Inquilab Logo

معاونین اور محسنین کو فراموش کرنا غیر اخلاقی وغیر اسلامی عمل ہے!

Updated: April 26, 2024, 1:09 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

ہمیں یہ قرآنی اصول ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ شکریہ ادا کرنے سے انعام میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے اور ترقی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

انسانی دنیا کے نظام کو اللہ رب العزت نے کچھ اس طرح ترتیب دیا ہے کہ ہر ایک کی مختلف ضروریات ہیں، جن کی تکمیل کیلئے وہ خود بھی محنت کرتا ہے اور کبھی دوسروں کی بھی مدد لیتا ہے۔ چونکہ دوسروں سے مدد لینا ایک فطری تقاضا ہے، اس وجہ سے انسان کو جب بھی دوسروں سے تعاون ملے، اسے الفاظ تشکر ضرور ادا کرنے چاہئیں کہ حدیث میں اس بات کی صاف لفظوں میں تعلیم دی گئی ہے، جبکہ شکر ادا نہیں کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا: ’’جو لوگو ں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ ‘‘ (ابوداؤد) 
 شکریہ ادا کرنے کے حوالے سے ایک عام رجحان یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی کی طرف سے کچھ ملنے کی صورت میں فوراً الفاظ تشکر ادا کرتے ہیں جو موجودہ وقت میں ایک رسمی طرز عمل ہے اور تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے۔ لیکن شریعت میں تشکر کے باب میں جو مطلوب ہے وہ یہ کہ انسان دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرے؛ کیونکہ ا سلام میں ریاکاری اور تصنع کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ یاد رکھئے! ہمیں جو نفع پہنچاتا ہے وہ صرف ہمارا محسن ہی نہیں بلکہ شریعت کی نگاہ میں بہترین انسان بھی ہے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ‘‘ (کنز العمال) ان دونوں پہلوؤں سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہم تعاون دینے والوں کا دل و جان سے شکریہ ادا نہیں کرتے ہیں تو ہم احسان فراموش ہونے کے ساتھ ایک بہترین انسان کے ناقدر بھی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: معاشرت، فطرت اور اسلامی تعلیمات

زیر بحث موضوع کا ایک انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جب ان کو کوئی ضرورت آن پڑتی ہے تو وہ ایسے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں جو ان کو مدد فراہم کرسکیں ؛ لیکن جب انہیں مدد مل جاتی ہے اور ان کا کام بن جاتا ہے تو وہ معاون کا نہ ہی کما حقہ شکریہ ادا کر تے ہیں اور نہ ہی اس بات کی زحمت کرتے ہیں کہ اپنے محسن سے ملیں اور ان کو بتا کر آگے بڑھیں۔ تعاون چاہے علمی، مالی، سیاسی اور معاشی ہو یا اخلاقی، ہر صورت میں قابل قدر ہے، اس لئے ہمیں زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اپنے معاونین کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ آئیے!موضوع کی مناسبت سے یہاں شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک حکایت پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمیں معاونین اور محسنین کی اہمیت کا احساس ہمارے دلوں میں ہمہ وقت بیدار رہے۔ 
  واقعہ یہ ہے کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں کسی راستے سے گزر رہا تھا۔ دیکھا تو ایک نوجوان آگے آگے جارہا ہے اور ہرن کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ میں سمجھا کہ شاید اس نوجوان نے اسے رسی سے باندھ رکھا ہے تبھی یہ پیچھے چلتا جارہا ہے، لیکن بڑی حیرت ہوئی جب غور سے دیکھا اور کوئی رسّی نظر نہ آئی۔ میں نے نوجوان سے پوچھا:’’برخوردار! یہ ایسا جانور ہے جو انسان کی شکل دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ لیکن یہ تم سے اس قدر مانوس ہوگیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ نوجوان نے کہا:’’میں اس کی غذا کی فکر میں لگا رہتا ہوں۔ اسے کھلاتا پلاتا ہوں۔ یہی وہ احسان ہے جس نے اسے میرے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ احسان اور نیکی، رسی اور زنجیر سے زیادہ مضبوط ہے۔ ‘‘ شیخ سعدی کہتے ہیں، میں نے سوچا بات سچ ہے۔ احسان اور نیکی کی مثال مضبوط رسی کی طرح ہے۔ یہ درندوں اور جانوروں کو بھی فرماں بردار اور وفادار بنادیتی ہے۔ پھر اگر کسی انسان کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ کیوں دوست نہ بن جائے؟(حکایات سعدی)
 اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے محسنوں اور معاونوں کو ہمیشہ عزت دیں اور انہیں یاد رکھیں۔ اس سلسلے میں یہ قرآنی اصول بھی ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ شکریہ ادا کرنے سے انعام میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے اور ترقی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK