Inquilab Logo

آن لائن، آف لائن کے درمیان

Updated: January 24, 2021, 2:24 PM IST

اب وہ دور نہیں رہ گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو موبائل سے روکیں۔ پہلے نوٹس اور رہنما خطوط موبائل پر موصول ہوتے تھے، اب وبائی حالات کی وجہ سے پورا اسکول ہی موبائل میں سمٹ گیا ہے۔ اسی میں کلاس روم ہے، اسی میں ساتھی طلبہ اور اسی کے ذریعہ معلم یا معلمہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے چنانچہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کی طرز پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب ’’موبائل ہے تو تعلیم ہے۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 اب وہ دور نہیں رہ گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو موبائل سے روکیں۔ پہلے نوٹس اور رہنما خطوط موبائل پر موصول ہوتے تھے، اب وبائی حالات کی وجہ سے پورا اسکول ہی موبائل میں سمٹ گیا ہے۔ اسی میں کلاس روم ہے، اسی میں ساتھی طلبہ اور اسی کے ذریعہ معلم یا معلمہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے چنانچہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ کی طرز پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب ’’موبائل ہے تو تعلیم ہے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر تمام تعلیمی سرگرمیاں موبائل کی مرہون منت ہیں۔ حکومت بھی آن لائن، آن لائن کی تلقین کرتی رہتی ہے۔  معلوم ہوا کہ نئی نسل کا بیشتر وقت اب موبائل ہی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس کا کوئی حل نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو اسے مسئلہ کہنا بھی درست نہیں۔ مسئلہ موبائل نہیں، اس کا غلط استعمال ہے اور طلبہ کو غلط استعمال سے روکنا ہی اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وبائی حالات آج نہیں تو کل ختم ہوجائینگے، اس کے باوجود آن لائن پر اصرار کم نہیں ہوگا۔ آن لائن کی مشق تو وباء کے پہلے سے بلکہ بہت پہلے سے کرائی جارہی تھی۔ چونکہ تکنیکی مسائل موجود تھے اس لئے آن لائن تعلیم کا رجحان مستحکم نہیں ہوسکا ورنہ ممکن تھا کہ آدھی پڑھائی آن لائن ہوجاتی۔ وبائی حالات کی وجہ سے حکومت نے خود بھی محسوس کرلیا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ابھی طویل سفر طے کرنا ہوگا تب کہیں جاکر ہم آن لائن تعلیم کو روایتی تعلیم کا نعم البدل بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ ویسے یہ نعم البدل ہرگز نہیں ہوگا۔  
 خیر، آن لائن تعلیم، مکمل آن لائن ہو جائے یا جزوی رہے جیسا کہ اِس وقت ہے، اس کے بہت سے نقائص میں سے ایک طالب علم اور مدرس کا رابطہ ہے جو حقیقی نہیں رہ جاتا۔ مصنوعی ہوجاتا ہے۔ اس میں وہ تقدس، گرمجوشی، حدت اور برسہا برس کی روایت سےوابستگی کا احساس نہیں رہ جاتا جو کلاس روم کی روایتی تعلیم میں ہے۔ ایسے میں طلبہ کے ذہنوں تک پہنچنا بلکہ دلوں میں اُترنا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمارے خیال میں بیشتر اساتذہ اس سے متفق ہوں گے۔ اس لئے،آن لائن تعلیم کے باوجود، طالب علم اور مدرس کے رابطے کو مضبوط بنانا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے کیونکہ اساتذہ جب اپنے طلبہ سے کلاس کے دوران یا اس کے بعد اُن کے معاملات و مسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو ضروری رہنمائی کے ساتھ ساتھ وسیع تر رہنمائی کا فرض بھی ادا ہوتا ہے ۔وہ اس طرح کہ تبادلہ خیال کے دوران وہ اپنے طلبہ کو سمجھاتے ہیں کہ کس طرح اُنہیں گھر، خاندان، ملت اور ملک کی سرخروئی کا سبب بننا چاہئے۔ اساتذہ کہانیاں سناتے ہیں، تازہ ترین واقعات کی اطلاع دیتے ہیں، حوصلہ مندی کی تاریخ بیان کرتے ہیں یا کامیاب شخصیات کی جدوجہد سے باخبر کراتے ہیں ۔ آن لائن تعلیم میں فی الحال محدود نصاب کا مکمل ہونا ہی مسئلہ ہے تو یہ کیسےتوقع کی جاسکتی ہے کہ اساتذہ وہ ساری باتیں بھی طلبہ تک پہنچائیں گے جو اُنہیں بہتر طالب علم بننے میں معاون ہوسکتی ہیں؟
 اس کے باوجود نوجوانوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ اُنہیںپڑھ لکھ کر ترقی کرنے اور کسی حیثیت کو پہنچنے کی ترغیب دینا بھی ضروری ہے۔ اُنہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ماضی میں خود ہم نے اور دیگر قوموں اور ملکوں نے اپنا سفر صفر سے سفر شروع کیا اور پھر دُنیا پر چھاگئے۔ نئی نسل کو اُس کی ذمہ داری کا احساس دلائے بغیر ترقی کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہمارے خیال میں یہ فرض اساتذہ جس حسن و خوبی کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں، کوئی اور نہیں کرسکتا۔ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK