Inquilab Logo

جمہوریت کی تفہیم پر یقین رکھنے والا ایک ’فن کار‘

Updated: April 28, 2024, 8:43 AM IST | Sunita Neena | Mumbai

دھرو راٹھی کو آپ جانتے ہیں اُن کے ویڈیوز بھی آپ نے دیکھے ہوں گے مگر کیا آپ اُن کے مشن سے واقف ہیں؟ وہ عوام کو جمہوریت کا مفہوم سمجھانے اور موجودہ دور کے طرز حکمرانی سے واقف کرانے کیلئے خوب محنت کررہے ہیں۔

Democracy. Photo: INN
جمہوریت۔ تصویر : آئی این این

دھرو راٹھی یوٹیوبر ہیں۔ ہوسکتا ہے کوئی یہ سمجھے کہ وہ جمہوریت کے مسیحا ہیں مگر خود دھرو اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کا مطمح نظر یہ ہے کہ وہ ہندوستان کے عوام کو سمجھائیں کہ موجودہ حکومت اُن کے مفاد میں نہیں ہے، اُنہیں چاہئے کہ اپنے ووٹوں کے ذریعہ اس حکومت کو بے دخل کریں تاکہ ہندوستان آمریت کی طرف بڑھنے سے محفوظ رہے۔ اس مقصد کیلئے وہ عوام کو کس طرح سمجھائیں گے؟ کیا یوٹیوب کے ذریعہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کا ویڈیو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اُن کے حالیہ ویڈیو ’’کیا ہندوستان ڈکٹیٹرشپ کی طرف جارہا ہے؟‘‘ کو ۲۴؍ ملین (ڈھائی کروڑ) سے زیادہ ناظرین نے دیکھا۔ اس صمن میں اُن کا کہنا ہے کہ اگر میرا ویڈیو دیکھنے والا ہر شخص ۱۰۰؍ لوگوں کو اعتماد میں لے تو ہزار ملین سے زیادہ صحیح الذہن شہری اس حکومت کو بے دخل کرنے کیلئے کمربستہ ہوجائینگے۔ ہمیشہ ٹی شرٹ پہنےہوئے نظر آنے والے ۲۹؍ سالہ دھرو راٹھی نے اپنے ویڈیوز کے ذریعہ مضبوط ساکھ بنائی ہے۔ وہ ان ویڈیوز کے ذریعہ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں۔
 راٹھی نے سیاسی یوٹیوبر کی حیثیت سے ۲۰۱۶ء سے اپنے سفر اور کریئر کا آغاز یا۔ یہ اس وقت کی ابت ہے جب انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار کی پہلی میعاد ناقص کارکردگی کا مظہر ہے۔ اس سے قبل وہ تعلیمی ویڈیو بنایا کرتے تھے، اُن کے لئے اسپانسر تلاش کرتے تھے۔ یہ سفر بھی کامیاب ہی تھا لیکن وہ یہیں پر نہیں رُکے بلکہ کچھ اور کرنا چاہا۔ اب اُن کا رُخ ایسی تلخ حقیقتوں کی طرف تھا جن کی نشاندہی ضروری تھی۔ اُنہوں نے طرز حکمرانی، آزادیٔ اظہار رائے، سیکولرازم اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں ریسرچ اور ویڈیو سازی شروع کی۔ یہ ایسا انداز تھا کہ جس سے ہندوستانی عوام واقف نہیں تھے۔ جرمنی میں رہتے ہوئے اور اپنی جرمن اہلیہ کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہندوستانی اُمور اور خبروں سے اُن کی واقفیت اور عوام کی رہنمائی کا جذبہ غیر معمولی ہے۔ ابھی چند روز پہلے رام نومی پر اُنہوں نے ٹویٹ کیا تھا: ’’تمام صحیح الذہن ہندوؤں کو متحد ہونا چاہئے تاکہ رام کو ناتھو رام سے بچا سکیں۔‘‘
 آپ دھرو راٹھی کو صحافتی معیارات پر پرکھنے کی کوشش کریں تو یہ کوشش اس لئے بے سود ہوگی کہ وہ خود کو صحافی نہیں کہتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایک یو ٹیوبر ہیں، آرٹسٹ  (فن کار) ہیں، ’’مجھے صحافی مت کہئے۔‘‘ ایسا وہ شاید اسلئے کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں وہ صحافت کے طور طریقے دیکھ رہے ہیں۔ ویسے، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ سوشل میڈیا کو زیادہ مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی زیادہ ذمہ داری سوشل میڈیا پر ہے۔  
 ۲۰۱۹ء میں اُنہوں نے مودی حکومت کے پانچ برسوں کے تجزئیے پر مبنی دو قسطوں میں ایک ویڈیو بنایا تھا جس میں کئی شعبہ جات میں اُن کی کارکردگی کو اسکور دیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں کئی شعبوں میں مودی حکومت کی کارکردگی کو صفر اسکور سے نوازا گیا تھا مگر دو قسطوں پر مشتمل یہ ویڈیو خاصا تنقیدی تھا مگر اتنا نہیں جتنا کہ اس سال فروری میں جاری ہونے والا اُن کا وہ ویڈیو ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے او رجس میں اُنہوں نے کئی واقعات کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان ’’ایک ملک، ایک پارٹی‘‘ بننے کی راہ پر ہے۔ اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں: ’’اگر آپ کو اپنے ملک کی فکر ہے تو آپ کیلئے لازمی ہے کہ آپ اس ویڈیو کو دیکھیں۔‘‘ اس میں کئی واقعات یا اقدامات کا حوالہ دیا گیا ہے مثلاً منتخبہ (ریاستی) حکومتوں کے اختیارات کو متاثر کرنا، دوسری پارٹیوں کے اراکین کو ’’اعتماد‘‘ میں لے کر حکومت بدل دینا، اپوزیشن کو خاموش کرنے کی کوشش کرنا، شہریوں کو احتجاج کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کرنا، مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے داغنا، گورنروں کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کو پریشان کرنا، اپوزیشن کے سیاستدانوں کو جیل میں ڈالنا، ریاستی حکومتوں کو سرمائے کی فراہمی روکنا وغیرہ۔ 
 زیر بحث ویڈیو میں دھرو راٹھی انتخابی عمل میں دھوکہ دہی اور جوڑ توڑ کو بھی موضوع بناتے اور ہتے ہیں کہ ان معاملات سے آپ واقف ہیں مگر ٹی وی کا کون اینکر ہے جو ان پر پروگرام بناتا ہے؟ اس سلسلے میں وہ چنڈی گڑھ کے میئر الیکشن کا حوالہ دیتے ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور میڈیا کے کلپس کا استعمال کرتے ہوئے یہ بتانے کی بڑی حد تک کامیاب کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوک سبھا الیکشن میں ای وی ایم کے چرا لئے جانے کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ وہ اپنی بات دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہی ہیں، بیچ بیچ میں اپنے ناظرین کو بیدار کرنے کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صرف پولنگ بوتھ تک پہنچ جانا اور ووٹ دے آنا کافی نہیں۔ اگر صرف الیکشن جمہوریت کے تحفظ کیلئے کافی ہو تو شمالی کوریا اور روس میں بھی الیکشن ہوتے ہیں۔ دھرو راٹھی نے موجودہ دور کے طرز حکمرانی کو بھی ہدف بنایا اور بتایا کہ کس طرح کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا نے مرکزی حکومت کی متعدد بے ضابطگیوں پر گرفت کی مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا، اُلنا کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کے افسران ہی کا تبادلہ کردیا گیا۔ طرز حکمرانی ہی کو اُجاگر کرنے کیلئے وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھی نہیں بخشتے اور اس کی جانبداری کو بیاں کرنے کیلئے متعدد موقعوں پر اُن لوگوں کو کلین چٹ دینے کا حوالہ دیتے ہیں جو خاطی تھے۔ 
 ۱۰؍ تا ۱۵؍ ہندوستانی تحقیق کاروں اور ایڈیٹروں کی دھرو راٹھی کی ٹیم ہندوستان سے اُن کیلئے کام کرتی ہے۔ اپنے ناظرین کو الیکٹورل بونڈز کی بابت بتاتے ہوئے وہ اُسے ’’گھوٹالوں کی بھنڈار‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے ویڈیوز میں محض لفاظی نہیں بلکہ شواہد پیش کئے جاتے ہیں چنانچہ الیکٹورل بونڈز کے سلسلے میں بھی اُنہوں نے بھرپور تفتیش کے بعد یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح بی جے پی کو عطیات ملے اور پھر گجرات میں اراضی فی مربع میٹر کس بھاؤ میں دی گئی جبکہ سرکاری نرخ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جرأت کا کام ہے۔ 
(اوپر کی تصویر بشکریہ فیس بُک۔ دھرو  بالکل دائیں جانب)

youth youtube Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK