Inquilab Logo

بہار میں آنند موہن کی رہائی پر ہنگامہ؟

Updated: May 04, 2023, 10:53 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

ان دنوں آنند موہن کی رہائی کو لے کر بہار کی سیاست کا پارہ قدرے چڑھا ہوا ہے کہ ایک طرف حکومت اپنے دفاع میں لگی ہوئی ہے تو حزب اختلاف اس رہائی کو سیاسی رنگ دے کر حکومت کو زیر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

بہار کی سیاست میں اچانک ایک زلزلہ سا آگیا ہے اور حکمراں جماعت پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔  بالخصوص نتیش کمار کو نشانہ بنایا جا رہاہے کہ ووٹ بینک کی سیاست کے لئے انہوں نے ایک آئی اے ایس آفیسر جی کرشنیا قتل کے سزا یافتہ مجرم آنند موہن سنگھ، جنہیں عمر قید کی سزا تھی، ان کی رہائی کیلئے حکومت بہار نے جیل ضابطے میں ترمیم کی ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ حکومت بہار نے آنند موہن سنگھ کے ساتھ ساتھ دیگر ۲۷؍ سزا یافتہ قیدیوں کو بھی نئے جیل ضابطہ ترمیم ۲۰۱۲ءکے تحت رہا کرنے کا حکم صادر کیا ہے ۔ اس لئے نتیش کمار نے تمام مبینہ الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا موقف واضح کردیا ہے کہ یہ فیصلہ ریاست کو جو آئینی اختیارات حاصل ہیں اسی دائرے میں رہ کر کیا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے ریاست کے چیف سیکریٹری عامر سبحانی نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ بھی تمام افواہوں اور حکومت پر الزام تراشی کرنے والوں کو جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کا فیصلہ کسی فردِ  واحد کیلئے نہیں ہے بلکہ جیل ضابطے کے مطابق جن سزا یافتہ قیدیوں کے عادات واطوار بہتر رہے ہیں اور ان کی رپورٹ ضلع سطح سے حکومت کو حاصل ہوئی تھی ان سبھوں کیلئے ہے۔ جہاں تک آنند موہن سنگھ کی رہائی کا معاملہ ہے تو وہ تقریباً پندرہ سال کی سزا کاٹ چکے ہیں اور جیل کے اندر ان کے اخلاق و عادات اطمینان بخش رہے ہیں اس کی بنیاد پر ان کی رہائی کا راستہ ہموار ہوا ہے ۔ مگر حزب اختلاف کے بعض لیڈران اب بھی اس رہائی کو سیاسی چشمے سے دیکھ رہے ہیں اور ہر طرف سے حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ 
 واضح ہو کہ ۵؍ دسمبر ۱۹۹۴ء کو گوپال گنج کے ضلع کلکٹر جی کرشنیا ایک سرکاری میٹنگ کیلئے نکلے تھے اور مظفرپور میں ایک ہجومی تشدد کے شکار ہو گئے تھے۔ چونکہ اس ہجوم کی قیادت بطور سیاسی لیڈر  سابق ممبر پارلیمنٹ آنند موہن سنگھ کر رہے تھے اس لئے جی کرشنیا کی موت کے بعدآنند موہن کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور ضلع کورٹ نے ۳؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو اُن کے ساتھ تین دیگر ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی ۔ اس سزا کے خلاف سبھی مجرم ۱۰؍دسمبر ۲۰۰۸ءکو ہائی کورٹ گئے اور پٹنہ ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا کو عمر قیدمیں تبدیل کردیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آنند موہن نے ۲۰۱۲ء میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن عدالت عظمیٰ نے پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقراررکھا،  لہٰذاآنند موہن کو عمر قید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ آنند موہن سنگھ ایک تیز طرار سیاسی لیڈر رہے ہیں اور بہار میں ان کی شناخت ایک خاص طبقے (راجپوت) کے لیڈر کے طورپر ہوتی رہی ہے ۔ اگرچہ وہ شروع سے ہی متنازع فیہ شخصیت کے حامل رہے کہ ان پر جرائم کے درجنوں مقدمات درج تھے مگر وہ ایک فعال سیاست داں کے طورپر کبھی اسمبلی اور پارلیمنٹ انتخاب میں کامیاب ہوتے رہے۔ ان کے بعد ان کی اہلیہ لولی آنند بھی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخاب میں حصہ لیتی رہیں اور کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ اس وقت ان کے صاحبزادے  ممبر بہار قانو ن ساز اسمبلی ہیں ۔
  غرض کہ آنند موہن سنگھ کے جیل جانے کے بعد بھی بہار کی سیاست میں اثرورسوخ باقی رہا ۔ اب جبکہ جیل سے ان کی رہائی  ہوگئی ہے تو ایک بار پھر وہ بہار سیاست میں سرگرم ہوں گے۔ چوں کہ اس وقت جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل اتحاد کی حکومت ہے اس لئے  بی جے پی اس رہائی کو سیاسی نظریے سے دیکھ رہی ہے اور حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اوربی جے پی کے سرکردہ لیڈر سوشیل مودی نے اس رہائی کو سیاسی مفاد کیلئے اٹھایا گیا غیرقانونی قدم بتایا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض دیگر  بی جے پی لیڈروں نے آنند موہن کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔ دراصل یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے ۔ اکثر یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع پر اس طرح کے اعلانات ہوتے رہے ہیں کہ جن قیدیوں کے عادات واطوار قابلِ اطمینان ہیں ان کیلئے رہائی کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ ریاست بہار میں گزشتہ چھ برسوں میں ۱۱۶۱؍ سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی پر غوروخوض کیا گیا اور ضابطے کے مطابق ۶۹۸؍ قیدیوں کورہا کیا گیاہے ۔ جہاںتک جیل ضابطے میں ترمیم کا سوال ہے تو وہ صرف اور صرف آنند موہن کی رہائی کیلئے نہیں کی گئی  بلکہ وقت کے تقاضوں کے مدنظر کئی ترمیمات ہوئیہیں۔ اس لئے اس رہائی کو بھی اسی نظریے سے دیکھا جانا چاہئے جیسا ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ دریں اثناء مقتول آئی اے ایس آفیسر جی کرشنیا کی اہلیہ نے حکومت بہار کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا رخ کیا ہوتا ہے لیکن ان دنوں آنند موہن کی رہائی کو لے کر بہار کی سیاست کا پارہ کافی چڑھا ہوا ہے کہ ایک طرف حکومت اپنے دفاع میں لگی ہوئی ہے تو حزب اختلاف اس رہائی کو سیاسی رنگ دے کر حکومت کو زیر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ آنند موہن کا جیل سے باہر آنا اور ان کا سرگرم سیاست میں حصہ لینا موجودہ حکمراں اتحاد کیلئے مفید ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ آنند موہن کا تعلق جس راجپوت برادری سے ہے وہ ان کی حمایت میں حکمراں اتحاد کے ساتھ کھڑا ہو۔ کیوں کہ اس وقت اس برادری کے بیشتر قد آور لیڈر بی جے پی کے ساتھ ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج سے دو دہائی پہلے بہار کی سیاست میں آنند موہن کا جو رتبہ تھا وہ اب نہیں رہا کہ اس وقت نہ صرف بہار میں بلکہ پورے ملک میں سیاسی فضا تبدیل ہوچکی ہے۔
  اس لئے حکمراں جماعت کو بھی اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ آنند موہن کی رہائی کا کوئی بڑا فائدہ اسے ملنے والا ہے اور حزب اختلاف کو بھی اس خوش فہمی سے دور رہنے کی ضرورت ہے کہ فردِ واحد کے حوالے سے نتیش کمار کو نشانہ بنانے سے کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔ یاد رہے کہ آنند موہن کے ساتھ جن دیگر ۲۷؍سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے ان کا تعلق مختلف ذات اور برادریوں سے ہے اور وہ سب بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنا علاقائی اثر رکھتے ہیں۔

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK