Inquilab Logo

سفر حج: تیاری کا ایک مختصر خاکہ جو یقیناً کارآمد ثابت ہوگا!

Updated: May 10, 2024, 3:58 PM IST | Muslim Sajjad | Mumbai

یاد رہے، یہ کوئی عام سفر نہیں بلکہ یہ اس سرزمین کا سفر ہے جو امّ القریٰ ہے اور جہاں بیت اللہ ہے، اس لئے اس کی تیاری بھی اس کے شایانِ شان ہونی چاہئے۔

There are many pilgrims who appear to be in the Haram but their hearts and minds are elsewhere, save yourself from this situation. Photo: INN
بہت سے عازمین ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر حرم میں ہوتے ہیں لیکن دل و دماغ کہیں اور ہوتا ہے، اس کیفیت سے اپنے آپ کو بچائیں۔ تصویر : آئی این این

حج کی طرح، حج کی تیاری بھی ایک پورا عمل ہے۔ ساری ساری عمر تمنا کرنا، دعائیں کرنا، یہ بھی تیاری ہے۔ اس تیاری کی کیسی کیسی مثالیں علم میں آتی ہیں اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ساری ساری عمر لوگ زادِ راہ جمع کرتے ہیں، رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ کی زیارت نصیب ہو۔ اس کے خواب دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ 
ایک وقت گزرا کہ قرعہ میں نام نہ نکلنے پر صدمے کی کیفیت ہوتی تھی کہ ابھی بلاوا نہیں آیا اور اگلے سال کا انتظار شروع ہو جاتا اور یوں تیاری جاری رہتی تھی۔ 
بحری جہاز سے حج کی صورت میں آٹھ دس دن بڑی ہمہ گیر، ہمہ وقتی تیاری کا موقع ملتا تھا۔ حج کے سفرناموں میں اس کا خوب بیان ملتا ہے۔ پابندی سے نمازیں، ذکرواذکار کی مجالس، دعائیں، توجہ، شوق --- یہاں تک کہ جدہ کا ساحل نظر آجائے اور شوق کی بے تابیاں اگلے مراحل کے لئے فزوں تر ہو جائیں۔ 
وقت بدلنے کے ساتھ، سفر مختصر ہوتا گیا۔ اس سے تیاری کا، یعنی کیفیت سے گزرنے کا عمل متاثر ہوا۔ بحری جہاز کا سفر غیر مقبول ہوا اور بالآخر ختم ہوگیا۔ اب حاجی چند گھنٹے اس کیفیت میں گزار کر، ہوائی جہاز میں سوار ہو کر چند مزید گھنٹوں کے بعد جدہ پہنچ جاتا ہے۔ خاص کیفیات میں ہفتوں اور مہینوں گزارنے کا تاثر چند گھنٹوں میں تو، حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے لئے بارش کی مثال دی ہے کہ زمین پر برستی ہے لیکن ہر حصہ اپنی کیفیت اور قوت نمو کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ چٹیل چٹان پر سے تو پانی گزر ہی جاتا ہے، اسی طرح حج کی مثال ہے۔ لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے جاتے ہیں، کئی کئی دن اکٹھے گزارتے ہیں، رحمت و مغفرت کی بارشیں جاری رہتی ہیں لیکن ہر ایک اپنے ظرف کے لحاظ سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یقیناًکچھ ضرور ایسے ہوں گے، اللہ کرے سب ہوں، جو ایسے معصوم ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔ اس کا انحصار بڑی حد تک تیاری پر ہے۔ 
اب تیاری خود سے ارادہ کر کے، مصروفیات اور زندگی کے ہنگاموں سے وقت نکال کر کرنا ہوگی۔ تربیت حجاج کے کسی پروگرام میں شرکت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن آخری بلکہ اولین بنیادی بات یہی ہے کہ تیاری تو آپ کو خود ہی کرنا ہے، خود ہی پروگرام بنانا ہے، خود ہی عمل کرنا ہے، آخر حج بھی تو آپ خود ہی کر رہے ہیں !
تیاری کے سلسلے میں دو اہداف ہوں۔ مناسک ِ حج کے لئے تیاری، جو ۷؍ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں، اور مکہ مدینہ کی سرزمین پر ۳۰، ۳۵؍ دن قیام کا جو موقع ملنے والا ہے، اس کے لئے تیاری، تاکہ وہاں کا ہر ہر لمحہ استعمال ہو۔ اس مقصد سے، جب سے بینکوں میں رقم جمع ہوتی ہے، کچھ نہ کچھ تیاری شروع کی جا سکتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آپﷺ کا وصیت لکھوانے کا ارادہ ، اختلافات اور حضرت ابوبکرؓ کی امامت

جب مَیں حج کرنے گیا تو میرا خیال تھا کہ میرا کام مکہ مدینہ پہنچنا اور خانہ کعبہ دیکھنا اور طواف کرنا ہے، باقی اس دوران کی کیفیات --- جس کا حال سفرناموں میں پڑھا تھا غالباً خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاری کی جائیں گی، یعنی وہاں جا کر خود بخود طاری ہو جائیں گی۔ معلوم نہیں، میں کوئی خاص گنہگار تھا، یا سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ حرم میں بیٹھ کر بھی، راہوار خیال کو جہاں چاہے لے جا سکتے ہیں۔ شیطان زیادہ طاقت سے زور آزمائی کرتا ہے کہ اللہ کو بتائے کہ دیکھ، یہاں تک چل کر آنے والا بھی بہکایا جاسکتا ہے۔ ہر طرح کے ملک ملک کے مناظر وہاں نظر آتے ہیں اور آپ جہاں چاہیں اپنے کو لے جا سکتے ہیں۔ اور حرم سے ذرا باہر نکلیں تو فٹ پاتھ، دکانیں، ہوٹل، پورا بین الاقوامی بازار سجا سجایا، جتنے گھنٹے چاہیں گزاریں، جو چاہیں خریدیں … یوں اس سفر اور قیام کے دوران آزمائش بڑھ جاتی ہے۔ 
تیاری کی پہلی شق یہی ہے کہ پہلے دن سے نیت کو خالص کیا جائے اور پھر کوشش کر کے دورانِ قیام اور دورانِ مناسک حج خالص رکھا جائے۔ ہرشخص خود ہی جائزہ لے کر معلوم کر سکتا ہے کہ نیت میں کہاں، کس طرح کا کھوٹ ہے، یا آ سکتا ہے۔ اس کی پیش بندی کرے، عملی تدابیر کرے اور اللہ سے دعا بھی کرے کہ سارا سفر، محنت، خرچ محض دوڑ بھاگ ہی نہ ثابت ہو۔ 
دورانِ قیام کی ایک اہم سرگرمی مسجدحرام اور مسجد نبویؐ کی نمازیں، خصوصاً جہری نمازیں ہیں۔ دوسری ساری سرگرمیاں اس کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلے سے ذہن میں ہونا چاہئے کہ وہاں نمازیں بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرنی ہیں (چاہے یہاں کیسی بھی عادات ہوں )۔ اس کیلئے دو باتوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے:
ایک یہ کہ نماز کے بارے میں لٹریچر میں جو کچھ پڑھا ہے، اسے تازہ کر لیا جائے۔ پانچ وقت کی نماز کو ذکر کے حقیقی معانی کے ساتھ قائم کیا جائے گا تو اس کی برکات، اور زندگی پر اثرات بچشم سر دیکھے جا سکیں گے۔ کتابیں حاصل کر لی جائیں اور ساتھ رکھی جائیں۔ 
دوسری بات، بہت ضروری یہ ہے کہ اگر آپ کو اتنی عربی آتی ہے کہ قرآن سنتے ہوئے اس کا مفہوم ذہن میں آتا جائے تو اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی فکر کیجئے۔ اب بے شمار ایسے کورس چل رہے ہیں جودو تین ماہ میں اتنی شدبُد کرا دیتے ہیں کہ آپ کا یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ روزانہ دو تین گھنٹے دیں، تو ایک ہفتے میں بھی ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ فجر اور عشا ء میں، مسجد نبویؐ اور مسجدحرام کے امام قرآن کی پُرلطف، وجد آفریں تلاوت کر رہے ہوں، قوموں کے عروج و زوال کے احوال بیان ہو رہے ہوں، آخرت کی حقیقت اور مناظر کا نقشہ کھینچا جا رہا ہو، احکام الٰہی اور ان کی مصلحتیں بتائی جا رہی ہوں، انفس و آفاق کی آیات پر توجہ دلائی جا رہی ہو، آپ کے نفس کو جھنجھوڑا جا رہا ہو، اور آپ کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔ یاد رہے کہ نماز کی اپنی کیفیت ہے، لیکن معنی و مطلب کے ساتھ شعوری توجہ ہو تو افادہ ہزار چند ہو جاتا ہے۔ اپنے کو اس سے کیوں محروم رکھتے ہیں ؟ جو عربی آپ سیکھیں گے، ساری عمر کام آئے گی۔ نمازوں کے علاوہ بھی یہاں تلاوت کا بہت موقع ملتا ہے۔ کئی کئی قرآن ختم کیے جاتے ہیں، یہ بامعنی ہوں توکیا کہنے!
ایک تیاری دعائوں کی ہے۔ یہ پورے اہتمام سے کریں، زبان کی کوئی قید نہیں لیکن قرآن کی بتائی ہوئی اور رسولؐ اللہ کی کی ہوئی دعائیں، آپ کے جذبات کو اور داعیات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتی ہیں اور جذبات کی تہذیب بھی کرتی ہیں۔ اس لئے ان کے مجموعے آپ کے پاس ہونے چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں دعائوں کے لئے بہت وقت ملتا ہے۔ آپ کے پاس جتنا بھی ذخیرہ ہو، کم پڑ جاتا ہے۔ آپ کوشش کرکے جمع کریں، یہ تیاری کا حصہ ہے۔ یاد نہ بھی ہوں تو سامنے رکھ کر، بیٹھ کر، آرام سے کی جا سکتی ہیں۔ 
اب آیئے اصل حج، یعنی مناسک ِ حج کی طرف۔ یہ چار پانچ دن ہی وہ اصل دن ہیں جن کی خاطر یہ سفر کیا گیا اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے یہ تیاری کی گئی۔ اس حوالے سے ہر طرف ہدایات مہیا ہوتی ہیں، بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔ حاصل یہ ہونا چاہئے کہ آپ کے ذہن میں مناسک کا پورا نقشہ، روز کا پروگرام تفصیل کے ساتھ آجائے۔ 
ایک وقت وہ بھی رہا ہوگا جب خانہ کعبہ کی تصویر بھی دیکھنے کو نہ ملتی ہوگی۔ لوگ آکر ہی دیکھتے ہوں گے۔ پھر تصویر آگئی، لیکن جو بات اصل کی تھی، وہ تصویر میں کہاں --- لیکن اب تو ہمہ وقت خانہ کعبہ کا، اس میں نمازیوں کا منظر ٹی وی پر اتنا نظر آتا ہے کہ پہلی دفعہ دیکھنے والی بات اب کہاں، یہی لگتا ہے کہ جیسے دیکھی ہوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ پھر بھی خود وہاں موجود ہونے، اس کا حصہ ہونے، اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھنے، اپنے قدموں سے طواف کرنے، چشمہ ٔ زم زم پر کھڑے ہو کر آبِ زم زم پینے کی لذت کیا اور کس طرح بیان کی جائے…یقیناً یہ امور بیان سے ماورا ہیں !
مناسک ِ حج سیکھنے آبِ زم زم، پڑھنا بھی چاہئے، کسی پروگرام (اب تو حج کلاسیز بھی ہوتی ہیں ) میں بھی شرکت کرنا چاہئے۔ آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ سب کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ اور آخری بات، جو پہلی بات بھی ہو سکتی تھی، یہ ہے کہ جانے سے پہلے ایک، بلکہ دو تین حج کے سفرنامے پڑھیں اور کیفیات سے گزریں۔ میں نے عبدالماجد دریابادیؒ صاحب کا سفرنامہ حج پڑھا اور حقیقت یہ ہے کہ بہت فائدہ اٹھایا۔ مناسک کے علاوہ، اس دور کے حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ اسلئے مطالعہ کو تیاری کا حصہ بنائیے، اس سے وہ کیفیات طاری ہوسکتی ہیں جو لکھنے والے پر طاری ہوئی تھیں اور آپ مصنف کے تجربات اور مشاہدات سے فیض حاصل کرپائینگے۔ 
یہ تیاری کے لئے کوئی جامع امور نہیں، چند متفرق باتیں ہیں۔ امید ہے کہ عازمین حج انہیں مفید پائیں گے اور انہیں عمل میں لائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK