• Tue, 21 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مراٹھی اَدب میں تنقید: ایک مختصرجائزہ

Updated: October 21, 2025, 4:48 PM IST | Kismavati Deshpande | Mumbai

انگریزی کی ادبی تنقید اور ادبی سوانح نگاری کے مطالعے سے مراٹھی معلومات میں نسل در نسل اضافہ ہوا اور بلاشبہ اس میں تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
مراٹھی ادب کے ابتدائی دور میں کوئی مخصوص ادبی نظریہ قائم کرنے کی کوشش مشکل ہی سے ملتی ہے۔ پنڈتوں نے سنسکرت کے ’’ساہتیہ شاستر‘‘ کی روایات کو قائم رکھنے کی جدوجہد کی تھی لیکن ان اصولوں کو مراٹھی میں برتنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بس ایک نایاب مثال ناگیش اور وٹھل کی ’رس منجری‘ کا  ایک باب ہے۔ حالانکہ اس میں اصول کی تدوین باقاعدہ نہیں کی گئی ، تاریخ تاہم پھر بھی شاعری کے اہم مسائل سے متعلق ڈھیر سارے بنیادی نظریات کا خزانہ عطا کیا۔ مثلاً شاعری کی نوعیت اور اس کے مقاصد، شاعر اور قاری کا رشتہ، ایک عمدہ شاعری کی خصوصیات وغیرہ۔ ان مسائل کے ضمن میں ان کا رویہ قابل ذکر ہے۔ یہ کلاسیکی سنسکرت شاعری سے قطعی مختلف ہے۔ احساس کی گہرائی اور ذاتی رویہ بھگتی مارگ کے شعراء کے خاص سرچشمہ ہیں اور یہی شاعر کے رویے کی بنیاد بھی تھے۔ ڈاکٹر کیتکر، جدید مہاراشٹر کے انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کرنے والے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مراٹھا سنت شعریات کے جدید اصولوں سے واقف تھے جس کا اندازہ ان کی تخلیقات سے ہوتا ہے ، نیز یہ کہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں اس کا بھرپور مظاہرہ کیا ، حالانکہ اتفاق سے انہوں نے اصولوں کو منظم طریقے پر شعریات کا علم بنا کر پیش نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے تو قدیم ’ ساہتیہ شاستر‘ کو ایک نیا موڑ مل جاتا اور وہ اس کی خامیوں سے پاک ہوجاتی۔ شعریات کے سلسلے میں سنتوں کی خدمات کا ایک اہم احساس جدید مراٹھی تنقید نے دلایا۔
چپلونکر (دائیں) کے جریدے ’’نبندھ مالا‘‘ کی اشاعت سے تنقید نگاری کے نئے دور کا آغازہوا  جبکہ کولہٹکر  (بائیں) کو بڑی حد تک جدید مراٹھی ادبی تنقید نگاری کا بانی کہا جاسکتا ہے
جدید مراٹھی تنقید کا سلسلہ ابتدائی رسائل اور جرائد کے ساتھ شروع ہوا۔ پرانی تنقید ظاہر ہے محض تحسین و تقریظ کا انداز رکھتی تھی۔ ان کا مقصد قارئین کو سنسکرت یا قدیم مراٹھی کتب سے متعارف کروانا تھا۔ کچھ لوگوں نے مثلاً جسٹس راناڈے نے وقتی طور  پر شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست مع جرأتمندانہ تنقید کے ، پیش کی۔ جب چپلونکر کےرزمیہ ساز جریدے ’’نبندھ مالا‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی تو تنقید نگاری کے بھی ایک نئے دور کا آغازہوا کیونکہ یہ ادب کے ایک علاحدہ پہلو سے متعلق تھا۔ دھیرے دھیرے تنقید زیادہ وقیع، جامع، قابل مطالعہ اور قابل قدر ہوتی چلی گئی۔ چپلونکر کے سنسکرت، مراٹھی اور انگریزی تخلیقات پر لکھے گئے تنقیدی مضامین اس کی بہتر مثال ہیں۔ آگرکر اور تلک نے بھی اس ضمن میں کافی خدمات انجام دیں۔ ان کی تنقیدیں  خاص طور پر چپلونکر کی تنقید نگاری بہت حد تک خالص ادبی اقدار پر مبنی کہی جاسکتی ہے۔ ان ادبی اقدار کا عہد کولہٹکر کی تنقید نگاری کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔
کولہٹکر کو بڑی حد تک جدید مراٹھی ادبی تنقید نگاری کا بانی کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تنقید کو رسائل مکیں شائع ہونے والے تبصروں سے ممیز کیا۔ انہوں نے ادبی اصناف کے تکنیکی مسائل کا گہرائی ، گیرائی اور ایک ادبی تربیت کے ساتھ مطالعہ کیا اور اکثر ادبی شاہکاروں پر اپنے تنقیدی حملوں میں اپنے حسن مزاح کو کام میں لاتے ہوئے دلکش اور دلچسپ مزاح پیدا کیا۔  ان کے دوست اور ہمعصر کیلکر نے بے باک اور بے ساختہ انداز میں تنقید لکھی، بعض مرتبہ بہت ہی شائستہ اور رنگارنگ انداز کی۔ ان کی اکثر و بیشتر تحریریں پیش لفظ یا تقاریر (خطبات) کی صورت میں ہیں۔ مختلف اداروں کی جانب سے ہونے والے جلسوں کے صدارتی خطبے، خاص طور پر ’مہاراشٹر ساہتیہ سمیلن‘ کے خطبے اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے خطبات مجموعی طور پر مراٹھی ادب کے جریدوں میں مراٹھی ادب پر ہونے والی تنقیدوں اور مختلف بنیادی مسائل اور نظریات کو پیش کرتے ہیں۔  وامن ملہار جوشی بیسویں صدی  کے ایک متوازن مزاح نگار اور بہت ہی اہم تنقید نگار ہیں۔ 
۱۹۳۰ء کے آس پاس ادب کے مقاصد کے تعلق سے ایک زبردست اختلافی بحث اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ کے زبردست حامی مشہور ادیب این ایس پھڑکے نے دلیلوں اور مباحث کے ذریعے اپنے نظریے کی تبلیغ کی۔ بہت سے قابل اور باصلاحیت نقادوں نے اس بحث میں حصہ لیا۔ ان میں سب سے اہم وی ایس کھانڈیکر اور جاوڑیکر ہیں۔ پھڑکے غالباً ادیبوں اور قارئین کے ایک بڑے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ادب کا واحد مقصد اس سے لطف اندوز ہونا ہے، لیکن دوسرا غالباً اس سے بھی بڑا گروہ وہ ہے جس کے ادیب نہ جوان ہیں نہ قدیم، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ادب حصول علم کا ذریعہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادب کا زندگی کے ساتھ تعلق زیادہ ترقریبی ہونا چاہئے نیز یہ کہ ادیب میں سماجی شعور کا ہونا بے حد ضروری ہے۔یونیورسٹیوں میں شعبۂ تحقیق کے فروغ اور ہندوستانی زبان و ادب کی ترقی کے ساتھ سنسکرت ساہتیہ کے شاسترا کے مطالعے سے زبردست تحریک حاصل کی گئی۔ اس شاستر کے تین اہم پہلو النکار، دھونی اور راس، تیسری دہائی تک مراٹھی دانشوروں کی توجہ کا مرکز رہے۔ 
انگریزی تنقید اور تنقیدی اصولوں نے مراٹھی تنقید پر غالباً گہرے اثرات مرتب کئے۔ جرائد میں شائع ہونے والے تبصروں کا انداز کم و بیش انگریزی سے ماخوذ تھا لیکن انگریزی ادبی تنقیدی اور ادبی سوانح نگاری کے مطالعے سے مراٹھی معلومات میں نسل در نسل اضافہ ہوا اور صرف میکانیکی تبدیلی یا نقالی سے قطع نظر اس میں بے شمار تبدیلیاں عمل میں آئیں اور ترقی بھی ہوئی۔ شاعرانہ محاسن کے اصول، کرداروں کا تجزیہ، مختلف ادبی اصناف کے مقاصد کا تجزیہ بالکل انگریزی ادب کے انداز میں کیا جانے لگا۔ مختلف اصناف مثلاً جدید شاعری ، ڈرامہ، ناول وغیرہ کی تنقیدی تاریخ لکھی گئی اور ادبی سوانح نگاری اور خودنوشت میں نئی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔
(بحوالہ:مراٹھی ادب ایک تعارف)
ترجمہ: رفیعہ شبنم عابدی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK