Inquilab Logo

ویکسین کی تیاری کے بعد؟

Updated: September 27, 2020, 4:06 AM IST | Prof Syed Iqbal

ابھی ویکسین تیارنہیں ہوئی مگر اس کی قیمت پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسٹریلیا واحد ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو مفت ویکسین تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ برطانیہ نے اس کی قیمت احتیاطاً اتنی ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جتنے پیسے اس کی تیاری میں صرف ہوئے ہوں گے۔ ہمارے ہاں بل گیٹس اور ملنڈا فاؤنڈیشن کی مدد سے تیار ہونے والی ویکسین تین ڈالر میں فروخت ہوگی جبکہ دیگر ممالک اسے ۳۲ ؍ تا ۳۷؍ ڈالر میں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

Vaccine - Pic : INN
ویکسین ۔ تصویر : آئی این این

 آپ اور ہم خوش نصیب ہیں کہ میڈیکل سائنس نے ہمارے زمانے میں چیچک کا علاج دریافت کرلیا اوراس کرۂ ارض سے اسے بالکل ختم بھی کر دیا۔ پولیو اور تپ دق پر بھی بڑی حد تک قابو پایاجاچکا ہے اورایڈز بھی کنٹرول میں ہے۔ بس! ایک کینسر ہے جس پر اربوں روپے خرچ کرنے پر بھی آج تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے لیکن کورونا وائرس کی آمد پر سارا منظر نامہ بدل چکا ہے۔ اچانک ساری دنیا بند ہوگئی۔ فضائی پروازیں منسوخ ، کاروبار ٹھپ، اسکول اور کالج بند اور دنیا کی ہنستی کھیلتی آبادی گھروں میں قید ہوگئی۔ اب ہر کوئی انتظار میں ہے کہ اس موذی مرض کا ویکسین تیارہو، وائرس نیست ونابود ہو اور ہم دوبارہ آزادی کی سانس لے سکیں۔ حکومتوں نے اپنے بجٹ کی ایک بڑی رقم اس ویکسین کی تیاری کیلئے مختص کردی ہے اورکئی ریسرچ ادارے اور دوا بنانے والی کمپنیاں بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں۔ اب جو بھی سب سے پہلے ایک کامیاب ویکسین بنائے گا، اسے مارکیٹ سے اتنا ہی منافع حاصل ہوگا۔ اس لئے ہر جگہ اس کا ’ٹرائل ‘ جاری ہے اور ہرکوئی پیش گوئی کررہا ہے کہ ہمارا ویکسین اس سال کے آخر تک یقیناً بازار میں آجائے گا۔اس درمیان برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سوملین ویکسین برطانوی عوام کیلئے اور دوبلین ویکسین ساری دنیا میں تقسیم کرنےکیلئے  تیارکئے جائیں گے۔ روس کا بھی دعویٰ  ہے کہ اس کا ویکسین بھی اکتوبر تک بازار میں آجائے گا۔ امریکہ بھلا کیوں پیچھے رہ جاتا۔ اس کا ویکسین بھی اگلے سال کی جنوری تک تین سوخوراک لے کر بازار میں آجائے گا۔
  یہ ساری خبریں  پڑھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ساری بدمعاشیوں کے باوجود آج بھی انسانی برادری اپنے ہم جنسوں کی خیر خواہ ہے۔ اگر کہیں کوئی ویکسین تیار ہورہا ہے تو ارباب اختیار اسے دوسروں تک پہنچانے کا بھی سوچنے لگے ہیں۔ البتہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ یہ ویکسین  دنیا کی ساری آبادی میں مساوی طورپرتقسیم ہوگا یا کچھ امیر ریاستیں اسے صرف اپنی سرحدوں تک محدود رکھیں گی؟ عالمی تنظیم صحت کا ویکسین بھی ہنوز تجربے کے مراحل میں ہے اور شاید  ۲۰۲۱ء کے درمیانی مہینوں میں تیارہو لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فارما کمپنیاں بازی مارلے جائیں گی۔ فائزر اور بائیواین ٹیک نے تویہاں تک بیان دے دیا ہے کہ وہ اکتوبر تک اپنا ویکسین تیارکرلیں گی اور صرف یہی دو کمپنیاں نہیں بلکہ کچھ اور کمپنیاں بھی ہیں، جنہوںنے بیان تو نہیں دیا مگر اپنے اپنے طورپر وہ بھی ویکسین کی تیاری میں لگی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات ( بلکہ اسے اندیشہ کہنا چاہئے) ڈاکٹروں کی اس عالمی تنظیم نے کہی ہے کہ امیر ممالک کی اس سازش کا اکثر پتہ نہیں چلتا جس میں وہ فارما کمپنیوں سے سودے کرکے سارے ویکسین اپنے  قبضے میں کرلیتے ہیں اور غریب ممالک کی بے سہارا آبادی تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ مشاہدے کے مطابق ماضی میں اکثر ممالک یہ شرارت کرچکے ہیں جب دماغی بخار کی دوائیوں پر قبضہ کرلیاگیااور غریب ممالک کے بچے دماغی بخار سے مرتے رہے۔  یہ بھی نئی طر ز کی قوم پرستی ہے۔ انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں کہ آپ کو کس نے اختیاردے دیا کہ اپنے وسائل صرف اپنے عوام پر خرچ کریں اورایک انسانی مسئلہ پر غریبوں کو بھلا کر صرف نفع کماتے رہیں۔ خدا کا شکر کہ اس خطرے کا احسا س عالمی تنظیم صحت کو ہوگیا تھا، اس لئے پیش بندی کی خاطر اس نے پہلے ہی ایک گروپ کی تشکیل کردی (Covay) جہاں کچھ نیک ممالک نے اپنی جانب سے پیسے جمع کرواکر غریبوں کیلئے تعاون کا اعلان کردیا ہے۔ ابھی تک اس گروپ نے دوبلین ڈالر جمع کرلئے ہیں تاکہ ویکسین کی دوبلین خوراک افریقہ ، لاطینی امریکہ اور ایشیاء کے غریب ممالک میں تقسیم کی جاسکے ۔ صاحب بہادر امریکی اس گروپ میں شامل نہیں ہے بلکہ عیاری دیکھئے کہ وہ تو عالمی تنظیم صحت ہی کو ختم کردینے کے درپے ہے۔
 یہ بھی پڑھ لیجئے کہ ابھی ویکسین تیارنہیں ہوئی مگر اس کی قیمت پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ آسٹریلیا واحد ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو مفت ویکسین تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ برطانیہ نے اس کی قیمت احتیاطاً اتنی ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جتنے پیسے اس کی تیاری میں صرف ہوئے ہوں گے۔ ہمارے ہاں بل گیٹس  اور ملنڈا فاؤنڈیشن کی مدد سے تیار ہونے والی ویکسین تین ڈالر میں فروخت ہوگی جبکہ دیگر ممالک اسے ۳۲ ؍ تا ۳۷؍ ڈالر میں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔  ایک سوال یہ بھی ہے کہ کس ملک میں یہ نعمت سب سے پہلے کس کے حصے میں آئے گی؟ ظاہر ہے جو حکومت یا ادارہ اسے تیارکرے گا وہی اسے تقسیم بھی کرے گا۔ چونکہ اس کی سپلائی محدود ہوگی، ا س لئے حکومتیں اپنی ترجیحات پر عمل کریں گی۔ ممکن ہے اعلیٰ ذات والوں کو پہلے ملے اور نیچی ذات والوں کو آخر میں، بوڑھوں کو پہلے ملے اور نوجوانوں کو بعد میں، بیماروں کو پہلے اور صحتمندوں کو آخر میں دیاجائے۔ غرض عام آدمی اس سلسلے  میں کچھ نہیں کرپائے گا۔ کچھ ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ویکسین میں سے ۱۵؍ فیصد سب سے پہلے اپنے ملک کے متاثرہ مریضوں میں تقسیم کریں گے اور  بقیہ ویکسین غریب ملکوں  میں بھیج دیں گے۔  دبے لفظوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ویکسین کی ایک تعداد (پانچ فیصد) اس خدشہ کے تحت اپنے پاس ہی محفوظ  رکھیں گے کہ خدانخواستہ اس بیماری نے دوبارہ سرابھارا تو ویکسین کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
 ایک اور اہم مسئلہ ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا بھی ہے۔ بالفرض ہمیں اپنا ویکسین برطانیہ سے منگانا پڑے تو کیا ہم ایک مخصوص درجۂ حرارت میں اسے برطانیہ سے اپنے ہاں تک  لاسکیں گے؟ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ اسوسی ایشن نے نقل وحمل کے اس آپریشن کی تیاری کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ اس کام کیلئے دنیا کو آٹھ ہزار طیارے تیار رکھنے ہوں گے جن میں ایک سا درجہ ٔ حرارت بنائے رکھنے کا نظام موجود ہو کیونکہ ویکسین کولیباریٹری یا کمپنی کے گودام سے بحفاظت نکال کر ایئرپورٹ تک لانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ سفر کے پہلے پوائنٹ سے لے کر آخری پوائنٹ تک ایک Cool Chain کا ہونا ضروری ہے جو بجلی کی سپلائی سے لے کر مشینوں کی مرمت تک کا خیال رکھے ورنہ درمیان میں ایک معمولی سا نقص ابھرنے کی صورت میں ساری محنت اکارت جاسکتی ہے ۔ بدقسمتی سے غریب ممالک کے کچھ ایئر پورٹ ایسے بھی ہیں جہاں اس قسم کے سامان لانے لے جانے کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔ ایسے ہی تقسیم کرنے کا سارا عمل بھی بگڑسکتا ہے۔  اسلئے ایسے کاموں کی پیشگی منصوبہ بندی اشد ضروری ہے کیونکہ یہاں صرف ویکسین ہی نہیں پہنچانا ہے بلکہ بحفاظت پہنچانا ہے۔  ایسے میں سیکوریٹی کے مسائل بھی سراٹھاتے ہیں۔ چونکہ آپسی عنادمیں قیمتی  اشیاء کو چرالینا یا تباہ کردینا بھی عالمی سیاست کا پرانا کھیل ہے، اس لئے  ویکسین کو اس کے مستحقین تک پہنچانا بھی کارے دارد۔ سب سے اہم بات۔ کیا عام شخص یہ ویکسین اپنی جیب سے خرید سکے گا؟ کیا حکومتیں اتنی سبسیڈی دیں گی کہ ایک غریب آدمی بھی انہیں اپنے طور پر  خرید سکے؟ یہ سوال ہنوز حل طلب ہے... اورآخری بات  ، کیا یہ ویکسین اتنا موثر  ہوگا کہ اس کا اثر زندگی بھر یا ایک طویل عرصے تک قائم رہ سکے ؟ کالی کھانسی ، تپ دق اور پولیو کی ایک خوراک آج بھی اپنے میں اتنی مؤثر ہے کہ انہیں دوسری بار لینے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ وزارت صحت  اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں آج بھی انہیں مفت تقسیم کرتی ہیں اوریہ اتنی کامیاب ہیں کہ ان کا اثر تاحیات باقی رہتا ہے۔ آ ج تک کورونا وائرس کے ویکسین کے سلسلے  میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ کیا انہیں ایک بار لینا ہوگا یا انہیں وقفے وقفے سے لینا ضروری ہوگا۔ ایسی صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ ہم’سماجی فاصلے ‘ برقرار رکھیں ، بھیڑ بھاڑ سے دور رہیں اور ان ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے رہیں جو پچھلے کچھ ماہ میں ہماری  عادت بن چکی ہے۔
  بدقسمتی سے ہمارا ملک کورونا وائرس کے نقشے پر دوسرا بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔ اس میں کچھ تو قیادت کی غفلت ، کچھ  سیاسی  مجبوریاں اور کچھ عوام کی جہالت اور حماقتیں شامل ہیں جنہوںنے مل کر کورونا کے مریضوں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ کیا ہے لہٰذا ہر ہندوستانی آج دل سے  دعا کررہا ہے کہ کہیں سے کوئی غیبی طاقت ایسی ویکسین پیدا کردے جو اس مرض کا خاتمہ کردے۔ کیوں کہ اس کارخیر کیلئے ہم تالیاں بھی بجاچکے ،  تھالیاں بھی پیٹ چکے، کچھ دیوانوں نے نعرے لگا لگاکر کورونا کو بھگانے کی کوششیں بھی کرڈالیں مگر کورونا ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کاش! کوئی ان لوگوں کو سمجھائے کہ سائنس اورٹیکنالوجی کے زمانے میں تو ہمات اور فرسودہ عقائد کام نہیں کرتے۔ کام کرتی ہے تو ہوش مندی، منصوبہ بند کوشش اور عملی تدابیر۔  الحمدللہ جو کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔ دعا کیجئے کہ ویکسین تیار کرنے والوں کی محنت کامیاب ہو اور وہ بحفاظت ہمارے مریضوں تک پہنچ سکے۔ کیوں کہ ہم ساری دنیا میں کرپشن کیلئے خاصے بدنام ہیں۔ ہم تو نقلی ماسک بناکر مہنگے داموں  بیچ چکے اور اسپتالوں میں آج بھی مریضوں کو لوٹ رہے ہیں۔ عجب نہیں جو ہم  میں سے کچھ  ویکسین کو بلیک مارکیٹ میں  بیچنے کا انتظار بھی کررہے ہوں۔ اب اللہ تعالیٰ ہی انہیں ہدایت دے ورنہ

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK