ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں جمہوریت کی ناکامی یا اس کو درپیش مسائل کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں وہ تو باعث تشویش ہیں مگر راجہ کو واپس اقتدار سونپنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں یا خواب دیکھے جا رہے ہیں ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 10:33 AM IST | Mumbai
ہمارے پڑوسی ملک نیپال میں جمہوریت کی ناکامی یا اس کو درپیش مسائل کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں وہ تو باعث تشویش ہیں مگر راجہ کو واپس اقتدار سونپنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں یا خواب دیکھے جا رہے ہیں ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
جمہوری طرز حکومت کی اپنی خوبیاں اور خرابیاں ہیں جن پر گفتگو جاری رہنا ضروری ہے مگر جمہوریت کا بدل جمہوریت ہی ہوسکتی ہے آمریت یا شخصی حکومت نہیں۔ اس لئے پڑوسی ملک نیپال میں جمہوریت کی ناکامی یا اس کو درپیش مسائل کے بارے میں جو خبریں آرہی ہیں وہ تو باعث تشویش ہیں مگر راجہ کو واپس اقتدار سونپنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں یا خواب دیکھے جا رہے ہیں ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ اس ملک میں ایک تجارت پیشہ شخص ہیں جن کا نام درگا پرسائی بتایا جاتا ہے۔ موصوف راجہ کے دور حکومت میں مبینہ طور پر دودھ کے برتن میں اسلحہ چھپا کر جنگل میں چھپے ماؤ وادیوں کو پہنچایا کرتے تھے مگر اب وہی صاحب نیپال میں راجہ کے اقتدار کی واپسی کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس ملک کے سیاسی حالات کچھ ایسے ابتر ہوچکے ہیں مثلاً ۱۷؍ سال میں ۱۴؍ حکومتیں بدلی جاچکی ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کی مار سے عوام پریشان ہیں، صحت عامہ کے خراب ہوتے حالات نے انہیں مزید پریشان کر رکھا ہے ایسے میں عوام خصوصاً نوجوانوں میں بے اطمینانی اور ناراضگی کا ہونا ضروری تھا درگا پرسائی اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہیں ان لاکھوں نیپالیوں کی آواز سمجھا جانے لگا ہے جو شخصی حکومت یا راجہ کا اقتدار چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ درگا پرسائی جو کر رہے ہیں اس میں ان کو نیپال کے سابق راجہ گیانیندر کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے نہ صرف سابق راجہ کے اقتدار کا بلکہ ان کے خاندان کا بھی خونیں خاتمہ کیا تھا۔ اب اگر بازی پلٹی تو گیانیندر ہی راجہ بنیں گے۔ ان کو راجہ بنانے کی کوشش مختلف سطح پر مختلف انداز میں کی جا رہی ہے۔
مارچ کے آخر میں کٹھمنڈو میں ایک بڑا عوامی مظاہرہ ہوا تھا۔ اس مظاہرے میں جو بلاشبہ بڑا مظاہرہ تھا اور جس کو موجودہ حکومت کے ہی نہیں نظام حکومت کے خلاف بھی عوام کے غصے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ درگا پرسائی نے اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ نہ صرف شرکت کی تھی بلکہ راجہ کے اقتدار کی واپسی کی بھی بات کی تھی۔ اس مظاہرے میں جو باتیں کہی گئیں یا واقعات ہوئے نیپال کی موجودہ حکومت نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے مگر حکومت کے اقدامات سے جمہوریت کے مخالفین کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ اسی لئے جمہوریت مخالف عناصر اپنے عزائم کو مذہبی احساس بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی جی کی تصویر لگا کر احتجاج کرنے کے پیچھے بھی یہی احساس ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پرسائی اور ان کے ہم نواؤں کا ایسا ویڈیو موجود ہے جس میں ان کو پولیس کا بیریکیڈ توڑتے اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ظاہر ہے کوئی حکومت ایسے شخص کو برداشت نہیں کرسکتی۔ پرسائی کو بھی حکومت کا خوف ڈرانے لگا تو وہ غائب ہوگئے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ نیپال میں ہی کہیں روپوش ہیں مگر اب یہ خبر گشت کر رہی ہے کہ وہ ہندوستان میں ہیں۔ خیر وہ جہاں بھی ہیں چپ نہیں ہیں ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب کے ذریعہ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں انہیں مندر کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہتے ہوئے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ شیر بھی شکار کرنے سے پہلے پیچھے ہٹتا ہے مگر دوبارہ جھپٹتا ہے۔
پرسائی کے ہندوستان میں ہونے کی بات نیپال کے ایوان اقتدار تک پہنچی ہوگی اور کیا ایوان اقتدار نے اس کا اثر نہیں لیا ہوگا؟ حسینہ راجہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ہندوستان میں ہیں اور یہیں سے اقتدار میں واپسی کا منصوبہ بنا رہی ہیں دوسری طرف بنگلہ دیش کی حکومت جو ظاہر ہے کہ منتخبہ حکومت نہیں ہے حسینہ کو واپس مانگ رہی ہے۔ ہندوستانی حکومت کے ان کا مطالبہ نہ ماننے سے دونوں ملکوں میں تلخی بھی بڑھ رہی ہے، اب نیپال کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ درگا ۱۹۷۱ء میں ’تہرا تھوم‘ کے ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کو پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ ’جھاپا‘ میں انہوں نے بھینس پالنے کا کاروبار شروع کیا مگر اس میں بھی کامیاب نہیں ہوئے اور بالآخر اس کو چھوڑ بیٹھے۔ ہر طرف یا ہر کام میں ناکامی کے بعد وہ سیاست میں آئے اور سیاست بھی ایسی جو مذہب کی آمیزش اور راجہ کے بارے میں ایک خاص قسم کے عقیدے کے سبب پروان چڑھ رہی ہے البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ’باسی کڑھی میں اُبال‘ کارگر ثابت ہوتا ہے یا نہیں یعنی جمہوریت پر شخصی حکومت کو ترجیح دینے کی سیاست کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟
کیا نیپال کے عوام اپنے راجہ کا جسے وہ ’شیو‘ کا اوتار سمجھتے تھے خونیں انجام بھول گئے ہیں اور کیا گیانیندر کی اقتدار میں آنے کی کوشش اور اس کوشش میں استعمال کئے ہوئے پرتشدد ہتھکنڈوں اور نشہ آور اشیاء کا استعمال بھی انہیں یاد نہیں ہے؟ رہی بات پرسائی کی تو ایسا شخص جو ماؤ وادیوں کا ہم نوا اور معاون رہا ہو راتوں رات آمریت یا گیانیندر کی واپسی کا حامی ہوسکتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب سیاست کے کھیل اور سیاست کی راہ سے اقتدار پر قابض ہونے والوں کے ہتھکنڈے ہیں۔ جس شخص نے پہلے آمریت اور شخصی حکومت کو ناکام بنایا، اب وہ جمہوریت کو ناکام بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ گیانیندر جنہیں عوام کی بغاوت و بے اعتمادی کے سبب راجہ کی گدّی چھوڑنا پڑا تھا دوبارہ اقتدار میں آنے کیلئے اس شخص کو ’مہرہ‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیکن کیا یہ مہرہ مطلوبہ نتائج یا مقاصد حاصل کرنے میں گیانیندر کو کامیابی دلا سکے گا؟ شاید نہیں، اوّل تو نیپال کے عوام جو واضح طور پر پہاڑی اور ترائی کے علاقوں میں منقسم ہیں اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ پرسائی صرف ایک تاجر ہے اور اس کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ سارا جھگڑا ترائی یعنی مدھیش میں ہے، نیپال میں پہاڑی علاقے کے عوام کسی اور انداز سے سوچ رہے ہیں۔ ان کے مفادات اور طرز زندگی میں ترائی والوں سے الگ ہیں۔ ایک زمانے تک وہی نیپال کے راجہ کے اقتدار کا پایہ بنے رہے ہیں۔ انہوں نے ماؤ وادیوں کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی تھی، ان کے بیجنگ سے بھی گہرے تعلقات ہیں کیا وہ لوگ پرسائی جیسوں کی کوششوں کو برداشت کریں گے؟ شاید نہیں۔ ترائی کے لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی ناکامی کو جمہوریت ہی درست کرسکتی ہے شخصی حکومت نہیں۔ عالمی برادری بھی نیپال میں جمہوریت ہی کے حق میں ہے۔ یہ تمام امیدیں رائگاں نہیں جائیں گی اور اگرچہ نیپال میں آمریت گھات لگائے بیٹھی ہے مگر ناکام ہی رہے گی۔n