Inquilab Logo

نماز کے اوقات پر غور کیجئے

Updated: January 06, 2023, 11:07 AM IST | Maulana Amin Ahsan Islahi | Mumbai

ایک ایک وقت اپنے اندر بے انتہا معنویت اور تاثیر رکھتا ہے

The conditions of prayer, the times of prayer, the form of prayer, the supplications of prayer, each and every one of them is awakening and alarming to a person.
نماز کی شرائط، نماز کے اوقات ، نماز کی صورت و ہیئت ، نماز کی دعائیں ، غرض اس کی ایک ایک چیز انسان کو بیدار کرنے والی اور جھنجھوڑنے والی ہے


’’ خدا سے غفلت‘‘ کو دور کرنے کا سب سے زیادہ کارگر اور مؤثر نسخہ نماز ہے۔ یہ نسخہ خود اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ہے۔ اس نے خود فرمایا ہے کہ مجھے یاد رکھنا چاہو تو نماز قائم کرو۔ (طٰہٰ:۱۴)
 نماز کی شرائط، نماز کے اوقات ، نماز کی صورت و ہیئت ، نماز کی دعائیں ، غرض اس کی ایک ایک  چیز انسان کو بیدار کرنے والی اور جھنجھوڑنے والی ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز کا اس کی تمام شرائط و آداب کے ساتھ اہتمام کرے اور اس کے دل پر غفلت کا میل کچیل باقی رہ سکے۔ نفس انسانی پر اس کا جو اثر پڑتا ہے اور یہ جس طرح آدمی کو پاک اور بیدار رکھتی ہے اس کی حقیقت خود نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں  عمدہ تمثیل کے ذریعے سمجھا دی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ ’’بتاؤ، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ پانچ مرتبہ روزانہ نہاتا ہو تو کیا ایسے شخص پر میل کچیل کا کوئی اثر باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے عرض کیا  کہ نہیں، یا رسولؐ اللہ۔ ایسے شخص پر میل کچیل کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ آپؐ نے فرمایا: یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے۔ ان کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ  کے حکم سے بندے کے گناہ دھلتے رہتے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہؓ سے ایک اورروایت ہے
’’نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ جب تم میںسے کوئی شخص سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے میں تین گرہیں لگادیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک ماردیتا ہے کہ ابھی بڑی رات پڑی ہے، سوتے رہو۔ پھر اگر وہ جاگ جاتا ہے اور اللہ کو یاد کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ وضو کرلیتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اگر وہ نماز پڑھ لیتا ہے تو ساری گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ بالکل ہشاش بشاش اور چاق و چوبند ہوجاتا ہے ، ورنہ بالکل پژمردہ اور سست رہتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
نماز کی شرائط: نماز کی یہ تاثیر کسی ایک ہی چیز کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان تمام چیزوں کو اس تاثیر میں دخل ہے جن سے نماز عبارت ہے۔ اس کی شرائط میں سے ایک پاکی اور وضو ہے ، ان کے اہتمام سے آدمی کوتازگی اور نشاط حاصل ہوتا ہے، طبیعت پر سے کسل کا گردوغبار دھل جاتا ہے اور آدمی کا ایک ایک عضو خدا کی بندگی میں اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔
نماز کے اوقات: نماز کے لئے  جو اوقات مقرر ہیں ، یہ بھی عبادت کے لئے موزوں، قبولیت ِ دعا کے لئے سازگار، بندہ کے ذہن کے لئے سکون بخش، عناصر کائنات کے اوقات ِ تسبیح و تہلیل سے مطابق اور شمس و قمر اور شجر و حجر کے اوقات ِ رکوع و سجود سے ہم آہنگ ہیں۔ فجر، چاشت، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور تہجد کے اوقات پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہے جو مذکورہ بالا اعتبارات سے ایک خاص اہمیت نہ رکھتا ہو۔
فجر کا وقت فراغ خاطر اور سکونِ قلب کا خاص وقت ہے۔ آدمی شب میں آرام کرنے کے بعد جب اٹھتا ہے تو اس کا دل پوری طرح مطمئن ہوتا ہے۔ عبادت سے ایک نئی حرکت کا آغاز ہوتا ہے، زندگی ایک نئے عزم کی محتاج ہوتی ہے اور یہ نیا عزم خدا کی طرف سے تازہ توفیق اور تازہ ہدایت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ 
آدمی دیدۂ بینا رکھتا ہو تو اس وقت (ظہر) ایک اور حقیقت بھی نظر آتی ہے اور وہ بھی آدمی کو رکوع و سجود کی دعوت دیتی ہے ، وہ یہ کہ اس وقت سورج، خود اپنے خالق کے آگے اپنی کمر خم کرتا ہے اور خود اپنے عمل سےیہ اعلان کرتا ہے کہ وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق اور معبود نہیں بلکہ عابد ہے۔
عصر کا وقت ایک نئی حقیقت کی منادی کرتا ہے ، وہ یہ کہ ہر عروج کے لئے زوال، ہر جوانی کے لئے بڑھاپا اور ہر مدّ کے لئے جزر مقدر ہے۔ کائنات کی کوئی  بھی چیز  اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے ، صرف ایک ہی ذات ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، اس کے سوا کسی کے لئے بھی بقا نہیں۔ جس طرح دن چمکا، اس کی دوپہر ہوئی اور اب غروب کے کنارے کھڑا ہے ، اسی طرح یہ دنیا  بھی پیدا ہوئی، شباب کو پہنچی اور ایک دن خاتمہ کے قریب جا لگے گی۔ عصر کے وقت یہ خاموش تذکیر ، بندہ کو اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ آخرت کو یاد کرے اور توبہ و استغفار کے لئے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو۔
 نمازِ مغرب کے وقت زندگی ایک نئے دروازے میں داخل ہوتی ہے۔ یہ دروازہ حیات کے بعد موت اور زندگی کے بعد برزخ کے دروازہ سے مشابہ ہے۔ مصرفِ کائنات دن کی نشانی کے بعدرات کی نشانی، اور سورج کی تابانی کے بعد چاند کی چاندنی دکھاتا ہے۔ دن کے ہنگامے سرد پڑتے ہیں اور ستاروں کی بزم آراستہ ہوتی ہے۔گرمی، لُو اور دن کی شوراشوری کی تلخیاں کم ہوتی ہیں اور دن بھر کا تھکا ہارا انسان رات کی خنک لوریوں میں ایک نئی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ بے حس اور بلید لوگ ممکن ہے کائنات کے اتنے بڑے الٹ پھیر کو کچھ نہ محسوس کرتے ہوں ، مگر  جس کے اندر حس موجود ہوگی وہ اس سے  بے خبر کیسے گزر سکتا ہے؟  پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آدمی اتنی بڑی قدرت و حکمت کا مشاہدہ کرے اور جس قدیر و حکیم نے یہ قدرت و حکمت دکھائی ہے، اس سے بالکل بے پروا اور بے نیاز رہ سکے ؟ اگر اس کے دل کے اندر زندگی کی کوئی رمق ہے تو وہ اس موقع پر ضرور متنبہ ہوگا اور اپنے اس خالق و مالک کے آگے اپنا سرِ نیاز جھکائے گا جس کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ اس نے آن کی آن میں پوری دنیا کو شب کی چادر میں چھپا دیا۔
عشاء کا وقت ایک احتساب کا وقت ہے۔ رات کی تاریکی بڑھ کر حرکت و عمل کے آخری آثار کو بھی ختم کردیتی ہے۔ آدمی ہر چیز سے کنارہ کش ہو کر سکون اور آرام کا طالب ہوتا ہے تاکہ آنے والی منزل کے سفر کے لئے تازہ ہوسکے۔ یہ وقت اس بات کے لئے نہایت موزوں ہوتا ہے کہ آدمی بستر پر جانے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے رب کے حضور میں حاضری دے لے۔ ممکن ہے یہ فرصت، آخری فرصت ہی ہو اور آج کے سونے کے بعد اس کو جاگنا نصیب نہ ہو۔
تہجد کا وقت راز و نیاز اور سرگوشی و مناجات کا وقت ہے۔ پرسکون اور سکون بخش ہونے کے لحاظ سے شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ آسمان سے لے کر زمین تک سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ اس وقت سب سورہے ہوتے ہیں۔ شاید شیطان بھی سورہا ہوتا ہے۔ صرف وہ رب غفار و کریم جاگتا ہے جو کبھی نہیں سوتا یا پھر وہ جاگتا ہے جس کا بخت بیدار ہوتا ہے۔
 اٹھئے اور ستاروں کی چھاؤں میں کھڑے ہوجائیے تو فی الواقع محسوس ہوگا کہ آسمان کے دریچے کھلے ہوئے ہیں اور سمائے دنیا سےتوبہ اور رحمت کی منادی ہورہی ہے۔ اس وقت کی کیفیات ایسی واضح ہیں کہ اس کو دنیا دار اور دیندار، رند اور زاہد دونوں ہی جانتے ہیں۔ سونے والے اس کو سونے کے لئے بہترین وقت سمجھتے ہیں اور جاگنے والے اس کو جاگنے کے لئے سب سے بہتر وقت سمجھتے ہیں اور فی الحقیقت دونوں کا سمجھنا صحیح ہے ۔ جو وقت سونے کے لئے سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہوگا وہی جاگنے کے لئے بھی سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہوگا۔ قربانی تو عزیز و محبوب ہی کی مقبول ہوتی ہے ، چنانچہ اس وقت کو اللہ تعالیٰ نے بھی مقربین کی نماز کے لئے خاص کیا ہے۔ جن کے پہلو اس وقت بستر کی لذت کو چھوڑتے ہیں ، اُن کی التجائیں اور دعائیں سننے کے لئے وہ خود سمائے دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ ہے کوئی میری رحمت کا طالب کہ میں اس کو اپنی رحمت کے دامن میں  چھپالوں؟
یہ اوقات ہیں جو نماز کے لئے مقرر ہیں۔ غور کیجئے کہ ان میں سے ایک ایک وقت اپنے اندر کتنی معنویت اور کتنی تاثیر رکھتا ہے۔
نماز کی ہیئت
اب آئیے ، نماز کی ہیئت و صورت کی طرف۔
نماز کیلئے جب بندہ کھڑا ہوتا ہے تو عجز و نیاز مندی کی تصویر بن کر کھڑا ہوتا ہے ۔ ہاتھ باندھے ہوئے، نگاہ نیچی کئے ہوئے، گردن جھکائے ہوئے، پاؤں برابر کئے  ہوئے، یمین و یسار (دائیں بائیں)  اور آگے پیچھے سے بالکل بے تعلق، سنجیدگی اور خاموشی کی تصویر، ادب اور وقار کا مجسمہ، کبھی اپنے خالق و مالک کے آگے سر جھکا دیتا ہے ، کبھی اپنی ناک اور پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے ، کبھی ہاتھ پھیلا کر اس سے دعا اور التجا کرتا ہے۔ غرض عاجزی اور تذلل کی جتنی شکلیں بندہ اختیار کرسکتا ہے  ، ادب اور وقار کے ساتھ ان ساری ہی شکلوں کو اختیار کرتا ہے۔ اس طرح ایک نماز پڑھنے والے کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ صاف گواہی دیتی ہے کہ بندہ اپنے مالک و مولیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر وہ دیکھ نہیں رہا ہے تو یہ یقین تو وہ ضرور رکھتا ہے کہ اس کا مالک و مولیٰ اس کو دیکھ  رہا ہے۔ یہی نماز ہے جس کو احسان کی نماز کہتے ہیں۔ یہ نماز فقہی نماز سے ایک مختلف مزاج رکھتی ہے۔ تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے معتبر نماز یہی ہے۔ یہ نماز، نماز پڑھنے والے کے باطن کا عکس ہوتی  ہے۔ اس نماز میں نمازی کے دل کا خشوع و خضوع جھلکتا ہے۔ اس میں خدا کے آگے بندہ کی صرف کمر ہی نہیں جھکتی بلکہ اس کا دل بھی جھک جاتا ہے۔ صرف اس کی پیشانی ہی خاک آلود نہیں ہوتی بلکہ اس کی روح بھی سجدہ ریز ہوتی ہے۔ 
 اس کے برعکس جو شخص نفاق کی نماز پڑھتا ہے، اس کی کسل مندی، اس کی جمائیاں، اس کا بدن کو توڑنا مروڑنا ، انگلیوں کو چٹخانا ، سر کو کھجلانا، دامن اور گریبان سے کھیلنا، ڈاڑھی کے بالوں سے شغل کرنا اور اس طرح کی دوسری حرکتیں صاف گواہی دیتی ہیں کہ اس کا جسم حاضر ہے لیکن اس کا دل غائب ہے۔ یہ آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہے۔ اس کا بدن مسجد میں ہے لیکن اس کی روح بازار میں گردش کررہی ہے اور اگر دوسروں کی دیکھا دیکھی یا رسم کی پابندی کی خاطر اپنی گردن یہ بھی جھکا دیتا ہے لیکن اس کا دل بدستور اکڑا ہی رہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK