• Wed, 24 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنگلہ دیش پھر جل رہا ہے

Updated: December 24, 2025, 12:36 AM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

عبوری حکومت تقریباً ہر محاذ پر ناکام رہی۔ نہ ملک میں سیاسی استحکام آیا اور نہ ہی معاشی ترقی ہوئی۔ سب سے دگرگوں حالت لا اینڈ آرڈر کی ہوگئی ہے۔ پچھلے ہفتے ڈھاکہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں جس طرح کے واقعات رونما ہوئے ان کو دیکھ کر تو یہی گمان ہورہا ہے گویا پورے بنگلہ دیش میں لاقانونیت اورطوائف الملوکی پھیل چکی ہے۔ ڈاکٹر یونس عالمی شہریت یافتہ ماہر معاشیات ہوسکتے ہیں لیکن حکومت چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے

Bangladesh
بنگلہ دیش

بنگلہ دیش ایک عرصے سے بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اسٹوڈنٹ لیڈر شریف عثمان ہادی کا قتل وہ چنگاری تھی جس نے بارود میں آگ لگادی اور دھماکہ ایسا ہوا جس نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔
 ہادی طلبہ کی اس تحریک کے صف اول کے لیڈر تھے جس نے پچھلے سال اگست میں شیخ حسینہ حکومت کا تختہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ ایک کٹر اسلامی رہنما اور انقلاب منچ نام کی تنظیم کے ترجمان تھے۔ ان کے قتل کا مشتبہ ملزم عوامی لیگ کاایک نوجوان لیڈر فیصل کریم ہے جس کے بارے میں یہ افواہ گشت کررہی ہے کہ وہ ہندوستان فرار ہوگیا ہے۔بارہ دسمبر کو ڈھاکہ میں نقاب پوش حملہ آور نے ہادی کو گولی ماری تھی۔ انہیں علاج کے لئے سنگا پور لے جایا گیا جہاں جمعرات کے دن وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ ان کی موت کی خبر ڈھاکہ پہنچتے ہی ہزاروں کی تعداد میں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر اترآئے۔ مظاہرین نے ساری رات تشدد اور تخریب کاری کا تانڈو چلا یا۔ ہادی کے حامیوں نے دو معروف اخبارات دی ڈیلی اسٹار اور پروتھوم آلو کے دفاتر پر بھی دھاوا بولا، ان کی عمارتوں میں نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ ان میں آگ بھی لگادی۔ بڑی مشکلوں سے درجنوں صحافیوں کو جلتی ہوئی بلڈنگ سے بچاکر نکالا گیا۔
 ہادی کی شناخت ایک کٹر ہندوستان مخالف اسلامی لیڈر کی تھی۔ ان کی موت کے بعد ان کے حامیوں نے ہندوستان کے خلاف محاذآرائی شروع کردی۔ غم و غصے سے بھرے ہوئے مظاہرین مستقل ہندوستان کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔انہوں نے ہندوستانی سفارت خانہ کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ نفرت میں اندھی ہوگئی ایک بھیڑ نے میمن سنگھ میں ایک ہندو نوجوان دیپو داس پر توہین اسلام کا فرضی الزام لگاکراسے مارڈالا۔ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش اس وقت شدید سیاسی، سماجی اور سفارتی بحران کا شکار ہے۔ 
اگست ۲۰۲۴ء میں شیخ حسینہ کی معزولی اور ملک سے فرار کے بعد جب نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی گئی توبنگلہ دیش کے عوام نے اطمینان کا سانس لیاتھا۔ انہیں لگا تھا کہ روائتی سیاستدانوں کے بجائے ڈاکٹر یونس بہترلیڈر ثابت ہوں گے اور ان کی قیادت میں ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے گا اور معاشی ترقی بھی۔لیکن یونس بنگلہ دیش کے عوام کے توقعات پر پورے نہیں اترے۔ عبوری حکومت تقریباً ہر محاذ پر ناکام رہی۔ نہ ملک میں سیاسی استحکام آیا اور نہ ہی معاشی ترقی ہوئی۔ سب سے دگرگوں حالت لا اینڈ آرڈر کی ہوگئی ہے۔ پچھلے ہفتے ڈھاکہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں جس طرح کے واقعات رونما ہوئے ان کو دیکھ کر تو یہی گمان ہورہا ہے گویا پورے بنگلہ دیش میں لاقانونیت اورطوائف الملوکی پھیل چکی ہے۔
اس وقت بنگلہ دیش میں جو اتھل پتھل اور خونریزی ہورہی ہے وہ پہلے بھی مختلف ممالک میں انقلاب کے بعد دیکھی جاچکی ہے۔ پچھلے سال حسینہ کی تاناشاہی کے خاتمےکے لئے جو جماعتیں اور تنظیمیں متحد ہوگئی تھیں ان کا تختہ پلٹنے کے بعد وہ سیاسی حریف بن گئی ہیں کیونکہ سب کو اقتدار کی ہوس ہے۔بی این پی اور جماعت اسلامی دیرینہ اتحادی تھیں لیکن اس بار دونوں ایک دوسرےکیخلاف مقابلہ آرا ہیں۔
 جب سے انتخابات کی تاریخ (بارہ فروری) کا اعلان ہوا ہے تب سے سیاسی تصادم اور تخریب کاری میں اضافہ ہوا ہے۔سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کے حصول کے لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے بھی گریز نہیں کررہی ہیں۔ ان کی اقتدار کی اس جنگ میں عام بنگلہ دیشی شہری بری طرح پس رہا ہے۔ ملک میں سیکولر اور مذہبی اقدارکے درمیان بھی زبردست رسہ کشی ہورہی ہے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی پارٹیوں میں ہندوستان کے خلاف زہر افشانی کا بھی مقابلہ چل رہا ہے۔ہندوستان کی مخالفت کو بنگلہ دیش میں ایک نہایت منافع بخش سیاسی کارڈ سمجھ کر ماضی میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خالدہ ضیا کی بی این پی اور ان کی اتحادی جماعت اسلامی انتخابات کے قبل اکثر اس کارڈ کو شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے خلاف استعمال کرتی تھیں۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے شیخ حسینہ کے طویل دور اقتدار میں ملک پر عوامی لیگ کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی جس کے نتیجے میں ہندوستان مخالف پارٹیوں اور تنظیموں کے لئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا دشوار ہوگیا تھا۔ تاہم حسینہ کی معزولی کے بعد سے ہندوستان مخالف طاقتوں کو اپنے ایجنڈہ پر عمل درآمد کی گویا کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ ہادی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی جارحانہ ہندوستان مخالفت تھی۔
 بنگلہ دیش میں بلند ہوتی ہندوستان مخالف آوازوں اور ہندو شہریوں پر بڑھتے مظالم کی وجہ سے وطن عزیز میں بی جے پی، شدت پسند ہندو تنظٰیموں اور گودی میڈیا کی گویا لاٹری نکل آئی ہے۔پچھلے ایک ہفتے سے بنگلہ دیش کے حالات کو نمک مرچ لگاکر ہندوستان کا سیاسی اور سفارتی پارہ گرم اور ہندوستانیوں کو مشتعل کیا جارہا ہے۔ اگر بنگلہ دیش میں حالات ایسے ہی بے قابو رہے تو ہندوستان کے فرقہ وارانہ امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔گودی میڈیا اور سوشل میڈیا پر جیسی شعلہ بیانی کی جارہی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ نفرت کی آگ بھڑکنے میں دیر نہیں لگے گی۔
 پچھلے سال حسینہ حکومت کے خاتمے کو عوام نے بنگلہ دیش کی دوسری آزادی سے تعبیر کیا تھا۔ کسے خبر تھی یہ آزادی اپنے ساتھ اتنے مسائل اور مصائب لائے گی؟ آج سولہ ماہ بعد بنگلہ دیش کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیااسی تبدیلی کیلئے انہوں نے اتنی قربانیاں دی تھیں۔ ملک میں اس وقت انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر یونس عالمی شہریت یافتہ ماہر معاشیات ہوسکتے ہیں لیکن حکومت چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یونس مکمل طور پر ایک ناکام نگراں حکمراں ثابت ہوئے ہیں۔مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں اس سیاسی عدم استحکام اور سماجی انتشار کا فائدہ اٹھاکر فوج مداخلت نہ کر بیٹھے۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے نفاذ کی تاریخ رہی ہے۔بنگلہ دیش کی آزادی کے چار سال کے اندر فوج کے ایک خونی ٹولہ نے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتار کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ ۱۹۷۵ءکے اس سانحے کے بعد پندرہ برسوں تک بنگلہ دیش فوجی بوٹوں کے تلے کراہتا رہاتھا۔ یونس کی عبوری حکومت کی ناکامی کے نتیجے میں اگر ملک میں ایک بار پھرکوئی جنرل ڈھاکہ کی گدی پر بیٹھ گیا تو ملک میں بچی کچھی جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا۔ عبوری حکومت نے الیکشن کا اعلان تو کردیا ہے لیکن اعلان کے ساتھ ہی جس طرح پورے ملک میں تشدد، انتشار اور بد امنی پھیلنے لگی ہے اس سے یہ خدشہ بھی ہونے لگا ہے کہ آیا انتخابات بارہ فروری کو ہوں گے بھی یا نہیں۔n

bangladesh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK