Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں تبدیلیٔ اقتدار کی سیاسی مہم!

Updated: April 17, 2025, 12:47 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں تبدیلیٔ اقتدار کی سیاست کا طوفان ہے اور ہر دوسرے دن ریاست کی راجدھانی میں اپنے وجود کو تسلیم کرانے کی مہم چل رہی ہے۔بالخصوص مختلف ذات برادری کے الگ الگ اجلاس ہو رہے ہیں اور سب اپنے اپنے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

گرچہ بہار میں موجودہ اسمبلی کی مدتِ کار سالِ رواں کے نومبر تک ہے لیکن ہندوستان کی سیاست میں اس وقت بہار اسمبلی انتخاب کی غیر معمولی سیاسی اہمیت ہے اس لئے ریاست میں اچانک سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ ایک طرف این ڈی اے جس میں جنتا دل متحدہ، بھارتیہ جنتا پارٹی، ہندوستانی عوام مورچہ اور لوک جن شکتی پارٹی(رام ولاس گروپ) شامل ہے، سبھی جماعتیں اپنے اپنے طورپر اسمبلی انتخاب کے مدنظر تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کی کوشش میں لگ گئی ہیں۔ دوسری طرف انڈیا اتحاد جس میں راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بایاں محاذ کی جماعتیں شامل ہیں وہ بھی قدرے فعال ہو گئی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں بالواسطہ مقابلہ این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے درمیان ہونا طے ہے لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح نئی سیاسی جماعتیں بن رہی ہیں اور اپنی فعالیت دکھا رہی ہیں ا س سے تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب مذکورہ دونوں اتحاد کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ 
 بہر کیف! بہار اسمبلی انتخاب کے مدنظر گزشتہ ایک سال میں نصف درجن سیاسی جماعتیں وجود میں آئی ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ریاست میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ریاست میں گزشتہ دو دہائی سے نتیش کمار اقتدار میں ہیں اور وہ چند سالوں کو چھوڑ دیں تو قومی جمہوری اتحاد یعنی این ڈی اے کے ساتھ حکومت چلاتے رہے ہیں اور اس سے پہلے انڈیا اتحاد یعنی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے ساتھ بایاں محاذ بھی لالو اور رابڑی کی قیادت والی حکومت رہی ہے اس لئے اس وقت جتنی نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آرہی ہیں وہ سب ایک ہی مشن اور وژن کے ساتھ عوام کو مخاطب کر رہی ہیں کہ وہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ حال ہی میں پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی کا ریاست گیر اجلاس گاندھی میدان میں ہوا ہے۔ اگرچہ ان کی امید کے مطابق جلسہ کامیاب نہیں ہوا اور بقول پرشانت کشور کہ مبینہ طورپر ان کی ریلی کو ناکام کرنے کے لئے حکومت ذمہ دار ہے۔

یہ بھی پڑھئے:امریکہ -ایران تعلقات: برف پگھلنے کا امکان ؟

لیکن انہوں نے پھر اپنا دعویٰ دہرایا ہے کہ وہ جلد ہی اسی گاندھی میدان سے ریاست گیر دورہ شروع کریں گے اور آئندہ اسمبلی انتخاب میں اسمبلی کی تمام ۲۴۳؍ سیٹوں پر امیدوار کھڑا کریں گے۔ اس سے پہلے نتیش کمار کے بہت قریبی رام چندر پرساد سنگھ جسے بہار کی سیاست میں آر سی پی کے طورپر جانا جاتا ہے، انہوں نے بھی جنتا دل متحدہ سے بغاوت کر ایک نئی سیاسی جماعت ’’ آپ سب کی آواز‘‘ (آسا)بنائی ہے اور وہ بھی بہار کے عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ نتیش کمار اور تیجسوی یادو دونوں سے بہار کو نجات دلائیں گے۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے انڈین پولیس سروس کے آئی جی عہدہ سے مستعفی ہونے والے شیو دیپ لانڈے، جن کا تعلق مہاراشٹر سے ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے وہ بہار کیڈر میں مختلف اضلاع کے ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی رہے ہیں۔ انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت ’’ہند سینا‘‘ بنائی ہے اور وہ بھی ۲۴۳؍ سیٹوں پر امیدوار کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی منشا بھی صرف یہ ہے کہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی ہو۔ گزشتہ دنوں انجینئر آئی پی گپتا نے ایک نئی سیاسی صف بندی کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے پورے بہار کے تانتی، تتما اور کھتبے ذات کا اجلاس ریاست کی راجدھانی پٹنہ کے گاندھی میدان میں بلایا تھا اور انہوں نے بھی اقتدار کی تبدیلی کا اعلان کیا ہے اور انڈین انقلاب پارٹی بنانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جہاں تک ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کی مہم کا سوال ہے تو اس کا آغاز مختلف رضا کار تنظیموں نے کیا ہے اور ان میں ایک آئی پی ایس آفیسر وکاس ویبھو جو بہار پولیس کیڈر میں آئی جی کے عہدہ پر ہیں وہ گزشتہ کئی برسوں سے ’’انسپائر بہار‘‘ تنظیم کے ذریعہ نوجوانوں کو سیاست میں شامل ہونے کی تحریک چلا رہے ہیں اور صاف وشفاف سیاست کی وکالت کر رہے ہیں۔ چونکہ بہار اس وقت قومی سیاست کے لئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کسی بھی طورپر ریاست میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے ان کی تمام کوششیں جاری ہیں چونکہ نتیش کمار کی صحت کا معاملہ گھر گھر پہنچ چکا ہے اور کچھ اس طرح کی سیاست بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں نتیش کمار کا کردار کتنا اہم ہوگا یہ کہنا مشکل ہے اس لئے بہار میں پہلے سے بھی کئی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں جن میں اسدالدین اویسی کی پارٹی سیمانچل میں قدر ے فعال ہے اس کی سیاسی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے بہار اسمبلی انتخاب میں ان تمام نئی سیاسی جماعتوں کے درمیان ووٹوں کی تقسیم دونوں اتحاد یعنی این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کیلئے مشکلیں کھڑا کر سکتی ہیں اور اس سے نتائج بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخاب کے اعلان تک اور کتنے نئے چہرے سیاسی افق پر ابھرتے ہیں کیوں کہ ۲۰۲۰ء کے اسمبلی انتخاب میں تقریباً ۱۲۵؍ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا اور اس میں ۳۲۰۵؍ امیدوار ایسے تھے جو اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے تھے لیکن ایسے امیدوار ہزار دو ہزار ووٹ لے کر نتائج کو اثر انداز کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے تھے۔ 
 بہر کیف! بہار میں تبدیلیٔ اقتدار کی سیاست کا طوفان ہے اور ہر دوسرے دن ریاست کی راجدھانی میں اپنے وجود کو تسلیم کرانے کی مہم چل رہی ہے۔ بالخصوص مختلف ذات برادری کے الگ الگ اجلاس ہو رہے ہیں اور سب اپنے اپنے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیہ نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل بہار کی سیاست کو کچھ نہ کچھ اثر انداز ضرور کریں گی۔ شاید اسلئے این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کی طرف سے بھی ان نئی سیاسی جماعتوں کی صف بندی پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے اور اس کی کاٹ کیلئے بساط بھی بچھائی جا رہی ہے۔ الگ الگ اسمبلی حلقوں میں ذات شماری کے پیشِ نظر امیدواروں کی تلاش کی جا رہی ہے اور اپنی حکمت عملی سے فتح یابی کو یقینی بنانےکیلئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کئے جا رہے ہیں۔ البتہ دونوں اتحاد کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کے بعد اصل تصویر سامنے آئے گی کہ اس بار بہار میں واقعی اقتدار کی تبدیلی کی مہم کامیاب ہوتی ہے یا پھر جذباتی سیاست کا پرچم بلند رہتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK