Inquilab Logo

لاک ڈائون میں عید

Updated: May 29, 2020, 11:10 AM IST | Shamim Tariq

لاک ڈائون میں رمضان گزر گیا، تراویح پڑھ لی گئی اور عید کا دن بھی بسر ہوگیا مگر اجتماعی زندگی بسر نہیں ہوگی۔ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ کورونا وائرس کے مضر اثرات ہی نہیں، بھوک، بیماری اور تنہائی کے مضر اثرات کے مضمرات پر بھی غور کرے۔ لاک ڈائون میں عید تو گزر گئی زندگی نہیں گزر سکتی۔

Jama Masjid - Pic : PTI
جامع مسجد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

عید کی صبح گھر کے ایک کونے میں بیٹھا مَیں سوچ رہا تھا کہ کیا اس سے پہلے بھی کوئی عید ایسی گزری ہے جب عیدگاہ جانا نہ ہوا ہو؟ دیر تک سوچنے کے بعد یاد آیا کہ پوری عمر میں صرف ایک سال عیدالاضحی کی صبح کچھ ایسی طبیعت بگڑی تھی کہ بستر سے اٹھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ہر سال عید میں گھر سے نکلنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا، عید گاہ جانا، راستے میں تسبیح پڑھنا، جو رغبت دکھائے اس سے گلے ملنا اور اس کے ساتھ ہی غربت اور احساس کمتری کے مارے ہوئے کچھ لوگوں کے دبک کر چلنے اور کچھ لوگوں کی رعونت کا نظارہ کرنا معمولات میں شامل تھا۔ عید کی مذہبی حیثیت تو ہے ہی، اس موقع پر سماجی مساوات اور معاشی ایثار کا جو نظارہ عیدگاہ میں ہوتا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا مگر وقت کے ساتھ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو سماجی معاشی حیثیت حتی کہ مذہبی ذمہ داری انجام دینے کے سبب دوسروں سے ممتاز نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے اس سال جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس کی زد میں رعونت کا مظاہرہ کرنے والے تو آئے ہی ہیں مکاتب و مدارس کے سفراء بھی آئے ہیں جو بہت اہم دینی اور تعلیمی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ فقراء بھی محروم رہے ہیں جو اپنی جائز ضروریات کی تکمیل کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ سڑک کے کنارے کھانے پینے یا اوڑھنے، بچھانے، پہننے کے سامان فروخت کرنے والوں کی سال بھر کی کمائی بھی ضائع ہوئی ہے۔ تجارت اور ملازمت کرنے والے عام لوگوں پر بھی معیشت کی مار پڑی ہے۔ ظاہر ہے اس کے اثرات آنے والے دنوں میں دیکھنے ہوں گے۔ چاند رات یا اس سے پہلے عید بازار نہ لگنے یا عید بازار میں بھیڑ بھاڑ نہ ہونے سے جیب کتروں کی کمائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جب لاک ڈائون کھلے گا تو جائز و ناجائز طور پر کمائی کرنے والے سبھی لوگ اپنے نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کریں گے اس وقت کیا ہوگا؟
 کچھ عرصہ ہوا مَیں لائبریری میں بیٹھا پرانے رسائل اور کتابیں دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نگاہ سر سید احمد خاں کے ایک مضمون پر پڑی۔ موصوف نے ۱۸۵۷ء کے بعد کی ایک عید اور عیدگاہ میں مسلمانوں کی حاضری کا نقشہ کھینچا ہے۔ کسی کے ایک پائوں میں چپل ہے، کسی کے سر پر ٹوپی نہیں ہے کسی نے بس کسی طرح ستر چھپا لیا ہے اور نماز پڑھنے چلا آیا ہے۔ پردہ نشین خواتین کا ہجوم ہے۔ یہ سب خوشحال گھرانوں کی خواتین ہیں مگر حالات نے انھیں مجبور کردیا ہے کہ وہ نامحرم کے سامنے اپنا دکھڑا روئیں، سیدانی ہونے، کئی دن کی بھوکی ہونے کی دہائی دیں۔ مضمون پڑھ کر ہچکیاں بندھ گئیں۔ جو لوگ اس وقت لائبریری میں موجود تھے انھوں نے سمجھا میرے کسی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ مَیں نے جب حقیقت بیان کی تو وہ بھی اشکبار ہوگئے۔ لاک ڈائون میں مخیر حضرات نے دل کھول کر اپنے بھائیوں کی مدد کی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے مگر آنے والے دنوں میں اقتصادی پریشانیوں کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اقتصادی پریشانیاں جرائم میں بھی اضافہ کرتی ہیں اور سماجی کشمکش میں بھی۔ اس وقت اس ضبط نفس کی زیادہ ضرورت پیش آئے گی جو روزے کا عطیہ ہے۔ لاک ڈائون نے عام لوگوں خاص طور سے عورتوں اور بچوں کو ذہنی تنائو میں بھی مبتلا کردیا ہے جس سے آپسی رشتے بگڑ رہے ہیں گھروں میں کشمکش بڑھتی جارہی ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ حکومت نے گھروں تک شراب پہنچناے کی سہولت فراہم کردی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لاک ڈائون کے اثرات صرف اقتصادی پریشانیوں کی صورت میں نہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کی صورت میں بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے میں لوگوں نے روزے بھی رکھے، گھروں میں تراویح بھی پڑھی اور پھر عید گاہ گئے بغیر عید بھی منائی مگر یہ سوال اب بھی ذہن میں دستک دے رہا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔
 اب تک کا معاملہ یہ تھا کہ جب بھی معاشرہ معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوتا تھا یا مختلف طبقات میں کشمکش شروع ہونے کا اندیشہ ہوتا، فرقہ وارانہ نعروں اور صف آرائی کا سہارا لیا جاتا تھا مگر اب یہ حربہ شاید ہی کارگر ہو۔ معیشت کی ابتری کا ثبوت یہ ہے کہ مسلسل نیچے گر رہی ’’ریپو ‘‘ شرح کو مزید گرا کر ریزور بینک کے گورنر ششی کانت داس نے چار فیصلہ کردیا ہے۔ ’’ ریپو ‘‘ وہ شرح ہے جس پر بینکوں کو ریزور بینک سے قرض ملتا ہے۔ گورنر موصوف نے بینکوں سے لئے گئے قرضوں کی قسط چکانے میں ملی چھوٹ کو مزید تین ماہ بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح آئندہ نگیٹیو یعنی منفی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ گورنر موصوف نے عوام کو خوش فہمیوں سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کی صاف گوئی نے یہ سوال بھی کھڑا کردیا ہے کہ حکومت کے پیکیج اور دیگر اقدامات کے باوجود ہماری معیشت کب تک کھڑی رہ سکے گی؟
 کورونا بیشک ایک بڑا چیلنج ہے مگر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جس قسم کے لاک ڈائون کا سہارا لیا گیا ہے وہ اس کا مکمل علاج نہیں ہے۔ اگر دکانیں کھلیں گی نہیں، لوگ تجارت نہیں کریں گے اور ترقیاتی کاموں کی رفتار سست رہے گی تو کتنے لوگ اپنا روزگار یا ذریعۂ آمدنی بچا پائیں گے؟ روزہ کا پیغام یہ ہے کہ کھانے کی اشیاء ہر طرف بکھری ہوئی ہے مگر روزے کی حالت میں جائز اشیاء کا بھی استعمال مت کرو۔ معاشرے میں ایسے واقعات و محرکات ہوسکتے ہیں جو غصے اور ناشائستہ الفاظ کے منہ سے نکلنے کا باعث ہوں مگر زبان کو ناشائستہ الفاظ سے محفوظ رکھو۔ کورونا کو شکست دینے کے لئے بھی کاروانِ زندگی کو کمرے تک محدود کردینا مفید نہیں ہے۔ اس سے کوئی بھوک سے مرے گا، کوئی پاگل ہوکر مرے گا اور کوئی خوف سے مرے گا۔ جسمانی فاصلے کی شرط کے ساتھ آمد و رفت اور کاروبار کو جاری رکھ کر بھی کورونا کو شکست دی جاسکتی ہے۔ جسمانی فاصلہ ہی کورونا کا علاج ہوتا تو لاک ڈائون کے درمیان اس کے متاثرین کی تعداد بڑھی نہ ہوتی۔
 لاک ڈائون میں رمضان گزر گیا، تراویح پڑھ لی گئی اور عید کا دن بھی بسر ہوگیا مگر اجتماعی زندگی بسر نہیں ہوگی۔ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ کورونا وائرس کے مضر اثرات ہی نہیں، بھوک، بیماری اور تنہائی کے مضر اثرات کے مضمرات پر بھی غور کرے۔ لاک ڈائون میں عید تو گزر گئی زندگی نہیں گزر سکتی۔ کورونا یا کسی اور عذاب یا وبا کو بھی کاروانِ زندگی کو آگے بڑھاتے ہوئے اسی ضبط نفس کے ذریعہ گزارا جائے تو اچھا ہے۔ مرجانے کے خوف سے خودکشی کرلینا جائز نہیں ہے

eid lockdown Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK