Inquilab Logo

کانگریس اور آئندہ انتخابات

Updated: November 25, 2020, 7:10 AM IST | Editorial

کانگریس نے حال ہی میں تین عدد پانچ رُکنی کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ان میں پارٹی کے چند ایسے لیڈروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کی بے اطمینانی یا ناراضگی جگ ظاہر ہے۔ اس سے ان لیڈرو ں کی ناراضگی کس حد تک دور ہوگی یہ کہنا مشکل ہے مگر ہمارے خیال میں ان کمیٹیوں سے ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Congress - Pic : INN
کانگریس پارٹی ۔ تصویر : آئی این این

 کانگریس نے حال ہی میں تین عدد پانچ رُکنی کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ان میں پارٹی کے چند ایسے لیڈروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کی بے اطمینانی یا ناراضگی جگ ظاہر ہے۔ اس سے ان لیڈرو ں کی ناراضگی کس حد تک دور ہوگی یہ کہنا مشکل ہے مگر ہمارے خیال میں ان کمیٹیوں سے ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پارٹی کو اِس وقت چند ایک کمیٹیوں کی نہیں، مکمل تبدیلی یا اوورہالنگ کی ضرورت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک یعنی پارٹی اعلیٰ کمان سے لے کر پنچایت کی سطح تک فعال لیڈرشپ کے ذریعہ ہر ریاست میں اسے نئی توانائی حاصل ہو۔ یہ کارِ خیر بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا مگر نہیں ہوا، شاید ارباب اقتدار بھول گئے کہ پارٹی اپنے پورے ڈھانچے سے چلتی ہے، چند لیڈروں کے آئے دن کے ٹویٹ سے نہیں۔
 بہار کے انتخابی نتائج، جو ۱۰؍ نومبر کو منظر عام پر آئے، کے بعد اب تو یہ خدشہ بھی سر اُبھارنے لگا ہے کہ مستقبل میں کوئی علاقائی پارٹی کانگریس سے گٹھ جوڑ کیلئے بھی تیار نہ ہو۔ بہار میں کانگریس، مہاگٹھ بندھن کی دوسری سب سے بڑی پارٹی تھی جسے ۷۰؍ میں سے صرف ۱۹؍ حلقوں میں کامیابی ملی۔ اس کی وجہ سے پارٹی کے خلاف ناراضگی پیدا ہوئی اور آر جے ڈی کے کارکنان یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ مہاگٹھ بندھن آسانی سے حکومت بنالیتا اگر کانگریس کو اتنی سیٹیں نہ دی گئی ہوتیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ کانگریس کے پاس ایسے ریمارکس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پارٹی کےکلیدی لیڈروں نے تو اب تک بہار الیکشن میںپارٹی کی شکست پر بھی کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ بیان نہ دینے کا مطلب ہے منہ چھپانا۔ پارٹی کو ایسے وقت میں منہ چھپانا پڑرہا ہے جب (بہار میں) سیاسی و سماجی حالات اپوزیشن کیلئے نہایت سازگار تھے۔ آخر آر جے ڈی اور لیفٹ پارٹیوں کی کارکردگی کیوں اتنی اچھی رہی؟ نتیش کے خلاف بے چینی، مرکز کے خلاف بے اطمینانی، لاک ڈاؤن میں مزدوروں کا مسئلہ، بے روزگاری کا سلگتا ہوا سوال اور ایسے ہی دیگر موضوعات نے اس الیکشن کو عوامی تحریک میں تبدیل کردیا تھا مگر ’کمزور کڑی‘ نے مہاگٹھ بندھن کو کمزور کردیا۔ معلوم ہوا کہ عوام سے کانگریس کا رابطہ ٹوٹ چکا ہے، یہ اپنا دفاع تک نہیں کرسکتی اور جو لوگ ہنوز اس کے ساتھ ہیں وہ بھی جلد یا بہ دیر اس سے کنارہ کش ہوسکتے ہیں۔ ڈوبتے جہاز سے وفاداری میں خود ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ 
 سونیا گاندھی اپنی علالت کی وجہ سے پارٹی کو ویسی قیادت فراہم نہیں کرسکتیں جیسی انہوں نے ماضی میں فراہم کی اور جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے لہٰذا قیادت کے مسئلہ کو فوری طور پر حل کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ آئندہ سال کے اوائل میں مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالا، آسام اور پڈوچیری میں انتخابات ہونگے۔ اس کیلئے کانگریس کو بلا تاخیر حرکت میں آنا چاہئے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی نے سب سے زیادہ اہمیت مغربی بنگال کو دے رکھی ہے۔ یہاں کانگریس نے لیفٹ پارٹیوں سے اتحاد کیا ہے مگر اس کی وجہ سے سہ رُخی مقابلہ ہوگا۔کیا اسے دو رُخی مقابلے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کانگریس کو اپنے مفاد سے اوپر اُٹھ کر خود بھی دیگر پارٹیوں کے ساتھ جڑنا ہو گا اور دوسروں کو بھی جوڑنا ہو گا ۔ تب ہی بی جے پی کے بڑھتے سیاسی اثرورسوخ کو روکا جاسکتا ہے۔تسلیم کہ ترنمول اور لیفٹ میں شدید اختلاف ہے مگر بشمول کانگریس ان سب میں ایک بڑی قدرِ مشترک بی جے پی کی مخالفت ہے۔ کیا یہ مخالفت بنگال میں نئی مساوات کو جنم دے سکتی ہے

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK