Inquilab Logo

نوبیل انعام برائے ادب پانے والی امریکی شاعرہ

Updated: October 11, 2020, 12:05 PM IST | Inquilab Desk

لوئیس گلوک نے کمسنی میں شعری اظہار کی راہیں تلاش لی تھیں، یہی وجہ تھی کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر صرف ۲۵؍ سال تھی۔ رنج و غم اور مایوسی کی دبیز تہوں سے اُمید اور آرزو کے موتی برآمد کرنے کی جستجو ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے

Luis
لوئس گلوک

رنج و غم، اداسی یا مایوسی کسی بھی زبان کی شاعری کو اس لئے مالامال کرتی ہے کہ خوشی و شادمانی کی طرح یہ جذبات بھی ہر عہد اور ہر ملک کے ہر فرقے اور طبقے کی مشترکہ میراث ہیں۔ اگر ساحر لدھیانوی نے کہا کہ ’’ کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا‘‘ تو بشیر بدرنے کہا ’’ ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں، دل ہمیشہ اداس رہتا ہے‘‘ یا ناصر کاظمی نے کہا کہ ’’دل تو میرا اُداس ہے ناصر، شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے‘‘ یا ناصر کاظمی ہی نے کہا کہ ’’ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر،اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ غم اور خو شی وہ انسانی جذبات ہیں جن کے اظہار کے ذریعہ فنکارخود بھی وہ سکون و اطمینان حاصل کرتا ہے جس سکون و اطمینان کا احساس اُس کے فنی مظاہر سے استفادہ کرنے والے پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب بالخصوص شاعری عوام کے دلوں کی آواز بنتی ہے کیونکہ شاعری دل سے نکل کر دل میں سمانے کی قوت و صلاحیت رکھتی ہے، ا سکے ذریعہ ایسی آفاقی سچائیاں اظہار پاتی ہیں جنہیں کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ یہ شاعری ہی کا معجزہ ہے کہ برسہا برس پہلے کہی گئی کوئی نظم یا کوئی غزل یا غزل کا کوئی شعر آج کے حالات میں بھی انسانوں کو سکون و راحت بخشتا ہے یا زخم پر مرہم رکھتا ہے۔ 
 ۲۰۲۰ء کا نوبیل انعام برائے ادب پانے والی امریکی شاعرہ لوئس گلوک (Louise Gliuck)کی شاعری بھی رنج و غم اور مایوسی و اُداسی کی ایسی آواز ہے جو اُمید کی اُنگلی تھامنے اور دُنیا کو امن و سکون کی طرف لے جانے کی خواہش کااظہار ہے۔ اس شاعرہ کے نزدیک داخلی کیفیات انسانی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں اس لئے اس کا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی داخلی دُنیا پر بھی وقت صرف کرے، خود کو سُنے، خود کو سمجھے اور اُس آواز کو شرف سماعت بخشے جو اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اُمید کا دوسرا نام خواب بھی ہے جو لوئس گلوک کی شاعری میں بار بار استعمال ہوا اور ہر بار نئی معنویت کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے۔ خواب ہی میں کبھی تو شاعرہ کی خواہش پوری ہوتی دکھائی دی مگر پھر خواب ٹوٹ گیا اور شاعرہ کو حقیقی زندگی کے کھردرے پن نے اپنا چہرہ دکھایا اور کبھی ایسا ہوا کہ ماضی کی کوئی یاد خواب میں داخل ہوکر نئی اُمید جگا گئی۔ مثال کے طور پر اُن کی نظم ’’انفرنو‘‘ (بھیانک آگ) ان مصرعوں کے ساتھ ختم ہوتی ہے جن میں اُس گھر کو بچانے کی یادیں ہیں جس میں آگ لگ گئی تھی۔ یہ گھر پرانی قدروں کا گھر بھی ہوسکتا ہے اور شاعرہ کی اپنی یادوں کا گھر بھی۔ نظم ’’نیسٹ‘‘ (گھونسلہ) میں بھی شاعرہ ایک ایسے پرندے کا ذکر کرتی ہے جو وہ خواب میں دیکھ رہی ہے۔ یہ پرندہ اپنا نشیمن بنانے کیلئے بڑے جتن کرتا ہے اور شاعرہ اسے اپنی جدوجہد کے استعارہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اُداسی اور مایوسی کے ساتھ ساتھ اُمید اور آرزو اُن کی شاعری میں جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ 
  ییل یونیورسٹی میں انگریزی کی پروفیسر اور امریکہ میں موجودہ عصر کی سب سے زیادہ مشہور شاعرہ لوئس گلوک نے کمسنی میں شاعری شروع کردی تھی جس کا نتیجہ تھا کہ اُن کا پہلا مجموعہ ’’فرسٹ بورن‘‘ ۱۹۶۸ء میں اس وقت شائع ہوا تھا جب اُن کی عمر صرف ۲۵؍ سال تھی۔ مگر اس مجموعے کی بجائے اُن کی شناخت دوسرے مجموعۂ کلام ’’دی ہاؤس آن مارش لینڈ‘‘ سے ہوئی جو سات سال بعد شائع ہوا تھا۔ تب سے اب تک اُن کی ۱۲؍ شعری تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان مجموعوں میں بیرونی آوازوں کا شور نہیں ہے بلکہ علاحدگی، نقصان، موت، تنہائی اور مخدوش ماضی کے حوالے سے فرد کی داخلی آوازوں کی گونج ہے۔ مبصرین نے اُن کا موازنہ ایذرا پاؤنڈ اور رینر ماریہ رِلک سے کیا ہے مگر خود ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی شاعر ولیم کارلوس ولیمس نیز جارج اوپن سے متاثر رہی ہیں۔ اُنہیں نوبیل سے قبل کئی گرانقدر ایواڈ تفویض کئے جاچکے ہیں جن میں پولٹزر پرائز اور نیشنل بک ایوارڈجیسے اعزازات شامل ہیں۔ 
 لوئس گلوک کی شاعری کو ان کے کئی معاصرین نے سوانحی شاعری قرار دیا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی تجربات کو شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے اوائل عمری میں کئی سختیاں برداشت کی ہیں ۔ یہ مسائل گھریلو حالات یا معاشی دشواریوں کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں اُنہیں چند نفسیاتی مسائل لاحق ہوگئے تھے جس کیلئے اُنہیں کم و بیش سات سال تک زیر علاج رہنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ زیادہ مدت تک تعلیم جاری نہیں رکھ سکی تھیں۔ اگر ایک طرف یہ نقصان ہوا تو دوسری طرف ایک بڑا فائدہ، جو اُن کے رجحان کے مطابق تھا، یہ ہوا کہ انہوں نے سارہ لارینس کالج میں شاعری کی کلاسیز جوائن کرلیں۔ یہاں وہ ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۶ء تک رہیں اس کے بعد کولمبیا یونیورسٹی آف جنرل اسٹڈیز میں انہوں نے شاعری کے کئی ورکشاپس میں حصہ لیا۔ اسی یورنیوسٹی کے دو اساتذہ کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ بحیثیت شاعر ان کی شخصیت کے نکھار میں ان اساتذہ کا بڑا کردار رہا۔ گلوک کی شعری تصانیف میں  فرسٹ بورن اور دی ہاؤس آن مارش لینڈ کے علاوہ دی وائلڈآئرس ((۱۹۹۱)، ایورنو (۲۰۰۶)، اے ولیج لائف (۲۰۰۹)اور میڈولینڈز وغیرہ شامل ہیں۔
 لوئس گلوک کو الفاظ کے استعمال میں کافی بخیل مانا جاتا ہے جو خامی نہیں، خوبی ہے۔ شاعر وہی ہے جو کم الفاظ میں زیادہ مفہوم سمو دے، جسے لوگ اپنے اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ شاعر کریگ مارگن تھیچر نے ان کے بارے میں کہا کہ ’’اُن کے پاس الفاظ کی ہمیشہ قلت ہوتی ہے، جو محنت سے کمائے جاتے ہیں اور مشکل سے خرچ کئے جاتے ہیں۔‘‘ ان کی شاعری کی ایک اور خوبی مناظر فطرت سے دوستی ہے جس کے سبب وہ پھولوں اور ان کی خوشبوؤں کو بھی زبان عطا کردیتی ہیں اور اگر یہ نہیں تو یونانی مائیتھالوجی سے مدد لے کر اپنے خیالات کا اظہار ہیں لیکن یہاں بھی وہ ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر یا گن گن کر خرچ کرتی ہیں اس لئے اُن کی شاعری میں تفصیل یا وضاحت نہیں بلکہ رمز اور اشارے ہیں جو شاعری کو معنوی سطح پر زیادہ جہتیں عطا کرتے ہیں۔ذیل میں ان کی چند نظموں کے بند ملاحظہ فرمائیں:
تم جانتے ہو میں کیا ہوں، کیسے جیتی ہوں؟
تم جانتے ہو اُداسی کیا ہے، اس لئے
سرما میں تمہارے لئے بڑی معنویت ہے!
ll
میں کبھی خود کو نہیں دیکھتی 
اگلی صف میں
اپنی بہن کا ہاتھ پکڑے ہوئے
اسی لئے میں شمار نہیں کرسکتی
کہ اس کے بازو میں کتنی خراشیں ہیں
اور اس کی آستین کہاں ختم ہوتی ہے
ll
برسوں پہلے مَیں زخمی تھی
چاہتی تھی کہ باپ سے بدلہ لوں
اس لئے نہیں کہ وہ کیا تھے
اس لئے کہ میں کیا تھی
آغاز بچپن ہی سے مجھ میں یہ خیال پنپنے لگا
مجھ سے محبت نہیں کی جاتی
اس کا مطلب تھا میں محبت کرتی تھی!
ll
میری مت سنو میرا دل شکستہ ہے
میں کوئی چیز معروضی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتی
خود کو جانتی ہوں
خود کو ایک ماہر نفسیات کی طرح سنتی ہوں
جب میں بہت دل لگا کر بولتی ہوں 
تب میری باتوں پر کم سے کم بھروسہ کیا جائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK