Inquilab Logo

کورونا: ڈرو نہ ڈرائو، بس احتیاط کرو

Updated: December 30, 2022, 10:51 AM IST | Mumbai

ملک میں زیادہ تر لوگوں کو ٹیکہ لگ چکا ہے۔ یہاں کے لوگوں میں مدافعت کی فطری قوت بھی بڑھی ہے۔ دیگر اقدامات بھی کئے گئے ہیں اسلئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ گھبرائے بغیر احتیاطی تدابیر کرنا ضرور ی ہے کیونکہ اگر کورونا پھیل گیا تو سخت پابندیاں لگانا آسان ہوگا نہ پابندیوں کو نرم کرنا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

آئی آئی ٹی کانپور کے ایک پروفیسر نے کہا ہے کہ ملک میں ۹۸؍ فیصد لوگوں میں نیچرل اینٹی باڈی یعنی کورونا کیخلاف لڑنے کی قوتِ مدافعت تیار ہوچکی ہے اسلئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علاج کی ضرورت پڑنے پر علاج اور اس سے پہلے احتیاط ضروری ہے اور پھر جاپان، چین، برازیل، جنوبی کوریا اور امریکہ سے جو خبریں موصول ہورہی ہیں وہ نظر انداز نہیں کی جاسکتیں اس کے علاوہ کورونا کے سال (۱۹ء) کے بعد ممبئی میں ریل کی پٹریوں پر مرنے والوں یا خود کشی کرنے والوں کی تعداد تین گنی ہوچکی ہیں اور کچھ دوسرے شواہد بھی سامنے آئے ہیں مثلاً کرناٹک میں ماسک لازمی قرار دیا گیا ہے اس لئے کورونا اور اس کے بعد کے اثرات سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ تدابیر ماہرین اور معالجین کی بتائی ہوئی بھی ہوسکتی ہیں اور حکومت یا کسی حکومتی ادارے کی بتائی ہوئی بھی۔ اچھا ہے کہ مرکزی وزیر صحت منسکھ مانڈویہ نے حالات کا جائزہ لیا ہے اور پلاننگ کمیشن (نیتی آیوگ) نے بھیڑ بھاڑ کی جگہوں پر ماسک لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ بوسٹر ڈوز لینے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ ایئر پورٹس پر باہر سے آنے والوں کی جانچ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سبھی ریاستوں اور مرکز کے تحت علاقوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ کورونا کے ہر پازیٹیو سیمپل کی ایسی جانچ بھی کرائی جائے جس سے معلوم ہوسکے کہ کورونا وائرس کی کوئی نئی قسم تو نہیں پیدا ہوگئی ہے۔
 ان تمام اقدامات کا استقبال اور حکومت کی سنجیدگی کے اعتراف کے ساتھ کچھ باتیں ذہن میں بیٹھی ہوئی ہیں مثلاً کس طرح اس وبا کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے مریضوں کو اسپتالوں میں جگہ دینے اور علاج کرنے کے لئے ناقابل برداشت رقوم جمع کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اس لئے کافی اندیشے بھی پیدا ہورہے ہیں۔ غیر ملکوں میں خاص طور سے چین میں تو حالات اتنے خراب ہیں کہ مریضوں کو بستر بھی نہیں مل رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ چین کی حکومت کا یہ اعلان ہے کہ کون سی موت کورونا سے ہوئی ہے اور کون سی موت کسی دوسری وجہ سے یہ جاننے کے لئے جانچ کی بنیادوں کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ کیا اس قسم کا بیان ان قیاس آرائیوں کو ہوا نہیں دیتا کہ چینی حکومت کورونا سے ہوئی اموات کی صحیح تعداد چھپا رہی ہے؟ اس سوال سے دو اور سوالات جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کورونا کی وبا قدرت کا قہر ہے تو اس سے مرنے والوں کی تعداد چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ قدرت کے قہر کو کوئی ٹال تو سکتا نہیں ہے۔ بلا نازل ہوئی ہے تو احتیاط اور دوا علاج سے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اموات کی صحیح تعداد پر پردہ ڈالنے کی کیا وجہ ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کورونا کا قہر اگر مصنوعی وبا پیدا کرنے کے لئے بپا کیا گیا ہے جیسا کہ امریکہ نے چین پر الزام بھی عائد کیا تھا تو یقیناً چین اس کے چھپانے یا کورونا سے مرنے والوں کی حقیقی تعداد پر پردہ پڑا رہنے دینے کے لئے ایسا کررہی ہے۔ اس کے ایسا کرنے سے ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ کورونا کی اصل نوعیت کا اس کے پھیلنے کی اصل وجوہ کو سمجھنے میں دشواریاں پیدا ہوں گی۔ کیا چین یہی چاہتا ہے؟ اور چاہتا ہے تو کیوں؟
 ابھی ہندوستان میں یہ وبا نہیں پھیلی ہے۔ حکومت نے احتیاط کے طور پر کافی مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ریاستوں اور اسپتالوں کو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ڈرو یا ڈرائو مت، احتیاط کرنے اور کرانے میں مستعد رہو۔ یہ پیغام ضروری بھی ہے کہ ایک طرف تو ہندوستان چین کا پڑوسی ملک ہے اور چین کا پڑوسی ملک ہونے کے ناطے اس کے عوام کا اندیشوں میں مبتلا ہونا ضروری ہے۔ وہیں یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ ہندوستان کی آبادی کے ۲۰۲۳ء تک چین کی آبادی سے بھی بڑھ جانے کی امید ہے۔ اس وقت چین اور ہندوستان کی آبادی ۱۴۲۶؍ ارب اور ۱۴۱۲؍ ارب ہے یعنی دونوں ملکوں کی آبادی میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ زیادہ آبادی وسائل کے ساتھ مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔ جہاں تک وسائل کا سوال ہے ہندوستان نے کووڈ کے خلاف نیزل ویکسین ایجاد کرلی ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس سے لوگوں کو درپیش خطرات کتنے کم ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ ۲۰۲۳ء سے پہلے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ویکسین سوئی کے بغیر ہے۔ ملک کی پہلی mRNA ویکسین جیمکووک - ۱۹؍ کو بھی منظوری مل چکی ہے۔ ان کو ٹیکہ کی عوامی مہم میں کب شامل کیا جاتا ہے اس کا فیصلہ ہونا بھی باقی ہے۔ ۱۲؍ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسین دی جائے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی نئے سال میں ہی ہوگا۔ یعنی ہماری آبادی بڑھ کر چین کی آبادی سے زیادہ ہوئی ہے یا نہیں، کورونا کے دور کرنے کے لئے تیار کی گئی ویکسین مؤثر ہے یا نہیں یہ تمام فیصلے نئے سال میں ہوں گے۔ اس وقت تو کورونا سے بڑھنے والی بیماریوں کی صرف روک تھام یعنی Preventive Health Care پر کام کیا جارہا ہے۔
 زندگی نئے چیلنجز اور نئے مواقع ہی کا نام ہے۔ حوادث، بیماریاں، پریشانیاں زندگی کے ساتھ ہیں مگر نئے نئے مواقع ہمیں ان سے مقابلہ کرنے کا عزم عطا کرتے ہیں۔ اس وقت یا دور کو خودنمائی، افسردگی یا کسی پر احسان جتانے میں نہ گنوائیے۔ پہلے دور میں دیکھا گیا تھا کہ لاک ڈائون کے دور میں کچھ کرنے والوں سے زیادہ وہ لوگ اپنے فوٹو کھینچوا رہے تھے جنہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ حکومت کی ہدایات سب کیلئے ہیں ان پر عمل درآمد کے ساتھ ایسے ڈاکٹروں سے یا معالجین سے مدد لینا بھی کارآمد ہوسکتا ہے جن کے پاس قانونی ڈگری ہے، چاہے یہ ڈگری کسی بھی پیتھی کی ہو۔ بہترین علاج وہ ہے جو صحیح تشخیص پر ہو اور بر وقت ہو۔ ملک میں زیادہ تر لوگوں کو ٹیکہ لگ چکا ہے۔ یہاں کے لوگوں میں مدافعت کی فطری قوت بھی بڑھی ہے۔ دیگر اقدامات بھی کئے گئے ہیں اسلئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ گھبرائے بغیر احتیاطی تدابیر کرنا ضرور ی ہے کیونکہ اگر کورونا پھیل گیا تو سخت پابندیاں لگانا آسان ہوگا نہ پابندیوں کو نرم کرنا۔ مارشل کو مقرر کرنا بھی مضر ہوگا جیسا کہ پچھلے لاک ڈائون میں تجربے میں آچکا ہے۔ مارشل نے قانون پر عمل درآمد کم کروایا تھا اور لوٹ کھسوٹ زیادہ کی تھی۔ سوشل سروس کے بہانے ایسے لوگ سرگرم ہوئے تھے جو کورونا وائرس سے زیادہ مضر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK