Inquilab Logo

براہ راست مقابلہ والی سیٹیں

Updated: April 13, 2024, 2:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ِکانگریس ۲۰۱۴ء سے بی جے پی کے نشانے پر ہے۔ اس کے لیڈروں کے خلاف طومار باندھا گیا، لعن طعن کی گئی، اس کی ریاستی حکومتوں کو توڑنے کی کبھی کامیاب اور کبھی ناکام کوشش کی گئی، اس کے اعلیٰ لیڈروں کو ای ڈی نے طلب کیا، راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رُکنیت منسوخ کی گئی، اس کے موجودہ یا سابق لوک سبھا یا اسمبلی کے اراکین کو بہلا پھسلا کر یا ’’ڈرا دھمکا کر‘‘ پارٹی کو خیرباد کہنے پر ’’مجبور‘’ کیا گیا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ِکانگریس ۲۰۱۴ء سے بی جے پی کے نشانے پر ہے۔ اس کے لیڈروں  کے خلاف طومار باندھا گیا، لعن طعن کی گئی، اس کی ریاستی حکومتوں  کو توڑنے کی کبھی کامیاب اور کبھی ناکام کوشش کی گئی، اس کے اعلیٰ لیڈروں  کو ای ڈی نے طلب کیا، راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رُکنیت منسوخ کی گئی، اس کے موجودہ یا سابق لوک سبھا یا اسمبلی کے اراکین کو بہلا پھسلا کر یا ’’ڈرا دھمکا کر‘‘ پارٹی کو خیرباد کہنے پر ’’مجبور‘’ کیا گیا اور بی جے پی میں  شامل ہونے پر اعزاز و اکرام سے نوازا گیا، اتنا ہی نہیں ، حال حال میں  اس کے بینک کھاتوں  کو منجمد کیا گیا۔
 یہ ساری کوششیں  اس لئے کی گئیں  تاکہ ملک کی اُس پارٹی کو بے دست و پا کردیا جائے جس کی ملک بھر میں  شاخیں  ہیں  اورجو بیشتر وقت ملک کے اقتدار پر قابض رہی۔ قارئین بی جے پی کے نعرے ’’کانگریس مُکت بھارت‘‘ سے بخوبی واقف ہیں ۔ اس نے ’’سی پی آئی مُکت بھارت‘‘ یا ’’سی پی ایم مُکت بھارت‘‘ یا ’’این سی پی مُکت بھارت‘‘ یا ’’سماج وادی مُکت بھارت‘‘ کا نعرہ نہیں  لگایا۔ اُسے علم تھا کہ کانگریس ہی ہے جو اُسے اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے، رہی علاقائی پارٹیاں  تو اُن سے نمٹ لیا جائیگا جو نہ تو فوری خطرہ ہیں  اور نہ ہی اُسے اقتدار سے بے دخل کرنے کی طاقت و صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اِس وقت بھی آپ بی جے پی کی ریلیوں  میں  ہونے والی تقاریر بالخصوص وزیر اعظم مودی کے خطابات کا جائزہ لیں  تو معلوم ہوگا کہ کانگریس کے خلاف تسلسل کے ساتھ کچھ نہ کچھ کہا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس اب بھی بی جے پی کیلئے خطرہ ہے؟ 
 ۲۰۲۴ء کے نقطۂ نظر سے دیکھیں  تو اس سوال کا جواب نفی میں  ہے مگر ضروری نہیں  کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہی رائے دہندگان کے دل میں  ہو۔پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے اور اگر پلٹا تو یقینی طور پر کانگریس کے حق میں  پلٹے گا کیونکہ لوک سبھا کی ہر پانچ میں  سے دو سیٹ پر بی جے پی کا براہ راست مقابلہ کانگریس سے ہوتا ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں  ۱۸۶؍ سیٹیں  ایسی تھیں  جن میں  ملک کی دونوں  بڑی پارٹیاں  ہی آمنے سامنے تھیں ۔پہلے الیکشن میں  کانگریس نے صرف ۲۴؍ سیٹوں  پر کامیابی حاصل کی جبکہ بعد کے الیکشن میں  مزید خراب کارکردگی کے سبب صرف ۱۵؍ سیٹیں  بچاسکی۔ اگر وہ ان ۱۸۶؍ میں  سے ۸۶؍ سیٹیں  حاصل کرلے تو بی جے پی کیلئے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ اسی لئے، کانگریس نہایت محدود وسائل کے باوجود اُنہی سیٹوں  پر زیادہ محنت کررہی ہے جنہیں  وہ بی جے پی کے ہاتھوں  سے چھین سکتی ہے۔ پارٹی نے دیگر جگہوں  پر اپنی حلیف پارٹیوں  کو موقع دیا اور اگر اُنہوں  نے زیادہ سیٹوں  کا مطالبہ کیا تو اُن کیلئے زیادہ سیٹیں  چھوڑنے پر بھی رضامند ہوگئی کیونکہ اُسے اُن ہی سیٹوں  پر زیادہ توجہ دینی ہے جہاں  وہ بی جے پی کا براہ راست مقابلہ کرسکتی ہے یعنی دیگر سیٹوں  پر توانائی صرف کرنے سے بچنا ہے جہاں  بی جے پی کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کیلئے علاقائی پارٹیاں  موجود ہیں ۔
 یہ اچھی حکمت عملی ہے مگر قومی میڈیا کانگریس کو خراب روشنی میں  دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں  جانے دے رہا ہے۔ اگر وہ علاقائی پارٹیوں  پر دباؤ ڈال کر زیادہ سیٹیں  حاصل کرے تو میڈیا کو علاقائی پارٹیوں  کا درد ستائے گا اور اگر کانگریس  اُنہیں  زیادہ موقع دے تو میڈیا اسے کانگریس کی کمزوری باور کرائے گا۔ اس لئے عوام کو اپنی رائے بنانے کیلئے میڈیا کی رائے پر انحصار نہیں  کرنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK