Inquilab Logo

شہری آداب ، نصاب ِ تعلیم اور تربیت

Updated: May 09, 2021, 10:14 AM IST | Mumbai

وبائی حالات میں حکومت کی جانب سے بار بار ہدایت کی جارہی ہے کہ ماسک پہنئے، غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلئے، ہاتھ دھوئیے، سینی ٹائزر کا استعمال کیجئے،

sanitizers,masksPicture:INN
سینی ٹائزر,ماسک تصویر آئی این این

وبائی حالات میں حکومت کی جانب سے بار بار ہدایت کی جارہی ہے کہ ماسک پہنئے، غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلئے، ہاتھ دھوئیے، سینی ٹائزر کا استعمال کیجئے، یہاں وہاں تھوکنے سے گریز کیجئے، چھینک آرہی ہو تو رومال سے ناک اور منہ ڈھانک لیجئے اور اسی قسم کی دیگر ہدایات۔ ان پر غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ ماسک پہننے کی ہدایت ہی ایسی ہے جس کا تعلق وبائی حالات سے ہے۔ بقیہ تمام، روزمرہ میں برتے جانے والے وہ آداب ہیں جن کے سکھانے کا نظم گھروں میں والدین کی ذمہ داری ہے اور اسکولوں میں اساتذہ کی ذمہ داری۔ حکومت کی جانب سے ان روزمرہ کے آداب کی جانب توجہ دلایا جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ نہ تو ہمارے گھروں میں شہری آداب کے سکھانے کا کوئی سلسلہ ہے نہ ہی اسکولوں میں۔دیگر ملکوں نے کورونا کو قابو کرنے میں کم وقت لیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں لوگوں کو اتنا سمجھانا نہیں پڑا جتنا کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جرمانہ عائد کیا گیا او راس کی تشہیر بھی کی گئی کہ اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ روپے بطور جرمانہ وصول کئے گئے مگر کیا جرمانہ لوگوں کو روکنے میں معاون ثابت ہوا؟ نہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ حکام کی نظروں سے بچ کر ’پروٹوکول‘ کو توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگر پروٹوکول کو وبائی حالات سے ہٹا کر دیکھا جائے تو یہ ڈسپلن ہے یعنی  عوامی مقامات پر شہریوں کا برتاؤ کیسا ہو۔ 
 آپ جانتے ہیں، ہمارے یہاں بہت سوں کو ٹریفک سگنل توڑنے میں تردد نہیں ہوتا۔ کسی بھی جگہ آٹو رکشا روکنے میں تامل نہیں ہوتا۔ کوڑا کرکٹ سے بھری ہوئی تھیلی کسی بھی جگہ اُچھال دینے میں تکلف نہیں ہوتا۔ جہاں لکھا ہو کہ ’’گندگی کرنا منع ہے‘‘، گندگی زیادہ تر وہیں دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب ہمارے روزمرہ کے مشاہدات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم، شہری آداب سیکھنے اور سکھانے میں ناکام ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مرکز کو سوچھتا ابھیان کی ضرورت پیش نہ آتی۔ 
 کئی ممالک ڈسپلن کے معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ اُنہوں نے اپنے شہریوں کو بھی ویسی ہی حساسیت کا حامل بنا دیا ہے چنانچہ کسی ملک میں کوڑا کرکٹ یہاں وہاں پھینکنے پر بھاری جرمانہ ہے جو شاذونادر ہی وصول کرنے کی نوبت آتی ہے جبکہ کسی ملک میں ہارن بجانا موٹر گاڑی مالکان کیلئے وبال جان بن سکتا ہے چنانچہ وہاں ٹریفک کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو،موٹر گاڑی چلانے والے ہارن بجا کر صوتی آلودگی میں اضافہ نہیں کرتے۔ یہی نہیں، اُنہیں صبح کا سلام، شام کا سلام، شکریہ کہنے کی عادت، ’معاف کرنا‘ کہنے کے چلن اور ایسی دیگر باتوں کا اتنا عادی بنا دیا گیا ہے کہ وہ ان آداب کو بھول کر بھی فراموش نہیں کرتے۔ کیا یہ سب ہمارے ملک میں نہیں ہوسکتا؟
 کیا یہ ممکن نہیں کہ چھوٹی جماعتوں کے نصاب تعلیم میں باقاعدہ ایک مضمون ہو جس کے تحت طلبہ کو شہری آداب باقاعدگی سے سکھائے جائیں؟ اس سے پہلے، گھروں میں والدین اس کی تعلیم کو یقینی بنائیں؟ یہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس کی فکر کی جائے۔ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، تعاون، ایک دوسرے کی دلدہی، رواداری، ذاتی مفاد سے بلند تر ہوکر سوچنے اور عمل کرنے کا جذبہ بھی شامل کیجئے اور ان التزامات کے ساتھ اپنے ملک اور سماج کو دیکھئے تو آپ کو ہر جگہ ہریالی دکھائی دے گی اور ہر جگہ پھول کھلے ہوئے محسوس ہوں گے جن کی خوشبو چہار جانب پھیلی ہوگی اور زندگی اب سے کہیں زیادہ بہتر او ربامعنی ہوجائیگی ۔n

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK