Inquilab Logo

کانگریس کا انتخابی منشور اور اسے نیا رنگ دینے کی بی جے پی کی کوشش

Updated: April 15, 2024, 1:20 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

بی جے پی کے پاس سوائے فرقہ واریت کے کوئی موضوع نہیں ہے اس لئے وہ بہت شدت سے کانگریس کے منشور کو فرقہ وارانہ قرار دینے میں مصروف ہے۔

The BJP is badly misled by the Congress manifesto and the interesting thing is that it is not even able to hide it. Photo: INN
کانگریس کےانتخابی منشور سے بی جے پی بری طرح بوکھلائی ہوئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسے چھپا بھی نہیں پارہی ہے۔ تصویر : آئی این این

 انتخابات میں ہر سیاسی پارٹی کی کوشش یہی رہتی ہے کہ کس طرح اس کو گھیرنے والے موضوعات پیچھے رہ جائیں اور جن باتوں کی تشہیر سے اسے فائدہ ہوتا ہے وہ موضوعات آگے آ جائیں۔ ان سب میں کہیں نہ کہیں عوامی مفاد کی باتیں ۵؍ سالہ اقتدار کے لئے ہونے والی تشہیر میں دفن ہو جاتی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو اقتدار میں رہنے کے لئے بااثر طاقتور افراد کی حمایت حاصل ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہو چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ جمہوری نظام کا مطلب صاف ہے کہ اگر کوئی بھی منتخب حکومت عوام کے لئے کام نہیں کرتی تو اس کو ایک طے شدہ مدت کے بعد بدل دینا چاہئے اور اس جماعت کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دینی چاہئے جس کے تعلق سے عوام کو لگے کہ وہ پارٹی ان کے ایشوز اور مسائل پر زیادہ توجہ دے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصولی طور پر جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے لیکن اس نظام میں بھی وہی کامیاب ہوتے ہیں اور اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ہر لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں یعنی پیسے، افرادی قوت اور تعلقات کے اعتبار سے۔ پیسے کا کامیابی میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ پیسے کی وجہ سے ہی ان کی بات زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، پیسے کی طاقت کی وجہ سے ہی وہ عوام کو لالچ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یعنی پیسے کے آگے عوام کی ترجیحات دم توڑ دیتی ہیں۔ 
 اگر بر سر اقتدار جماعت یا اتحاد اپنی کامیابی کے لئے عوام کے ایشوز کی فکر نہ کر کے ان گھرانوں کی فکر کرنے لگیں جن کے پاس سے پیسہ آنے والا ہے تو اس عمل سے سیاسی پارٹی کو کامیابی تو ضرور مل جاتی ہے لیکن عوام کے ایشوز کہیں نہ کہیں دفن ہو جاتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہوتا ہے کہ اس کے ایشوز دفن ہو جائیں یا ان پر توجہ دی جائے۔ ایسے ہی عوامی موضوعات، ان کی ضرورتوں اور ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کانگریس نےگزشتہ دنوں اپنا انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ یہ انتخابی منشور جاری ہونے کے بعد سے ہی ملک بھر میں موضوع بحث بن گیا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے، سابق صدر سونیا گاندھی، نوجوان لیڈر راہل گاندھی، انتخابی منشور کمیٹی کے چیئرمین پی چدمبرم اور جنرل سیکریٹری کے سی وینوگوپال کی موجودگی میں اس منشور کا اجراء کیا گیا۔ اس منشور کو ’نیائے پتر‘ (انصاف کی دستاویز) کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں خواتین، نوجوانوں، کسانوں، غریبوں اورمزدوروں غرض کہ تمام طبقات کے ساتھ ’نیائے‘ یعنی انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مطلق العنانیت یا جمہوریت: دنیا کے پاس انتخاب کا یہ آخری موقع

 کانگریس کا انتخابی منشور جاری ہونے کے بعد سے ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جہاں ایک جانب عوام کی جانب سے اس کی بھرپور پزیرائی ہو رہی ہے، تو وہیں بی جے پی اس سے سٹپٹائی ہوئی ہے۔ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس منشور پر تنقید کرے تو کس زاویے سے کرے۔ حالانکہ وزیر اعظم مودی نے اسے اپنے جانے پہچانے انداز میں فرقہ واریت کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کانگریس کے منشورسے متعلق یہ بیان دے دیا کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کانگریس کا انتخابی منشور ہے یا مسلم لیگ کا۔ اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے تعلق سے بی جے پی میں کتنی گھبراہٹ ہے بلکہ انہیں یقین ہی نہیں ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں بھی آسکیں گے اسی لئے وہ ایسے موضوعات تلاش کررہے ہیں جس سے انتخابی بیانیہ تبدیل کیا جاسکے۔ بالکل اسی طرح جیسےبی جے پی نے ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں ’چائے پہ چرچا ‘ اور چائے والا کو موضوع بناکر کیا تھا یا پھر ۲۰۱۷ء میں قبرستان اورشمشان کو موضوع بناکر انتخابی بیانیہ اپنے حق میں کیا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں اتفاق سے بی جے پی کے ہاتھ پلوامہ کا موضوع لگ گیا تھا جس سے اس کی ڈوبتی نیا پار ہو گئی تھی لیکن اس مرتبہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہو گیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس کرنے کیلئے بہت کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے وہ بہت شدت سے ایسے موضوع کی تلاش میں ہے جواس کے تن مردہ میں نئی روح پھونک سکے۔ 
  لیکن کانگریس بھی بی جے پی کو کوئی خاص موقع نہیں دے رہی ہے۔ وہ اب تک تو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ اس کی پوری انتخابی مہم مہنگائی، بے روزگاری اور عوام کو انصاف دلانے پر مرکوز ہے۔ وزیر اعظم نے مسلم لیگ کی چھاپ والا بیان دے کر انتخابی مہم کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وزیر اعظم کو اپنارپورٹ کارڈ دکھا کر لوگوں سے ووٹ مانگنا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ گھبرا گئے ہیں۔ وہ پھر سے اپنی وہی گھسی پٹی ہندو۔ مسلمان کی اسکرپٹ پر اتر آئے ہیں۔ بی جے پی کی گھبراہٹ بالکل عیاں ہے۔ کانگریس کے منشور پر ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ میڈیا، ماہرین اور یہاں تک کہ مخالفین کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ ’نیائے پتر‘ ملک کےمستقبل کی تعمیر و ترقی کا بہترین خاکہ ہے، جس میں سماج کے ہر طبقے کو شامل کیا گیا ہے۔ 
 سچائی یہ ہے کہ جب سے کانگریس کا منشور جاری ہوا ہے، بی جے پی میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ ایک اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس ۱۸۰؍سیٹیں جیتنے کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور اب تو حالات مزید مشکل ہو جائیں گےکیوں کہ پارٹی نے اس منشور کو مختلف زبانوں میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لئے منشور کا ترجمہ کروایا جارہا ہے اور ممکنہ طور پر اسے تمل، تیلگو، ملیالم، کنڑ، مراٹھی، اردو، بنگالی، آسامی بھوجپوری، گجراتی اور دیگر زبانوں میں بھی جاری کردیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بی جے پی کے لئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہو گا کیوں کہ وہ اب تک اس منشور کا توڑ نہیں پیش کرسکی ہے جبکہ پہلے مرحلے کی پولنگ میں محض چند دن رہ گئے ہیں۔ حد تو یہ ہو گئی کہ بی جے پی کے ترجمان سدھانشو ترویدی پریس کانفرنس منعقد کرکے اس انتخابی منشور کو رد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے منشور پرکافی تفصیلی پریس پریس کانفرنس کی اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ملک کے لئے ضروری ہےمگر وہ یہ بھول گئے کہ ان کی یہی پریس کانفرنس ثابت کررہی ہے کہ کانگریس کے منشور میں ایسی کوئی نہ کوئی بات ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو اسے اتنی توجہ دینی پڑ رہی ہے۔ ورنہ اس سے قبل کچھ دیگر پارٹیوں کے منشور بھی جاری ہوئے مگربی جے پی نے انہیں قابل اعتنا نہیں سمجھا لیکن کانگریس کا منشور جاری ہوتے ہی وزیر اعظم سے لے کر ان کی پارٹی کے لیڈران تک سبھی اسے مسترد کرنے اور اسے ’مسلم لیگ ‘ کی چھاپ والا منشور قرار دینے میں مصروف ہو گئے۔ سدھانشو ترویدی نےکہا کہ یہ عوام کی امیدوں پر کھرا نہیں اتر سکے گا جبکہ وزیر خزانہ نرملا سیتا نے اس منشور کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کردیا کہ کانگریس نےجو وعدے کئےہیں وہ پورے نہیں کئے جاسکتے کیونکہ ان کے پاس بجٹ ہی نہیں ہے۔ 
ویسے بھی سیاسی تجزیہ نگاراس وقت بی جے پی کے انتخابی منشور کا انتظار کررہے ہیں کیوں کہ وہ بھی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آخر بی جے پی اپنے منشور میں ان باتوں سے بچ پاتی ہے یا نہیں جن کا وہ مسلسل کانگریس پر الزام عائد کر رہی ہے۔ 
آخر کانگریس کے منشور میں ایسا کیا ہے ؟
ملک گیر معاشی و سماجی صورت حال کی بنیاد پر ذات پر مبنی مردم شماری۔ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات اور غریب و عام زمرہ کے لئے ریزرویشن پر ۵۰؍ فیصد کی حد کو ہٹا یا جائے گا۔ تعلیم اور ملازمتوں میں معاشی طور پر کمزور طبقے (ای ڈبلیو ایس) کے لئے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن تمام ذاتوں اور برادریوں کے لوگوں کے لیے بغیر کسی امتیاز کے نافذ کیا جائے گا۔ درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور پسماندہ طبقات کے لئے ریزرو تمام خالی اسامیاں ایک سال کے اندر پُر کی جائیں گی۔ 
سرکاری اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں کنٹریکٹ بھرتی کو ریگولر بھرتی سے بدل دیا جائے گا اور موجودہ کنٹریکٹ ورکرز کو ریگولر کیا جائے گا۔ جن کے پاس زمین نہیں ہے، انہیں زمین دی جائے گی۔ سرکاری امتحانات اور سرکاری آسامیوں کے لیے درخواست کی فیس ختم کر دی جائے گی۔ ہرغریب ہندوستانی خاندان کو غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی کے طور پر ہر سا ل ایک لاکھ روپے دینے کیلئے ’مہالکشمی‘ اسکیم شروع کی جائے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK