Inquilab Logo

’’میرا سفر غازی آباد یا کانپور تک نہیں، میرا سفر بہت لمبا ہے، اس کی انتہا تو آخرت میں ہوگی!‘‘

Updated: November 24, 2023, 12:37 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک مرتبہ سہارنپور سے کانپور جا رہے تھے۔ جب ریل میں سوار ہونے کے لئے اسٹیشن پہنچے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ سامان اس مقررہ حد سے زیادہ ہے جو ایک مسافر کو بک کرائے بغیر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک مرتبہ سہارنپور سے کانپور جا رہے تھے۔ جب ریل میں سوار ہونے کے لئے اسٹیشن پہنچے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ سامان اس مقررہ حد سے زیادہ ہے جو ایک مسافر کو بک کرائے بغیر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اس کھڑکی پر پہنچے جہاں سامان کا وزن کر کے زائد سامان کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے، تاکہ سامان بک کراسکیں ۔ کھڑکی پر ریلوے کا جو اہلکار موجود تھا وہ غیرمسلم ہونے کے باوجود حضرت کو جانتا تھا اور ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ جب آپ نے سامان بک کرنے کی فرمائش کی تو اس نے کہا کہ ’’مولانا ! رہنے دیجئے، آپ سے سامان کا کیا کرایہ وصول کیا جائے؟ آپ کو سامان بک کرانے کی ضرورت نہیں ، میں ابھی گارڈ سے کہہ دیتا ہوں اور وہ آپ کو زائد سامان کی وجہ سے کچھ نہیں کہے گا۔‘‘
مولانا نے پوچھا: ’’یہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا؟‘‘
’’غازی آباد تک۔‘‘ ریلوے افسر نے جواب دیا۔
’’پھر غازی آباد کے بعد کیا ہوگا؟‘‘مولانا نے پوچھا۔
’’یہ گارڈ دوسرے گارڈ سے بھی کہہ دے گا‘‘اس نے کہا۔
مولانا نے پھر پوچھا’’دوسرا گارڈ کہاں تک جائے گا؟‘‘
افسر نے کہا:’’وہ کانپور تک آپ کے ساتھ جائے گا۔‘‘
’’پھر کانپور کے بعد کیا ہوگا؟‘‘مولانا نے پوچھا۔
افسر نے کہا:’’کانپور کے بعد کیا ہونا ہے؟ وہاں تو آپ کا سفر ختم ہو جائےگا۔‘‘
حضرت نے فرمایا: ’’میرا سفر تو بہت لمبا ہے، کانپور پرختم نہیں ہوگا۔ اس لمبے سفر کی انتہا تو آخرت میں ہوگی ۔ یہ بتائیے کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ اپنا سامان تم کرایہ دیئے بغیر کیوں اور کس طرح لے گئے ؟ تو یہ

گارڈ صاحبان میری کیا مدد کرسکیں گے؟‘‘ 
پھر مولانا نے ان کو سمجھایا کہ یہ ریل آپ کی یا گارڈ صاحب کی ملکیت نہیں ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ، ریلوے کے محکمے کی طرف سے آپ کو یا گارڈ کو یہ اختیار بھی نہیں دیا گیا کہ وہ جس مسافر کو چاہیں ٹکٹ کے بغیر یا اس کے سامان کو کرائے کے بغیر ریل میں سوار کر دیا کریں ، لہٰذا اگر مَیں آپ کی رعایت سے فائدہ اٹھا کر بغیر کرائے کے سامان لے بھی جاؤں تو یہ میرے دین کے لحاظ سے چوری میں داخل ہوگا، مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس گناہ کا جواب دینا پڑے گا اور آپ کی یہ رعایت مجھے بہت مہنگی پڑے گی، لہٰذا براہ کرم مجھ سے پورا کرایہ وصول کر لیجئے۔‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ چوری کی قانونی تعریف خواہ کچھ ہو، لیکن گناہ و ثواب کے نقطۂ نظر سے کسی دوسرے کی چیز اس کی آزاد مرضی کے بغیر استعمال کرنا چوری ہی میں داخل ہے۔ سرکار دوعالم ؐ نے دسیوں احادیث میں مختلف انداز سے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے۔ چند ارشادات ملاحظہ کیجئے۔ ارشاد ہے کہ :
’’مسلمان کے مال کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے اس کے خون کی حرمت۔‘‘  (مجمع الزوائد، ص۱۷۲، ج۴)
’’کسی مسلمان شخص کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً)
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے منیٰ میں جو خطبہ دیا، اس میں بھی یہ ارشاد فرمایا کہ : ’’کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا کوئی مال حلال نہیں سوائے اس مال کے جو اس نے خوش دِلی سے دیاہو۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK