Inquilab Logo

غفلت میں نہیں رہا جاسکتا

Updated: November 30, 2020, 10:43 AM IST | Editorial

امریکہ میں حکومت بدل گئی مگر کورونا کے تیور نہیں بدلے۔مارچ میں اس وائرس نے امریکی شہروں پر یلغار کی تھی جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اہل امریکہ اور بقیہ دُنیا تشویش میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے

Coronavirus India - Pic : INN
کورونا وائرس انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

امریکہ میں حکومت بدل گئی مگر کورونا کے تیور نہیں بدلے۔مارچ میں اس وائرس نے امریکی شہروں پر یلغار کی تھی جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اہل امریکہ اور بقیہ دُنیا تشویش میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ احتیاطی تدابیر اور ضروری اقدامات کے نتیجے میں حالات کسی حد تک قابو میں آئے مگر جب مختلف ریاستوں نے نرمی برتنی شروع کی، تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے اور انتخابی گہماگہمی اپنے عروج پر پہنچی تب متاثرین کی تعداد ازسرنو بڑھنے لگی اور جولائی میں گراف بہت اوپر تک چلا گیا۔ اب ایک ایک لاکھ نئے کیسیز سامنے آنے سے اہل امریکہ ایک بار پھر تشویش میں مبتلا ہیں۔ دو روز قبل ایک لاکھ اکیاون ہزار نئے متاثرین کے ساتھ مجموعی تعدادِ متاثرین ایک کروڑ ۳۳؍ لاکھ تک پہنچ گئی جس سے فکروتشویش کا لاحق ہونا عین فطری ہے۔ اسے یہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا کہ معاملہ امریکہ کا ہے۔ وہاں رہنے بسنے والے بھی انسان ہیں اور انسانیت کے نقطۂ نظر سے ان کی پریشانی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
 امریکہ کی حالت زار کو سمجھنے کیلئے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس ملک میں کورونا کے متاثرین کی تعداد پوری دُنیا کی مجموعی تعداد کا ۲۰؍ فیصد ہے جبکہ اس کی آبادی دُنیا کی مجموعی آبادی کا صرف ۴؍ فیصد۔ چونکہ مارچ میں کورونا کی یلغار اچانک تھی اور ہیلتھ کیئر سسٹم اس کیلئے تیار نہیں تھا اس لئے مریضوں کو وہ سہولتیں نہیں مل سکیں جو مل سکتی تھیں مگر اب اچھی سہولتیں دستیاب ہونے کے باوجود صحتمند ہوکر گھر لوٹنے والوں کی تعداد میں حسب توقع اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ (۲۴؍ نومبر) کی ایک خبر کا لب لباب یہ تھا کہ طبی عملہ بہتر خدمات فراہم کررہا ہے اس کے باوجود اس کے خوشگوار اثرات معمولی سے زیادہ نہیں ہیں۔ پہلی لہر کے دوران متاثرین میں فوت ہونے والوں کی تعداد ۵؍ تا ۶؍ فیصد تھی جو ۱ء۵؍ سے ۲؍ فیصد تک آگئی تھی مگر گزشتہ تین ماہ سے اس میں مزید کمی نہیں آئی ہے ۔ 
 یہ صورتحال متنبہ کرتی ہے کہ صرف امریکہ نہیں بلکہ کسی بھی ملک کے لوگوں کو  غفلت میں نہیں رہنا چاہئے۔ سابقہ تجربات بتاتے ہیں کہ وباء کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ۱۹۱۸ء کے فلو نے جب وبائی شکل اختیار کی تو اس کا پہلا دور اتنا بھیانک نہیں تھا جتنا کہ دوسرا دور۔ پہلے دور میں اموات بھی اتنی نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ دوسرے دور میں ہوئیں۔ یاد رہے کہ اس وباء میں ۵۰؍ تا ۱۰۰؍ ملین لوگ (عالمی سطح پر) فوت ہوئے تھے۔
  غفلت اس لئے بھی نہیں برتنی چاہئے کہ موسم سرما کی ابتداء ہوچکی ہے اور یہ بات تجربہ اور مشاہدہ میں آچکی ہے کہ کورونا کے خاندان کے دیگر وائرس سرما میں زیادہ پھیلتے ہیں۔امریکی ماہرین بتاتے ہیں کہ ۱۹۱۸ء کی وباء کے خاتمے تک صرف امریکہ میں مہلوکین کی تعداد پونے سات لاکھ تھی۔ اِس وقت وہ صورتحال نہیں ہے مگر دانشمندی مزید لوگوں کے متاثر ہونے اور مزید اموات کو احتیاطی تدابیر کے ذریعہ روکنے ہی میں ہے۔
 وطن عزیز میں ہرچند کہ حالات اطمینان بخش ہیں لیکن شہریوں کا خبردار رہنا اور ہر طرح کی احتیاطی تدابیر کا عمل میں لانا ازحد ضروری ہے۔ ماسک پہن لینے میں کسی کو کوئی دقت یا تردد ہونا چاہئے نہ ہی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے میں سستی برتنی چاہئے۔ ہر شخص اپنی حفاظت کرے تو سب کی حفاظت یقینی ہوسکتی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK