Inquilab Logo

شرم تم کو مگر نہیں آتی

Updated: March 11, 2021, 12:44 PM IST | Khalid Shaikh

جہاں تک فلمی ہستیوں پر مارے گئے چھاپوں کا تعلق ہے اُن میں تاپسی پنّو اور انوراگ کیشپ معروف نام ہیں۔ یہ دونوں بی جے پی اور حکومت کی پالیسیوں کے ناقدین میں سے ہیں اور اس وقت سے حکومت کے نشانے پرتھے جب انہوںنے این آرسی اور سی اے اے اور زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔بالی ووڈ ملک کا مقبول ترین سیکولر ادارہ رہا ہے اورملک کے تئیں اپنی خدمات پیش کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہا ۔

Anurag and Tapsee - Pic : INN
انوراگ اور تاپسی ۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ سات برسوں سے ہمارا ملک ایک عجیب وغریب دور سے گزر رہا ہے ۔ حکومت نے چونکانے،ڈرانے اور مرعوب کرنے والی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے مضمون میں ہم نے جمہوریت کی درگت، مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی، اقلیتوں اور دلتوں کے تئیں منافقانہ رویے اور اکثریت نواز عدالتی فیصلوں کا ذکر کیا تھا لیکن ڈھارس بندھائی تھی کہ جب تک انصاف کا پرچم بلند رکھنے والے منصف حضرات اور طبقات موجود ہیں، وہ جمہوریت کو وینٹی لیٹر پر جانے نہیں دیں گے۔ اس ضمن میں ہم نے دِشا روی کو ضمانت پر رہا کرنے والے سیشن کورٹ جج دھرمیندر رانا کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا جنہوںنے پولیس اور استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے ناکافی ثبوتوں اور دلیلوں پر نہ صرف دونوں کو لتاڑا بلکہ حکومت کو بھی سخت الفاظ میں متنبہ کیا کہ اختلاف واظہار رائے صحتمند جمہوریت کے لازمی عنصر ہیں اس لئے اپنی مرضی اَنا پر مرہم رکھنےکیلئے کسی کو جیل میں ڈالا جاسکتا ہے نہ غداری قانون کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ایسا ہی ایک فیصلہ سپریم کورٹ نے فاروق عبداللہ کے ایک بیان کے سلسلے میں وہ مودی بھکتوں کی داخل کردہ پٹیشن پر دیا۔ فاروق عبداللہ نے اپنے بیان میں آرٹیکل ۳۷۰؍ کی بحالی کیلئے چین سے مدد لینے کی بات کی تھی۔ عریضہ گزاروں نے اس بناء پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے اوران کی پارلیمانی رکنیت ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔ عدالت نے یہ پٹیشن کو خارج کردیا اور عدالت کا وقت  ضائع کرنے کی پاداش میں عریضہ گزاروں پر ۵۰؍ ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔
 گزشتہ ہفتے ایسی کئی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملیں جن کا تعلق مضمون میں اٹھائے گئے جو موضوعات سے تھا۔ ’ فلمی ہستیوں پر ٹیکس چوری کے الزام میں ان کے گھروں اور دفتروں پر انکم ٹیکس   کے چھاپے، امریکی تھنک ٹینک اور عالمی جمہوریت کے نگراں ادارے ’فریڈم ہاؤس کی سالانہ رپورٹ میں جمہوری ممالک کی درجہ بندی میں ہندوستان کی مسلسل گراوٹ، دہلی فساد کے الزام میں گرفتار پانچ  اور سورت میں  دہشت گردی اور سیمی سے تعلقات کے الزام میں پولیس آتنک کا شکار ۱۲۷؍ بے گناہ مسلمانوں کی رہائی جیسے معاملات اسی زمرے میں آتے ہیں۔ مستثنیات کو چھوڑ کر عدلیہ کی کارگزاری بھی مایوس کن رہی ہے۔ ہم سبھوں کو معلوم ہے کہ انتخابی مہم میں مذہب کی بنیاد پر پولرائزیشن کی سیاست تعزیراتِ ہند اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت جرم ہے۔ جے شری رام  ایک مذہبی نعرہ ہے جس کا چلن شمالی ہند اور خاص طورپر ہندی بھاشائی ریاستوں میں ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مرکز کی طرف سے کلکتہ میں منعقد کی گئی سبھاش چندر بوس کی برسی کی تقریب میں مودی کے ساتھ ممتا بنرجی میں ڈائس پر موجودتھیں۔ جب ان کی تقریر کا موقع آیا تو سامعین کے ایک طبقے  میں  انہیں چڑانے کے لئے جے شری رام کا نعرہ لگایا گیا ۔ ممتا نے اس کا جواب دیا۔ انہوںنے تقریر نہیں کی لیکن یہ طنز کئے بغیر نہیں رہیں کہ ’مدعو کیا ہے تو بے عزتی نہ کرو۔‘ بی جے پی اس نعرے کو انتخابی مہم میں استعمال کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ آپ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ لنچنگ اور فساد کے موقع پر بھی اس کا استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لئے یکم مارچ کو ایم ایل شرما نامی ایک وکیل نے انتخابی مہم میں مغربی بنگال میں الیکشن کے موقع پر اس کے استعمال پر روک لگانے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی۔ عدالت نے پٹیشن خارج کردی اور عریضہ گزار کو کلکتہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی ۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ عدالت نے ایسا کیوں کیا؟  
 گزشتہ ہفتے چیف جسٹس بوبڈے کی سربراہی والی ایک  بنچ نے شادی کے بہانے ایک  نا بالغ کی برسوں آبروریزی کے ملزم کو صلاح دی کہ اگر وہ متاثرہ سے شادی کیلئے تیار ہے تو عدالت اس کی مدد کرے گی۔ عدالت نے اپنی پیشکش پر غورکرنے کیلئے چار ہفتے تک اس کی گرفتاری پر روک لگادی جسے ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکیا کہ عدالت اس پیشکش سے سما ج کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے ؟ عدالت کا کام انصاف کرنا ہے نہ کہ میریج بیورو کی طرح رشتے جوڑنا۔ بالفرض ملزم راضی بھی ہوجائے تویہ انصاف نہیں سمجھوتہ ہوگا۔ اس صورت میں کیا عدالت شادی کی کامیابی کی ضمانت دے گی؟ عدالت نے یہ بھی بتایا کہ ملزم کو صلح اس لئے  دی جارہی ہے کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہے اور سزا ہونے پر اس کی نوکری چلی جائے گی۔ حیرت ہے کہ عدالت کومتاثر ہ کا خیا ل نہیں آیا کہ اس پر کیا بیتے گی؟ بعد میں پتہ چلا کہ ملزم نے کسی اور لڑکی سے شادی کرلی ہے یعنی عدالت کا مشورہ   بیکار گیا لیکن اس سے جو کہرام مچنا تھا وہ ہوا۔ حقوقِ نسواں کی  خواتین رضاکاروں ، ممتاز شخصیتوں ، دانشوروں، فنکاروں اور مصنفین  نے ایک کھلے خط میں چیف جسٹس سے اپنے ریمارکس واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ کوئی راہِ فرار نہ پاکر چیف جسٹس نے سیاستدانوں کی طرح یہ کہہ کر اپنا دفاع کیا کہ ان کے ریمارکس کا غلط مطلب نکالا گیا۔
  جہاں تک فلمی ہستیوں  پر مارے گئے  چھاپوں کا تعلق ہے اُن میں تاپسی پنّو اور انوراگ کیشپ معروف نام ہیں۔ یہ دونوں بی جے پی اور حکومت کی پالیسیوں کے ناقدین میں سے ہیں  اور اس وقت سے حکومت کے نشانے پرتھے جب انہوںنے این آرسی اور سی اے اے اور زرعی قوانین کیخلاف کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔بالی ووڈ ملک کا مقبول ترین سیکولر ادارہ رہا ہے اورملک کے تئیں اپنی خدمات پیش کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہا ۔ حکومت کی ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ‘ والی پالیسی نے اسے بھی حکومت حامی ومخالف کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک بڑا طبقہ حکومت کے ساتھ ہے اور اس کی جی حضوری میں لگا رہتا ہے۔ دوسرا طبقہ ظلم اورناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتا۔ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے حکومت طاقت کے ذریعے  اُسے دباتو سکتی ہے ختم نہیں کرسکتی۔ ہندوستان کی وقعت ورفعت میں گراوٹ کا آغاز تو ۲۰۱۴ء میں ہوچکا تھا چنانچہ عدم روا داری اور مذہبی تشدد سے لے کر معیشت، سیاست اور جمہوریت کے ہر پیمانے پر گراوٹ آئی ہے۔ رہی سہی کسر کسان آندولن پر برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والے مباحثے نے پوری کردی ہے لیکن حکومت ہے کہ سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK