Inquilab Logo

معرکہ ٔ بدر عزم و یقیں کے اَن گنت چراغ روشن کر رہا ہے

Updated: March 28, 2024, 1:53 PM IST | Ghulam Mustafa Rizvi

مدینہ منورہ سے ۸۰؍ میل کی دوری پر ’بدر‘ واقع ہے جہاں ۱۷؍ رمضان کو اسلام و کفر کے درمیان عظیم معرکہ ہوا جس میں کفر کو شکست ہوئی۔ فتح اسلامی کا یہ عظیم دن ’’یوم الفرقان‘‘ کہلایا۔

Arish Mosque located in Maidan e Badr. Photo: INN
میدان بدر میں واقع مسجد عریش۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا… اپنا محبوب(ﷺ) بھیج کر بابِ رسالت مکمل کر دیا… بہاروں کی زمین پر انبیاءؑ کی آمد ہوتی رہی… محبوبِ کریم ﷺ کو پتھروں کی زمیں پر بھیجا… ریگ زارِ عرب میں بھیجا…اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ بھی پتھر کے تھے… سچائی کا آوازہ بلند ہوا… حرا کی وادیوں سے علم و یقیں کا اُجالا پھیلا … وادیٔ مکہ مکرمہ نغماتِ توحید و رسالت سے گونج اُٹھی… سردارانِ قریش، آقایانِ کفر لرزہ بر اَندام ہو گئے…اُنہیں پیغمبر آخرالزماں ﷺ کی دعوتِ فطرت ایک آنکھ نہ بھائی… جور و ستم کے پہاڑ توڑے گئے… سماجی بائیکاٹ کیا گیا… ظلم شباب کو پہنچا … ہجرت کا عظیم مرحلہ درپیش آیا… اوّل جانب ِ حبشہ ہجرت کی گئی … رسول کریم ﷺ مدینہ منورہ ہجرت فرما ہوئے جو ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ہجرت کی ہر ساعت معجزوں کی نورانی قندیل سے روشن ہے۔ اہلِ مدینہ مسرور ہو اُٹھے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ وادیِ طیبہ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا کے والہانہ نغموں سے گونج اُٹھی۔ 
عہدِ وفا: اہلِ مدینہ نازاں تھے کہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ گر ہیں … اصحاب و انصار نبی کریمؐ کی ناموس کیلئے جان نچھاور کرنے کو ہر آن آمادہ تھے…گرچہ اب تک جور و زیادتی اور ظلم و ستم پرصبر ہی کیا گیا تھا؛ لیکن اب تقاضا تھا کہ باطل کو سرنگوں کیا جائے اور ظلم کے پنجوں کو مروڑ دیا جائے۔ ۲؍ ہجری میں حکمِ الٰہی نازل ہوا کہ ’’خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔ ‘‘ اِس لئے جہاد کیلئے قصد فرمایا گیا … صحابۂ کرام و انصار نے جاں نثاری کا عہدِ وفا کیا… بخاری شریف کی روایت میں یہ الفاظ محفوظ ہیں :’’ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ؛ جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا، ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔ ‘‘ راویٔ حدیث حضرت عبد اللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں : میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور فرطِ مسرت سے چمک اُٹھا ہے۔ (بخاری شریف)
 انصار کی نیابت میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے وہ اس طرح ہیں :
 ’’ اے اللہ کے رسول ؐ ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپؐ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے، جو حکم ہو گا اسے بجالائیں گے۔ آپؐ بلا تامل اپنا ارادہ پورا فرمائیں۔ ہم دل و جان سے آپؐ کا ساتھ دیں گے… قسم ہے اُس ذاتِ پاک کی جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے؛ اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں کود پڑیں گے اور (اللہ نے چاہا تو) ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ‘‘
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے یہ جاں نثارانہ جوابات سُن کر مسرور ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ کے نام پر چلو، تمہیں خوش خبری ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابوجہل یا ابوسفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطا کروں گا۔ ‘‘ (زرقانی، جلد۱، صفحہ۶۱۶)
معرکۂ بدر: مدینہ منورہ سے ۸۰؍ میل کی دوری پر ’بدر‘ واقع ہے جہاں ۱۷؍ رمضان کو اسلام و کفر کے درمیان عظیم معرکہ ہوا جس میں کفر کو شکست ہوئی۔ فتح اسلامی کا یہ عظیم دن ’’یوم الفرقان‘‘ کہلایا۔ اسلامی فوج ۳۱۳؍ افراد پر مشتمل تھی جبکہ کفار ایک ہزار سے کم نہ تھےجن کے پاس بیش قیمت تلواریں، ہتھیار اور اونٹ وغیرہ سامانِ جنگ کثیر تھے۔ مسلمان فرسودہ ہتھیار، قلیل سامانِ جنگ کے باوجود اللہ کی مدد پر مکمل یقین کے ساتھ محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں باطل سے نبرد آزمائی کو تیار تھے۔ 
میدان میں زبردست حکمت کے ساتھ محبوب پاکؐ نے صفیں آراستہ کروائیں، محل وقوع و ماحول کے پیشِ نظر انتظامات فرمائے، حضرت سعد بن معاذ ؓ کے مشورے سے قریبی ٹیلے پر آپؐ کیلئے عریش (سایہ) بنوایا گیا تا کہ میدانِ جنگ کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ اسی مقام پر آج مسجد عریش ہے۔ 
 ۳۱۳؍ جاں نثارانِ اسلام ایک ہزار سپاہ سے لڑنے کیلئے پُرعزم تھے۔ حضور اقدس ﷺ ایک چھڑی ہاتھ میں لئے میدان میں تشریف لائے، صفوں کو درست فرمایا، سردارانِ کفار کے مرنے کی جگہ نشانات لگائے، میمنہ اور میسرہ پر سالار تعینات فرمائے، جنگی اُصول دیئے اور مختلف النوع ہدایات ارشاد فرمائیں۔ 
حق غالب آیا: جنگ ہوئی، کثیر پر قلیل غالب آئے، کُفر پر اہلِ حق کو سبقت ملی اور کفر نے وہ زخم کھائے جس کے نتیجے میں اسلام کا قصرِ رفیع مستحکم ہوا۔ جنگ کا غبار چھٹا تو دیکھا گیا کہ جس مقام پر جس سردارِ قریش کی موت کی پیشگی نشاندہی کی گئی تھی، وہ وہیں اپنے انجام کو پہنچا۔ علمِ غیب ِ نبوی کی وسعت کا نظارہ دُنیا نے دیکھا، اللہ نے فرشتوں کی سپاہ بھیج کر کفر و ظلم کو مغلوب کیا … جو سازشوں کے خوگر تھے ان کی موت اسلام کی شوکت کا پیغام بن گئی، ان کی نسلوں نے اسلام قبول کیا اور محبوبؐپر جانیں نچھاور کیں۔ 
آج بھی معرکۂ بدر عزم و یقیں کے اَن گنت چراغ روشن کر رہا ہے، جن سے نور لے کر اسلام کے قصرِ رفیع کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ آج پھر درجنوں طوفان درپیش ہیں، وجودِ مسلم کے خاتمے کیلئے اقتدارِ باطل نے کمر کس لی ہے، ہر روز نئے فتنے ہیں، شام و عراق اور یمن و فلسطین کی تاراجی کے بعد ایوانِ کفر سربراہانِ مملکتِ اسلامیہ سے متحد ہو کر مزید اسلامی مملکتوں کی تاراجی کو آمادہ ہے۔ ایسے حالات میں بیداری کے ساتھ تگ و دَو کی ضرورت ہے جس کا نتیجہ یقیناً اُمید اَفزا اور عزم کا اشاریہ ثابت ہوگا۔ گویا عزم و یقیں کی تجدید کا درس ’وادیِ بدر‘ سے آج بھی مِل رہا ہے :
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نُصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK