Inquilab Logo

ڈراپ آؤٹ‘کونظرانداز مت کیجئے

Updated: February 27, 2022, 8:47 AM IST | Mumbai

وبائی دور گزر چکا، اسکول کالج کھل گئے، امتحان کی تیاری شروع ہوگئی اور بہت جلد امتحانات مکمل بھی ہوجائینگے۔ اساتذہ، طلبہ اور والدین اطمینان کا سانس لیں گے کہ بہ دقت تمام ہی سہی، آزمائش کا یہ دور ختم ہوا اور اب چونکہ حالات بہتر ہوگئے ہیں

The epidemic has passed, schools and colleges have reopened, and preparations for the exams have begun
وبائی دور گزر چکا، اسکول کالج کھل گئے، امتحان کی تیاری شروع ہوگئی

وبائی دور گزر چکا، اسکول کالج کھل گئے، امتحان کی تیاری شروع ہوگئی اور بہت جلد امتحانات مکمل بھی ہوجائینگے۔ اساتذہ، طلبہ اور والدین اطمینان کا سانس لیں گے کہ بہ دقت تمام ہی سہی، آزمائش کا یہ دور ختم ہوا اور اب چونکہ حالات بہتر ہوگئے ہیں، اس لئے آئندہ سال سے تعلیم کا سلسلہ بدستور جاری و ساری رہے گا۔ خدا کرے کہ ایسا ہو۔
 ایسا یقیناً ہوگا مگر ازخود نہیں ہوجائیگا اس کیلئے معاشرہ کو فکر کرنی ہوگی۔ یہ بات خاص طور پر اس لئے کہی جارہی ہے کہ وبائی حالات اور لاک ڈاؤن سے سماج کا ایک طبقہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے گاؤں کی طرف ہجرت کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو معاشی نقطۂ نظر سے کچھ سہولت تو ہوگئی مگر بچوں کا سلسلۂ تعلیم منقطع ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھ گئی۔ کتنی بڑھی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ گزشتہ سال اگست میں وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے بتایا تھا کہ اس وقت اسکول یا نظام تعلیم سے دور بچوں کی تعداد پندرہ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ مگر یقین جانئے اسکول سے دور یا تعلیم سے غافل نوعمروں کی تعداد اس سے بھی زیاہ ہے۔ ان میں اکثریت ان طلبہ کی ہے جو عام دنوں میں بھی تعلیم سے بے رغبتی کا شکار تھے۔ اس کے باوجود وہ تعلیم سے وابستہ تھے کیونکہ ان پر سماجی دباؤ تھا، ساتھی طلبہ کی رفاقت کا لالچ تھا اور یہ احساس تھا کہ اسکول نہیں گئے تو کب تک گھر بیٹھے رہیں گے اور باہر نکلے بھی تو کہاں جائینگے یا جیب خرچ کہاں سے لائیں گے۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ اسکول جاتے، چنانچہ وہ اسکول جاتے رہے اور تعلیم سے ان کا تعلق قائم رہا۔ مگر لاک ڈاؤن کے دوران اسکول بند ہوئے تو ان کی وہ تمام دلچسپیاں ختم ہوگئیں جن کے سبب ان کا سلسلہ تعلیم جاری نہیں رہا۔ ان میں کچھ ایسے تھے جو بیٹھے بیٹھے اکتا کر یا زائد گھریلو آمدنی کے مفاد کے تحت کسی چھوٹے موٹے روزگار سے وابستہ ہوگئے۔ان چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے والے کس کس مجبوری اورکس کس بہانے سےاِدھر اُدھر ہوگئے۔اس کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھی اور اب کوئی ایسا سروے ہی جوباریک بینی کے ساتھ کیا گیا ہو اصل حقیقت سامنے لاسکے گااور دنیا جان سکے گی کہ ڈراپ آؤ ٹ کی حقیقی شرح کیا ہے۔ 
 بالفرض ڈراپ آؤٹ تیس تا چالیس فیصد ہوتوحکومت کیا کرے گی اور سماج کیا کرے گا؟ یہ بہت اہم سوال ہےاس لئے اس جانب توجہ یا تو نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ عنقریب امتحانات ہوں گے اور چھٹیاں شروع ہوجائیں گی۔ ڈراپ آؤٹ کا معاملہ اور بھی پیچھے چلا جائے گا۔ ہمیں اس مسئلے کی سنگینی کوگہرائی کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اس کے لئے کوئی لائحہ عمل تیارکرنا چاہئے۔یہاں ہمیں سے مراد یہ ہے کہ افراد ، تنظیمیں ، خاندان اور حکومت ۔یہ کسی ایک کا نہیں سب کا مسئلہ ہے کیونکہ تعلیم سے بے گانہ رہ جانے والے نوجوان ملک اورقوم کے لئے ویسے خدمت انجام نہیں دے سکتے جیسے تعلیم یافتہ نوجوان دیتے ہیں۔ ہمیں ایک تعلیم یافتہ اور زندگی کے چیلنجوںکو قبول کرنے والی نسل کی ضرورت ہے جو ملک کو ہر محاذپر آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بعض لوگ یہ سوچ کرکہ ہمارے گھر میں ڈراپ آؤٹ نہیں ہے، مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے پڑوس میں ڈراپ آؤٹ ہوتا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو وسیع تر نقطہ  ٔ نظر سے دیکھا جائے اور حل کی کوششیں تیز کی جائیں۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK