Inquilab Logo

آسائش اور آزمائش ساتھ لائی ہے مصنوعی ذہانت

Updated: January 12, 2024, 1:20 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ایلون مسک کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں مصنوعی ذہانت انسانی دانش کو پیچھے چھوڑ دے گی یعنی اے آئی کو سپر انٹیلی جنٹ (انتہائی دانشمند) کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

Artificial intelligence. Photo: INN
آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔ تصویر: آئی این این

مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ کو قومی تعلیمی پالیسی میں  بھی اہم تسلیم کیا گیا ہے اور اسکول تا یونیورسٹی سطح کی تعلیم میں  بھی۔ ان سے متعلق کورسیز بھی شروع ہو رہے ہیں ۔ یو جی سی نے بھی ان کورسیز سے متعلق رہنما اصول یا ہدایات جاری کی ہیں ۔ یہی نہیں  میڈیکل اور انجینئرنگ کی پڑھائی میں  مقامی یا دیسی زبانوں  کو متبادل تسلیم کئے جانے کے بعد ترجمے کے لئے بھی ان سے مدد لی جا رہی ہے یعنی مصنوعی ذہانت کا ہر شعبۂ حیات میں  استعمال بڑھ رہا ہے مگر جیفری ہنٹن نے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بابا آدم یا گاڈ فادر سمجھے جاتے ہیں ، گزشتہ دنوں  یہ کہتے ہوئے گوگل سے استعفیٰ دے دیا ہے کہ وہ اب دُنیا کو اس کے منفی اثرات سے آگاہ کرنے میں  اپنی عمر بسر کریں  گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اس معاملے میں  قانون نہیں  بنائے گئے تو اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت بڑی مصیبت بن جائے گی۔ چیٹ جی پی ٹی جیسا ٹول بنانے میں  کمپنیاں  ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں  مصروف ہیں ۔ کسی شخص کے ایک منٹ کے ویڈیو اور ۴۰؍ اچھی تصویروں  کی مدد سے ایک کے چہرے کے ساتھ دوسرے کا جسم لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں  ایک اداکارہ کا ایک ایسا فوٹو سوشل ویڈیو پر دیکھا جا رہا تھا جس میں  چہرہ اس کا تھا اور باقی جسم دوسرے کا۔ یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ ہمارے وزیراعظم کا بھی ڈیپ فیک ویڈیو بنایا گیا اور انہوں  نے عوام سے ہوشیار رہنے کی درخواست کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اے آئی کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چہرہ اور آواز بدل کر کوئی شخص آپ سے مدد مانگ سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہوگی کہ آپ اپنا یا سگا سمبندھی سمجھ کر جس کی مدد کریں  گے وہ کوئی دھوکے باز ہوگا۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے مگر یہ ممکن نہیں  ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعہ انسانی جذبات کی نقل کر لی جائے مگر اب یہ گمان یقین بنتا جا رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے نہ صرف انسانی جذبات کی نقل یا ترجمانی کی جاسکتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انسان کا بنایا ہوا روبوٹ انسان کا حکم ماننے سے انکار کر دے۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) آن لائن اور آف لائن سرگرمیوں  کو بھی کیمرے میں  قید کرسکتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ کن حالات یا کن کیفیات میں  کوئی شخص کچھ خاص قسم کے اقدامات کرتا ہے اور پھر اس کا جواب ڈھونڈنا آسان ہو جائے گا۔
