Inquilab Logo

کورونا کا پھیلائو روکنا ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے

Updated: March 29, 2020, 3:48 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

پورے ملک میں لاک ڈائون کا اعلان ہونے کے بعد حکومتی اور انتظامی سطح پر جو سنجیدگی نظر آرہی ہے وہ ہمارے محلوں میں مفقود ہے ، اب بھی ہمارے نوجوان نکڑ بازیسے باز نہیں آرہے ہیں، پولیس اور انتظامیہ حالانکہ سختی نہیں برت رہا ہے لیکن انہیں اس پرمجبور بھی نہیں کیا جانا چاہئے

Lockdown in India - Pic : PTI
لاک ڈاؤن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ایک ماہ قبل تک ملک میں این آر سی ، این پی آر اور سی اے اےمخالف مظاہروں اوراحتجا ج کی خبریں تقریباً ہر اخبار اور ہر نیوز چینل کی زینت بنی ہوئی تھیں لیکن اس دوران جیسے ہی کورونا وائرس نے اپنے پر پھیلانے شروع کئے یہ خبریں پس پشت چلی گئیںاور اب ہر زبان پر ، ہر اخبار ، ہر چینل پر اسی کا تذکرہ ہے۔ ہر گھر میں کورونا کا خوف پایا جارہا ہے۔ملک کا کوئی علاقہ ، کوئی حصہ یا خطہ ایسا نہیں ہے جہاں پر کورونا کی وجہ سے لاک ڈائون کا اثر نہ نظر آرہا ہو ۔کورونا سے نمٹنے کے لئے جنگی پیمانے پر اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ پورا ملک قرنطینہ میں جاچکا ہے۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب انسان پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے یا پھر وہ کسی پریشانی میں گرفتار ہو تا ہے تو اسے اپنی تکلیف کے ساتھ ساتھ دوسروں کی پریشانی کا بھی احساس ہونے لگتا ہے۔ وہ جب اپنے آس پاس نظر دوڑاتا ہے تو  اسے محسوس ہو تا ہے کہ دنیا میں صرف اس کا غم اکیلا نہیں ہے بلکہ اس جیسے اور بھی ہیں جنہیں اس  سےبڑے غم کھائے جارہے ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت انسان میں جذبہ انسانیت موجیں مارنے لگتا ہے۔وہ اپنی حیثیت اور صلاحیت سے بڑھ کر ہر کسی کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات میںبھی یہی ہو رہا ہے۔ اگر ایک طرف کورونا کے ڈر و خوف سے لوگ باگ گھروں میں قید ہو گئے ہیں، اپنی اور اپنوں کی فکر میں غلطاں ہیں تو دوسری طرف بہت سے افراد اور تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو  بے کسی کے عالم میں مارے مارے پھر رہے بے گھر و مجبور افراد کی مدد کو آگے آرہے ہیں، ان کا پیٹ بھرنے کا انتظام کررہے ہیں۔ اگر کورونا نہ ہو تا تو شاید انسان کے اندر کا یہ جذبہ عود کر باہر نہیںنکلتا ۔
  ان حالات میں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ جب چین میں ۳؍ماہ قبل سے یہ وائرس تباہی مچارہا تھا اور مرکزی حکومت کو بلاشبہ یہ بات معلوم ہو گی کیوں کہ وزیر اعظم مودی اور چینی صدر شی جن پنگ  اپنے آپ کو ایک دوسرے کا بہت گہرا دوست قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود ملک میں اسےپھیلنے کا موقع کیسے دیا گیا؟ کیا حکومت اس کے وائرس سے ایئر پورٹس پر نمٹ نہیں سکتی تھی۔ اس کا بہت آسان سے حل ہو سکتا تھا کہ ملک کے تمام ایئر پورٹس پر بیرون ممالک سے آنے والے ہر ایک مسافر جانچ کا انتظام کردیا جاتا ۔ اس طریقےسے ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کون کون انفیکشن سے متاثر ہے لیکن حکومت نے اس معاملے میں ابتدا میں حد درجہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا ۔ ہمیں تو شبہ ہے کہ یہ وائرس ہندوستان میں امریکیوں کے ساتھ آیا ہے کیوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بہت بڑا عملہ ہندوستان آیا تھا ۔ ٹرمپ   ۲۴؍ فروری کو ہندوستان آئے تھے اور ۲۵؍ فروری کو یہاںسے گئے تھے۔ ان کے ساتھ کافی بڑا عملہ اور پوری دنیا کا میڈیا ، سفارت کار اور دیگر افسران موجود تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان سےقبل ہی امریکہ میں کورونا کے معاملات سامنے آچکے تھے۔ہرچند کہ یہ بہت دور کی کوڑی لگتی ہے لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ٹرمپ کے دورے کو کامیاب بنانے کے لئے حکومت کی پوری مشینری لگی رہی اور جو کام جنگی پیمانے پر انجام دیا جانا چاہئے تھا اسے پس پشت ڈال دیا گیا۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ کے جانے کے بعد ہی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہوئی  اور اس نےوہ اقدامات کئے جو اسے جنوری کی ابتدا میں ہی کرلینے چاہئے تھے۔بہر حال یہ ایک تھیوری ہے جو صحافتی حلقوں میں موضوع بحث ہے لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ حکومت نے کورونا پرکریک ڈائون میں تاخیر کردی ۔
 گزشتہ دنوں لاک ڈائون کی خلاف ورزیوں کے جتنے معاملات سامنے آئے ہیں ، انہیںدیکھتے ہوئے ہی  وزیر اعظم نے ۲۱؍ دنوں کے ملک گیر لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے ۔ انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ اگر ۲۱؍دن میں ہم نہیں سنبھلے تو ہم ۲۱؍سال پیچھے جاسکتے ہیں جو ہندوستان جیسے ملک کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو بہت سختی کے ساتھ لاک ڈائون نافذ کروانا پڑا۔خود مہاراشٹر میں جہاں اس وقت سب سے زیادہ مریض ہیں وہاں پر بھی وزیر اعلیٰ کو کئی کئی مرتبہ اپیل کرنی پڑ رہی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں، باہر نہ نکلیںورنہ وائرس پھیلنے کا خدشہ رہے گا۔ اس کے باوجود لوگ لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان  کے ویڈیوز ہمیں  سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ لاک ڈائون نافذ کرنے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہی ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے عرصےمیں مختلف ممالک سے۶۴؍ہزارہندوستانی وطن واپس لوٹے ہیں۔  ان میں سے ظاہر سی بات ہے کہ کئی افراد کورونا سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ 
 حکومت کی جانب سے لاک ڈائون کا اعلان اسی لئے کیا گیا ہے کہ جو لوگ بیرون ملک سے لوٹے ہیں وہ گھروں تک محدود ہو جائیں اور اپنا انفیکشن پھیلانہ سکیں۔ اس دوران اگر وہ کورونا سے متاثر ہوئے تو ۱۴؍دن میں ان کا انفیکشن سامنے آجائے گا اور فی الحال جتنے افراد کا علاج چل رہا ہے ان میںسے بہت سوں کا علاج مکمل ہو جائے گا۔ اس طرح سے سرکار کووقت مل جائے گا کہ وہ کورونا کے متاثرین کی تعداد پر کنٹرول حاصل کرلے اور جو نئے متاثرین ہیں ان کا فوری علاج شروع کردے کیوں کہ کورونا کے معاملے میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اگر اس کا علاج پہلے ہی مرحلہ پر شروع کردیا جائے تو یہ بہت آسانی سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن کامیابی اسی وقت حاصل ہو گی جب ہم انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
  کورونا کا خوف اس قدر ہے کہ ایک ماہ میں حالات اتنی تیزی سے بدلیں گے کسی کو یقین نہیں تھا اور اگر ان بدلے ہوئے حالات سے بھی کوئی سبق نہ لے تو پھر سبق نہ لینے والے کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ کیوں کہ اب بھی ہمارے محلوں میں لوگ گھروںسے باہر نظر آرہے ہیں۔سرکار نے لاک ڈائون کا اعلان سبھی کو اس مہلک وائرس سے بچانے کےلئے کیا ہے۔ اب تک یہ وائرس جتنی جانیں لے چکا ہے اسے دیکھتے ہوئے بھی ہمیں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے کہ ہم گھروں سے بغیر کسی شدید ضرورت کے باہر نہ نکلیں لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے نوجوان  خاص طور پرنکڑ بازی میں مصروف ہیں۔ 
 پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ہمارے محلوں میں  ویسی سختی نہیں کی جارہی ہے جیسی دیگر علاقوں میں ہو رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہ کریں۔ کورونا وائرس کا پھیلائو روکنا صرف حکومت یا انتظامیہ یا برادران وطن کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ  یہ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ اس سے ہم  فرار حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم وائرس کے پھیلائو میں کسی بھی طرح ممد و معاون نہ بنیں بلکہ ان حالات میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK