• Tue, 04 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

باقی رہ گیا دینا .....

Updated: November 03, 2025, 5:23 PM IST | Sanjay Oak | Mumbai

گزشتہ دنوں کسی انگریزی ٹیبلائڈ اخبار کے ایک مضمون نے مجھے گہری سوچ اور غور و فکر میں مبتلا کر دیا۔ یہ تحریر موت سے قریب کئی افراد کی زندگیوں کے آخری ایام کا ایک سائنسی وتحقیقی تجزیہ تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
گزشتہ دنوں کسی انگریزی ٹیبلائڈ اخبار کے ایک مضمون نے مجھے گہری سوچ اور غور و فکر میں مبتلا کر دیا۔ یہ تحریر موت سے قریب کئی افراد کی زندگیوں کے آخری ایام کا ایک سائنسی وتحقیقی تجزیہ تھا۔ تحریر اس طرح تھی کہ مختلف مذاہب، ذات اور فرقوں کے مریض’’پالی ایکٹیو کیئر‘‘ یا ’’ہاس پائس‘‘ (زندگی کے آخری ایام میں مریضوں کی تکالیف کو کم کرنے کیلئے کیا جانے والا آخری علاج) کا حصہ ختم کر کے جب  اپنے گھروں کی طرف جاتے ہیں تو یہاں دوبارہ کبھی واپس نہ لوٹنے کے لئے۔ سبھی کو اس بات کا واضح علم ہوتا ہے۔ اب اس کے آگے فالو اَپ نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے تو بس آنے والی اگلی زندگی کافالو آن۔ جب ان مریضوں سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں زندگی کی کسی بات کا رنج، افسوس، ملال،شکایت یا پچھتاوا ہے؟ کیا انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز باقی رہ گئی؟ تب موصول شدہ جوابات میں حیرت انگیز طور پر غیرمعمولی مشابہت تھی۔ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے جب انہوں نے اپنی گزری ہوئی زندگی کو پیچھے مڑ کر دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا اس میں ابھی آخری سفر سے دور زندگی گزارنے والوں کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ دستیاب ہے۔ 
ہر کسی کو ان کی زندگی کے کڑوے لمحات، جھگڑے، اَنا پرست ضد، دفتروں کی سیاست زدہ سازشیں یا مکّاریوں پر مشتمل چال بازیاں، شریک حیات کے ساتھ ہونے والے اختلافات، قطع کلامی، حسد، بےجامقابلہ آرائی کی یاد آگئی۔ اُنہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا کبھی پلٹ کر واپس نہ آنے والا قیمتی وقت ان فضول باتوں میں برباد کر دیا۔ جن باتوں کو ہم نے اُس وقت سب کچھ سمجھ لیا تھا، دراصل آج جب آنکھیں بند ہونے کا وقت آیا ہے تو درحقیقت آنکھیں کُھل گئی ہیں اور یہ منکشف ہو رہا ہے کہ زندگی بھر کے وہ تمام تنازعات، اَنا اور اختلافات دراصل بے سود اور بے معنی تھے۔ اگر یہ تمام اختلافات وقت رہتے ختم کردئیے جاتے تو شاید ہماری زندگی کو کوئی مختلف اور خوبصورت مفہوم حاصل ہو سکتا تھا۔ 
زندگی میں کئی افراد کے متعلق محبت، پسند، عزت و احترام کے جذبات دل میں اُبھرے مگر ہچکچاہٹ اور جھجھک کی زنجیروں میں مقید ہونے کی وجہ سے ان کے سامنے ان باتوں کا اظہار کرنا  ہمیشہ باقی رہ گیا۔ پچھلے چند سال میں جھپّی دینے کی کیفیت پر عمل کرتے تو شاید لفظوں کی بجائے جذبات کی ترسیل ہوتی، یہ بھی سچ ہے۔ اکثر مرد اور وہ عورتیں جو اپنے کاروبار میں مصروف تھیں وہ اپنے گھر اور گھر والوں کے لیے کافی یا وافر مقدار میں وقت نہیں نکال سکے۔بچّے بڑے ہو گئے، آزاد اور خود مختار ہو گئے، ان کا بچپن گزر گیامگر ان کے بچپن کے خوبصورت لمحات اور تجربات سے وہ محروم رہ گئے کیونکہ اُس وقت وہ اپنی شخصیت سازی میں ڈوبے ہوئے بلکہ غرق تھے۔ 
آج جب اپنی زندگی کو پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کو قریب کرنا چاہیے تھا۔ ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا باقی رہ گیا۔ اب نہ بچے قریب ہیں اور نہ ہی ہاتھ اُٹھانے کی ہمت بچی ہے، اب صرف ہاتھوں کی کپکپاٹ باقی رہ گئی ہے۔ درگزر اور معاف کرنا سیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ ذلت کے گھونٹ کیسے نگلے جاتے ہیں؟ یہ بھی سیکھنا باقی رہ گیا۔  آبشاروں میں بھیگنا باقی رہ گیا۔ بہاؤ کی مخالف سمت تیرنا باقی رہ گیا۔ لوگ کیا کہیں گے؟اس بےجا، بے معنی اور فضول سوال کو لاتوں سے ٹھوکر مارنا باقی رہ گیا۔ تمام غموں کو پس پشت ڈال کرکھلکھلاکر ہنسنا باقی رہ گیا ہے۔ کُھل کر سانس لینا باقی رہ گیا۔ زندگی کے کسی نئے تھیلے میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرنا باقی رہ گیا ہے۔ناکامی کے خوف کو ٹھینگا دکھانا باقی رہ گیا۔ سیدھی سادی باتوں میں بہت خوشیاں ہوتی ہیں، یہ قبول کرنا باقی رہ گیا۔ تحریر ختم کرتے ہوئے میری آنکھیں بھر آئی ہیں اور آرتی پربُھو کے  یہ مصرعے یاد آگئے :باقی رہ گیا دیناقرض آسمانوں کا
 مراٹھی سے ترجمہ :شعیب ابجی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK