Inquilab Logo

پولنگ ڈیٹا پر شکوک کے سائے

Updated: May 09, 2024, 1:15 PM IST | Mumbai

ایس وائی قریشی نے اس صورت حال کے پیش نظر مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن، جس کی وہ سربراہی کرچکے ہیں، یہ بتائے کہ کتنے لوگوں نے ووٹ دیئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پولنگ فیصد بتا دینا کافی نہیں، کتنے رائے دہندگان نے حق رائے دہی کا استعمال کیا یہ بتانا ضروری ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کے اعدادوشمار ظاہر کرنے میں غیر معمولی تاخیر پر تشویش غلط یا بلاوجہ نہیں ہے۔ اولین دو مرحلوں میں کتنے رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اس کے حتمی اعدادوشمار پہلے مرحلے کی پولنگ کے گیارہ دن بعد اور دوسرے مرحلے کی پولنگ کے چار دن بعد منظر عام پر لائے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے الیکشن کے اعلان کے بعد جو پریس کانفرنس کی تھی اُس میں شفافیت پر بہت زور دیا تھا۔ یہ بھی کہا تھا کہ ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ فراہم کیا جائیگا مگر چونکہ شفافیت مشکوک ہے اس لئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات بھی غلط ٹھہرتی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی مرحلے کی پولنگ کے اعدادوشمار اتنی تاخیر سے ظاہر کئے گئے ہوں۔ گزشتہ دنوں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے بعض اخبارات سے گفتگو کے دوران کہا کہ ۲۰۱۴ء تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پولنگ کا ڈیٹا ۲۴؍ گھنٹوں کے اندر ظاہر نہ کردیا گیا ہو۔ ایس وائی قریشی کے بیان سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جو ڈیٹا ۲۴؍ گھنٹوں میں ظاہر نہیں کیا گیا، کیا وہ ۳۶؍ یا ۴۸؍ گھنٹوں میں بھی ظاہر نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے سوالات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ 
ایس وائی قریشی نے اس صورت حال کے پیش نظر مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن، جس کی وہ سربراہی کرچکے ہیں، یہ بتائے کہ کتنے لوگوں نے ووٹ دیئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پولنگ فیصد بتا دینا کافی نہیں، کتنے رائے دہندگان نے حق رائے دہی کا استعمال کیا یہ بتانا ضروری ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ ووٹوں کی گنتی کے وقت دیکھا جائے کہ جتنے ووٹ ڈالے گئے تھے اُتنے ہی گنتی میں آئے یا اُس سے زیادہ آگئے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن پر اِس وقت یہ دباؤ ہے کہ وہ ایک ایک انتخابی حلقے کا ڈیٹا جاری کرے کہ وہاں مجموعی طور پر کتنے رائے دہندگان نے ووٹ دیا ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن پر دباؤ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ اس نے پولنگ مراحل کے بعد جو فیصد ظاہر کیا تھا اُس میں اور حتمی فیصد میں کم و بیش ۶؍ کا فرق ہے جبکہ ابتدائی اور حتمی فیصد میں اتنا فرق کبھی نہیں ہوا۔ 
کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے ’’انڈیا‘‘ میں شامل پارٹیوں کے سربراہوں کو خط لکھ کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریاں غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ انجام دینے کیلئے پابند کرنا ضروری ہے، اس لئے وہ بھی آواز اُٹھائیں۔ کھرگے نے یہ بھی لکھا کہ اُنہوں نے ۵۲؍ سال کے اپنے سیاسی کریئر میں کبھی نہیں دیکھا کہ ابتدائی اور حتمی ڈیٹا میں اتنا بڑا فرق آیا ہو۔ 
اتنے مطالبات اور بے چینی کے باوجود الیکشن کمیشن کی خاموشی سے جمہوری عمل پر شک و شبہ کے سائے تو منڈلانے ہی لگے ہیں، الیکشن کمیشن کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اب تک کئی غیر ملکی ادارے یہ اعتراف کررہے تھے کہ ہندوستان بھلے ہی بھوک، جمہوریت، حقوق انسانی یا ترقیاتِ انسانی کی جدولوں پر گھسٹتا رہا مگر انتخابی نقطۂ نظر سے اس کی ساکھ مضبوط ہے، وقت پر الیکشن ہوتے ہیں اور ان میں شفافیت بھی ہے۔ حالانکہ شفافیت کل بھی بہت زیادہ نہیں تھی، ای وی ایم کے تعلق سے بے چینی موجود تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ انتخابی ساکھ بھی باقی نہیں رہ سکے گی۔ الیکشن کمیشن ضابطہ ٔ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں بھی جانبداری برت رہا ہے۔ اتنے اہم ادارے کو اپنی صحت اور ساکھ کی فکر تو ہر حال میں کرنی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK