اسلام محض چند عبادات یا رسوم کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانی فطرت کے ہر گوشے سے ہم آہنگ ایک مکمل تہذیبی و اخلاقی نظام ہے۔
EPAPER
Updated: June 06, 2025, 5:02 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
اسلام محض چند عبادات یا رسوم کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانی فطرت کے ہر گوشے سے ہم آہنگ ایک مکمل تہذیبی و اخلاقی نظام ہے۔
اسلام محض چند عبادات یا رسوم کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانی فطرت کے ہر گوشے سے ہم آہنگ ایک مکمل تہذیبی و اخلاقی نظام ہے۔ یہ دین نہ صرف روحانی پاکیزگی کا داعی ہے بلکہ سماجی عدل، معاشی توازن اور انسانی وقار کا محافظ بھی ہے۔ اسلام نے انسان کو صرف اپنی ذات میں گم رہنے والا زاہد نہیں بنایا، بلکہ اسے اپنے گرد و پیش کی دنیا کا ذمہ دار اور خیرخواہ بھی ٹھہرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے کسی بھی دینی، معاشرتی یا تہوار کے موقع پر غریب، یتیم، محتاج اور لاچار افراد کو نظر انداز نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں مرکز ِ توجہ اور محورِ رحمت بنایا گیا۔
رمضان ہو یا عیدالفطر، عیدالاضحی ہو یا عام دن، اسلام کا معاشرتی وژن ہر لمحہ، ہر موقع اور ہر لمحۂ خیر میں اہلِ حاجت کے وقار اور ضروریات کو ملحوظ رکھتا ہے۔ رمضان کی مقدس ساعتوں میں جہاں روحانی پاکیزگی کا درس ہے، وہیں صدقۃ الفطر اور نفلی صدقات کے ذریعے بھوکوں کو سیر کرنے، ضرورت مندوں کو لباس مہیا کرنے، اور لاچاروں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا اعلیٰ ترین نظام بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ صرف ایک مالی معاونت نہیں، بلکہ ایک تہذیبی پیغام ہے: ’’خوشی وہی معتبر ہے جو بانٹ دی جائے، اور عبادت وہی مقبول ہے جو سماجی ذمہ داری سے جُڑی ہو۔ ‘‘
عیدالاضحی کے موقع پر تو اسلام نے مواساۃ کے مفہوم کو مزید بلند کیا ہے۔ قربانی، جو بظاہر ایک روحانی عبادت ہے، اپنے اندر ایک بھرپور سماجی پیغام سموئے ہوئے ہے: ایثار، اخوت اور مساوات کا پیغام۔ قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں ایک حصہ خاص طور پر محتاجوں، مسکینوں اور فاقہ کشوں کیلئے مخصوص کیا جاتا ہے۔ یہ عمل صرف گوشت کی تقسیم نہیں، بلکہ ایک معاشرتی تعمیر ہے، ایک اخلاقی معراج ہے، جہاں خودداری کے چراغ روشن رکھے جاتے ہیں اور فقر کی تاریکی کو مٹایا جاتا ہے وہ بھی بغیر اس کے کہ کوئی دست ِ سوال دراز کرے۔ یہ اسلام کا ایسا نادر اعجاز ہے کہ اس نے غریب کی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچایا اور مالدار کو محض سخاوت کا نہیں، ذمہ داری کا مکلف بنایا۔
اسلام نے غریب کو محض کھانے کا مستحق نہیں بنایا، بلکہ اس کی خودداری کی حفاظت کو مقدم رکھا۔ کوئی ایسا موقع نہیں، کوئی ایسی گھڑی نہیں، جب اسلام نے غریب کو تنہا چھوڑا ہو۔ وہ دین جو سجدوں میں رب کے سامنے جھکنے کو عبادت کہتا ہے، وہی دین غریب کے حق کو ادا نہ کرنے والے ساجد کو ریاکار کہہ کر پکار دیتا ہے۔ یہی اسلام کا اصل جمال ہے کہ وہ دلوں کو جوڑتا ہےاور سماج کو ایک ایسے بدن کی مانند بناتا ہے کہ اگر ایک عضو میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار ہو جائے۔
قربانی کا گوشت: ایک تہذیبی، روحانی
اور سماجی توازن کا مرقع
قربانی، محض ایک جانور کا ذبح کرنا نہیں ؛ یہ درحقیقت ایک تہذیبی مظہر، روحانی تسلیم و رضا اور سماجی توازن کا زندہ استعارہ ہے۔ اس کی روح نہ خون بہانے میں ہے، نہ گوشت کھانے میں، بلکہ اس کے پسِ پردہ وہ گہرے معانی اور لطیف پیغامات پنہاں ہیں جو انسان کو صرف ایک فردِ واحد نہیں، بلکہ ایک مربوط و متکافل معاشرے کا ذمہ دار رکن بناتے ہیں۔
قربانی کے دن، ایامِ حج کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ دن جن میں مکہ مکرمہ کی فضا لبّیک اللھمّ لبیک سے گونجتی توہے مگر تمام انسان حج پر نہیں جا سکتے، نہ سب کے پاس وسائل ہیں، نہ دنیا کی تمام اقوام کیلئے مکہ کے محدود دائرے میں بیک وقت سما جانا ممکن ہے، چنانچہ اسلام نے ایک ایسا راستہ دکھایا کہ گویا ہر گھر، ہر بستی اور ہر ملک کے مسلمان ان ایام میں روحانی طور پر ’’میدانِ منیٰ‘‘ کا حصہ بن جائیں اور وہ راستہ ہے: قربانی۔
اسلام نے حج کے ان تین دنوں کو پوری امت کے لئے جشن ِ عبادت اور ضیافت ِ ربانی بنا دیا، تاکہ وہ لوگ جو میدانِ عرفات تک نہ پہنچ سکیں، وہ بھی اپنی نیت، اپنی محبت اور اپنے عمل سے اسی کارواں کا حصہ بن جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ قربانی کے عمل کو ہر صاحبِ استطاعت پر لازم کیا گیا، تاکہ زمین کے ہر گوشے میں بندگی کا پرچم لہرائے اور ہر دل میں اخلاص کی چنگاری روشن ہو۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے لئے تین حصے بنائے جائیں، یہ محض ایک انتظامی ہدایت نہیں، بلکہ ایک عمیق سماجی، روحانی اور اخلاقی فلسفے کی مظہر ہے۔
پہلا حصہ: خود کے لئے
یہ اس فطری تعلق کا اعتراف ہے جو انسان اور اس جانور کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے جسے وہ محبت، شفقت اور توجہ سے پالتا ہے۔ گویا یہ گوشت کھانا صرف لذت کا حصول نہیں، بلکہ اس دعوتِ ربانی کا حصہ بننا ہے جس میں رب اپنے بندے سے کہتا ہے: ’’یہ میرا مہمان ہے، اسے میری طرف سے ضیافت دو!‘‘ یہ حصہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بندگی ترکِ دنیا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی نعمتوں سے شکرگزاری کے ساتھ لطف اندوز ہونا بھی بندگی ہے، عبادت ہے۔
دوسرا حصہ: عزیز و اقارب اور احباب کےلئے
یہ وہ حصہ ہے جو انسانی رشتوں کی مٹی کو سیراب کرتا ہے۔ مادی دنیا کی دوڑ دھوپ نے جہاں انسان کو مشین بنا دیا ہے، وہیں قربانی کا گوشت رشتوں کی ڈور کو دوبارہ بُننے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بسااوقات سال بھر ملاقات نہیں ہو پاتی ہے، دلوں میں کدورتیں آ جاتی ہیں، تعلقات میں خلیج حائل ہو جاتی ہے، تب یہ ایک گوشۂ گوشت، ایک رکابی، ایک دعوت نامہ بن جاتا ہے جس کے ذریعے دلوں کے بند دروازے کھلتے ہیں اور رشتوں کی ندی میں محبت کی روانی لوٹ آتی ہے۔
تیسرا حصہ: غرباء اور محتاجوں کے لئے
یہ حصہ وہ محور ہے جہاں اسلام کا عدل، رحم، عزتِ نفس اور تکافل یکجا ہو جاتے ہیں۔ اسلام فقیروں کو بھکاری نہیں بناتا، بلکہ انہیں سماج کا حق دار بناتا ہے۔ وہ غریب مزدور جو روزانہ کی اجرت پر جیتا ہے، وہ خوددار انسان جو ہاتھ پھیلانا اپنی توہین سمجھتا ہے، وہ یتیم جو برسوں سے گوشت کا ذائقہ بھول چکا ہے، ان سب کے لئے یہ گوشت نہیں، بلکہ عزت، شرافت اور شرکت کا تحفہ ہے۔
یہی وہ فلسفہ ہے جو ہمیں سمجھاتا ہے کہ قربانی صرف ’’دینے‘‘ کا عمل نہیں، بلکہ ’’دیکھنے‘‘ کا عمل بھی ہے، دیکھنا کہ آپ کے آس پاس کون بھوکا ہے، کون بے آسرا ہے، اور کون ایسا ہے جو رب کی ضیافت سے محروم ہے۔ اس کی مطلب برآری قربانی کا مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے اس گوشت کو صرف اپنے فریزر میں سجا کر رکھ دیا، یا صرف رسمی انداز میں بانٹ دیا، تو اس کی قربانی مقبول نہیں کیونکہ اسلام قربانی کو ’’نیت‘‘ کا آئینہ بناتا ہے، اور’’تقویٰ‘‘ کو اس کا معیار قرار دیتا ہے۔ اِرشاد ہوا: ’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ‘‘ (سورۃ الحج:۳۷)۔ تو آئیے، اس کو صرف ایک عمل نہ بنائیں، بلکہ ایک پیغام بنائیں، محبت کا، ایثار کا، اور اُس تقویٰ کا، جس سے دل زندہ ہوتے ہیں اور سماج سنور جاتا ہے۔