 مختصر یہ کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا جو استعمال اب تک سامنے آیا ہے اس سے لگتا ہے کہ اس کے ذریعہ بچوں  کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے گی، اساتذہ اپنا کام کم وقت میں  کرسکیں  گے مگر نقصان یہ دیکھنے میں  آرہا ہے کہ بچے اپنے دماغ یا ذہانت کے استعمال سے دور بھاگتے جا رہے ہیں ۔ ٹیکنالوجی پر ان کا انحصار بھی بڑھتا جا رہا ہے یعنی مصنوعی ذہانت ان کی زندگی میں  آسائش بھی لائی ہے اور آزمائش بھی۔ ٹیکنالوجی کا غلام بن جانا اچھا نہیں  ہے اور ایلون مسک نے تو جن کا شمار دُنیا کے نہایت امیر لوگوں  میں  ہوتا ہے۔ یہاں  تک کہا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں  میں  مصنوعی ذہانت انسانی دانش کو پیچھے چھوڑ دے گی یعنی اے آئی کو سپر انٹیلی جنٹ (انتہائی دانشمند) کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ پہلے اے آئی کے ذریعہ صرف جھوٹی باتیں  پھیلائی جاتی تھیں  اب جھوٹے چہرے، جھوٹی سرگرمیاں  اور جھوٹے یا جعلی وجود بھی پھیلائے جاسکیں  گے۔ اس قسم کی باتیں  پہلے بھی ہوتی تھیں  مگر صرف نظریاتی سطح پر۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب منطق پڑھ کر گھر لوٹے اور والد کے ساتھ دسترخوان پر پہنچے تو دیکھا کھانے کے لئے دو اشخاص میں  ایک ہی اُبلا ہوا انڈا ہے۔ والد سے کہنے لگے کہ ہر چیز کا ایک حقیقی وجود ہوتا ہے اور ایک تصور۔ اس بنیاد پر مَیں  ثابت کرسکتا ہوں  کہ یہ اُبلا ہوا انڈا ایک نہیں  دو ہے۔ والد نے بیٹے کی بات سنی اور بحث کرنے کے بجائے یہ کہتے ہوئے اُبلا ہوا انڈا کھا لیا کہ دوسرا تم کھا لینا۔ عملیات، شعبدہ بازی اور طب (موجودہ میڈیکل سائنس) میں  بھی اس قسم کے واقعات ملتے ہیں  مگر مصنوعی ذہانت نے اس قسم کے تصورات کو عملی شکل عطا کرنے کی جو صورتیں  نکالی ہیں  وہ انسان کو حیرت میں  ڈال دینے والی ہیں ۔ اورنگ آباد میں  حال ہی میں  جو تعلیمی کانفرنس ہوئی تھی اس میں  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ عبدالقیوم انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں  دو مقامات پر موجود ہو۔ یہ پہلے آسیب و جن کے ساتھ مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ موجود ہونے کے علاوہ وہ شخص کیا کیا کرسکتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں  ہے۔ اس سے کئی اندیشے بھی پیدا ہوتے ہیں  مگر ہندوستان میں  نئی ٹیکنالوجی کا تجربہ کرنے کے علاوہ اس کے مطابق ’نیا ایکو سسٹم‘ بنانے کا کام بھی صرف پلاننگ کمیشن (نیتی آیوگ) کر رہا ہے۔ اچھا ہوتا کہ یہ کام حکومت ہند کی کوئی مستقل وزارت کرتی۔
 یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے بیان سے نہ صرف ثابت ہوگیا ہے کہ اے آئی کا غلط استعمال ہو رہا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مستقبل میں  یہ مزید خطرناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔ خطرناک صورتحال اور اس کے پیدا کئے ہوئے خطرات سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ اس سے متعلق نت نئے قوانین، ضابطے اور قابل قبول نظام کو قائم کرنے کا کام حکومت کرے۔ اس کیلئے باقاعدہ وزارت اور فنڈ ہو جو اچھے برے پہلوؤں  کی نگرانی بھی کرے اور برے پہلوؤں  کا سدباب بھی۔
 پوچھا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں  مصنوعی ذہانت (اے آئی) مفید ہے یا مضر؟ جواب اس کا یہ ہے کہ کمپیوٹر تیار کرنے والا شخص عزم و ارادے کا مالک ہوتاہے لیکن کمپیوٹر یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس بہت کچھ آزاد روی کا شکار ہونے کے باوجود انسان جتنا سرکش نہیں  ہوسکتا۔ انسان نے کمپیوٹر بنایا ہے اور انسان ہی اس کو لگام دینے کی کوشش کرتا رہے گا۔ آنے والے دنوں  میں  ہم بہتر سافٹ ویئر یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی بہتر صورت کی اُمید کرسکتے ہیں ۔

elon musk Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK