناظر میں نہایت قابلِ قدر اور مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ ان کی بصیرت، استقامت اور قانون فہمی نے ایک ایسی فضا قائم کی جہاں اردو کے حق میں فیصلہ آنا ممکن ہوا۔ ان کی کوششوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت خالص ہو اور مقصد واضح ہو تو کوئی بھی جدوجہد رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ فیصلہ صرف آج کا نہیں بلکہ اردو کے مستقبل کا چراغ ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کو پیغام دے رہا ہے کہ اپنی زبان، اپنی شناخت اور اپنے حق کیلئے کھڑا ہونا لازم ہے۔
شعیب احمد ریاض احمد(قریشہ آباد، مالیگاؤں )
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تاریخی اور سنگ میل ہے
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اردو زبان اور اردو سائن بورڈ کے حق میں ایک تاریخی اورسنگِ میل ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ عوامی شناخت اور تہذیبی وقار کا مظہر ہے۔ پاتور کے ذمہ داران کی قانونی اور عوامی جدوجہد واقعی مشعلِ راہ ہے۔ ان ذمہ داران نے جس اخلاص کے ساتھ ہر دروازہ کھٹکھٹایا، قانونی چارہ جوئی کی، اردو داں حلقوں کو متحد رکھا، وہ واقعی داد کے مستحق ہیں۔ آج جب اکثر جگہوں پر اردو کے ادارے سیاسی سودے بازی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، وہاں پاتور کے بیدار شہریوں نے اپنی محنت، اتحاد اور اپنی جدوجہد سے اردو کو نیا حوصلہ عطا کیا ہے۔ اردو آج بھی کروڑوں ہندوستانیوں کی مادری زبان ہے اور سرکاری زبان کے طور پر آٹھ ریاستوں میں تسلیم شدہ ہے لیکن عملی سطح پر یہ زبان زوال کی طرف جا رہی تھی۔ اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی، اداروں کی غیر فعالیت اور سیاسی بےحسی نے اسے حاشیے پر دھکیل رکھا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کے پیچھے پاتور جیسے چھوٹے مقام کی بڑی کوشش ایک تحریک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے یہ تحریک ملتی ہے کہ قوم اگر متحد ہو، قانونی طریقے اختیار کرے اورخلوص نیت سے جدوجہد کرے تو تبدیلی ممکن ہے۔ اس میں یہ پیغام ہے کہ اردو کی بقا کیلئے صرف نعرے نہیں، دلیل، قانون اور عمل کی ضرورت ہے۔
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
اس مشن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اب ہماری ہے
پاتور کے ذمہ داران نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی، ان کا یہ قدم واقعی لائق تحسین ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس مشن کو آگے بڑھائیں ۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ اپنے کاروبار کی جگہ دکان، آفس اور اداروں کے بورڈ مراٹھی کے ساتھ ساتھ ہم اردو میں بھی لگائیں۔ بہرحال ہم ان کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا تبصرہ اور فیصلہ تاریخٰ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ اس کیلئے اردو والوں کو ہی اس کا مستقل حل نکالنا ہوگا۔ میرے خیال میں وہ چند حل کچھ اس طرح ہو سکتے ہیں ۔ پہلا حل یہ ہے کہ اردو کے چاہنے والوں کو اپنے بچوں کو انگریزی کے بجائے اردو میڈیم سے تعلیم دلوانا چاہئے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ بول چال میں اردو زبان کو ترجیح دینی چاہئے۔ اسی طرح تیسرا حل یہ ہے کہ اردو زبان کے اخبارات و رسائل اور اب موبائل میں اُردو چینلوں کو اشتہارات دیں۔ چہارم، اُردو اخبارات و رسائل خرید کر پڑھیں۔ پنجم، اردو کو روزگار سے جوڑیں۔ ششم، فلموں میں چونکہ زیادہ تر اردو زبان استعمال ہوتی ہے، اسلئے فلموں کو اردو سرٹیفکیٹ دلوانے کی جدو جہد کریں ۔ اہل خیر حضرات اردو شعرائے کرام، ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ تعاون کریں ۔ ادبی وشعری نشستوں کے اہتمام کریں اور اردو میں دینی پروگرام کو بھی بڑھاوا دیں۔
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
پاتور کے ذمہ داران کا جرأت مندانہ حو صلہ
سپر یم کو رٹ کا تہہ دِل سے شکر یہ کہ جج صا حبان نے اُردوسے متعلق ایک تا ر یخی فیصلہ دیا۔ اسی طرح پا تو ر کے ذِمہ داران کو دِل کی گہرائیو ں سے مبارکبا د اور ان کی ہمت کو داد کہ ا نصا ف حا صل کر نے کیلئے وہ سپر یم کورٹ تک گئے۔ آج کےحا لات میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کیلئے سپر یم کو رٹ تک رسا ئی آسان نہیں ہے۔ اُردوسا ئن بور ڈ کا مسئلہ یوں تو بہت معمولی ہے لیکن پا تور کےذمہ داران کی جدوجہد اور سپریم کو رٹ کےفیصلے نے اِس معمولی مسئلے کو تا ر یخی بنا دیا۔ پاتور میں ۹۰؍ سے ۹۵؍ فیصد مسلما نوں کی آبادی ہے۔ اِسلئے را ہل گا ندھی نے اپنی ’بھا رت جو ڑو یا ترا‘ مہا راشٹر میں پا تو ر شہرسے شروع کی تھی کیو نکہ اُنہیں اس شہر کے مسلمانوں کی تعلیمی اور سیاسی بیداری کا بھر پور علم تھا۔ حکومت کے تین شعبے ہیں۔ مقننہ، عا ملہ اور عد لیہ۔ مقننہ اور عاملہ کا حال تو ہر کو ئی جا نتا ہے۔ عد لیہ نے اِس پٹیشن پر اَپنا فیصلہ دے کر نہ صرف مسلما نو ں بلکہ دیگر اقلیتوں، پسماندہ طبقوں اور جمہوریت کے مدا حو ں کے حوصلو ں کو مزید تقو یت پہنچائی ہے۔ اِسلئے سپریم کورٹ کے اس شاندار فیصلے پر جج صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم پا تو ر کے ذِمہ داران کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آخر میں اس نعرے پر اپنی بات ختم کرنا چا ہوں گا کہ اُردو زندہ باد، انصا ف زندہ باد، پا تورکے ذِمہ داران زندہ باد اور سپریم کورٹ پا ئندہ باد۔
پرنسپل محمد سہیل لو کھنڈ والا (سابق رکن اسمبلی ممبئی)
اس ہفتے کا عنوان
گزشتہ دنوں ہم نے عالمی یوم کتاب منایا۔ ہر سال دنیا بھر میں ۲۳؍ اپریل کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کےتحت یہ دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کو فروغ دینا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز۱۹۹۵ء میں ہوا۔ اس طرح کی کوششیں ایک طرف ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ اب کتابیں نہیں پڑھی جارہی ہیں یا کم پڑھی جارہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
کتابیں پڑھنے کا رجحان کم کیوں ہورہا ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟اور پچھلے ایک سال میں آپ نے کتنی اور کون کون سی کتابیں پڑھیں ؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۴؍ مئی) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ خیال رہے کہ مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ (ادارہ)