Inquilab Logo

شیریں سخنی اور دردمندی عیدالفطر کا تہذیبی پہلو

Updated: April 13, 2024, 1:56 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

درد مندی اور شیریں سخنی انسان کو مصائب و مسائل سے نجات دلاتی ہے۔ عیدالفطر بھی یہی پیغام دیتی ہے۔ یہ اس کا تہذیبی پہلو ہے جسے ذہن نشین رکھا جانا چاہئے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جب  یہ  سطور آپ پڑھ رہے ہوں  گے دوگانہ ٔ  شکر اور اس سے پہلے صدقۂ فطر کی ادائیگی ہوچکی ہوگی۔ میرے بچپن میں  جب موبائل اورانٹرنیٹ نہیں  تھا تو ان مجلسوں  میں  اہل علم سے ایسی باتیں  سننے میں  آتی تھیں  جن سے معلومات میں  بھی اضافہ ہوتا تھا اور تہذیب ذہن کی سبیل بھی ہوتی تھی۔ یہ عیدالفطر کا تہذیبی پہلو تھا۔ حال ہی میں  جب دہلی سے ممبئی آیا تو استاذالاساتذہ پروفیسر شریف حسین قاسمی کی تازہ ترین تصنیف ’’ فارسی شاعری تہذیبی پس منظر‘‘ مانگ لایاتھا۔ ۶۰؍ سے زائدمعتبر اور اہم ماخذ کی بنیاد پر لکھی گئی اور غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع کی گئی یہ کتاب محترم کے انسائیکلو پیڈیائی مطالعے اور حافظے کا بین ثبوت ہے۔  میں  تو تراویح بعد سے سحری تک یہی پڑھتا رہتا تھا،  سوچا اپنے مطالعے میں   آپ کو بھی شریک کروں  ، یہ شرکت عید پر دی گئی دعوتوں  اور دسترخوان پر پروسے ہوئے کھانوں  سے زیادہ صحت بخش ثابت ہوگی ۔ 
  ’ تذکرہ شعرائے پنجاب‘  کے حوالے سے لکھا ہے کہ فقیراللہ آفریں  لاہور کی ایک مسجد کے دروازے میں  رہتے اور نوے برس کی عمر میں  بھی خضاب لگاتے تھے۔ کسی نے ان کی اس ’جواں  مزاجی‘ کے بارے میں  پوچھا تو برجستہ ایک  فارسی شعر پڑھا جس کا مطلب ہے کہ سفید بال زندگی کے دشمن ہیں  اور دشمن کا چہرہ تو سیاہ کرنا ہی چاہئے۔’ بال کالا‘ یا ’منہ کالا‘ کرنے کا مشورہ تو غلط ہوگا مگر ’’جواں  مزاجی ‘‘ کی ترکیب عید کی کیا اور عید کے بعد کی کیا، کسی بھی دعوت  میں  چنے ہوئے کھانوں  سے کم لذت بخش نہیں  ہے۔ اسی طرح  ’ نفائس المآثر‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شرف الدین پیام ؔشعر کہتے ہوئے کبھی بیٹھ جاتے، کبھی سو جاتے اورکبھی کھڑے ہوجاتے۔ آرزوؔ نے ان کی یہ بیتابی والی کیفیت دیکھی تو کہا بھائی یہ تو دردزہ والی حالت ہے اورکیوں  نہ ہو ’’ آپ  طبع زاد‘‘ شعر جو کہتے ہیں ۔ ’طبع زاد شعر ‘ کہتے  ہیں  میں  بیک وقت مدح اور ہجو کا جو مفہوم ہے کیا وہ کسی دسترخوان پر چنے ہوئےکھانوں  کی لذت سے کم ہے؟ ’ آئینہ ٔ حیرت ‘ کےحوالے سے لکھا ہے کہ اورنگ زیب کی دختر زیب النساء نے شعراء کی دعوت کی اور اعلان کردیا کہ جو بھی کھانا پینا مطلوب ہو پیش کردیاجائے گا۔ ایک اوباش اور آزاد مشرب نے کہا میں  تو ’’ سنبوسہ ٔ بیسن‘ کھانا چاہتا ہوں ۔  زیب النسا ء نکتہ فہم تھیں ، سمجھ گئیں  کہ سنبوسہ سے سین  حذف کردیں  تو بوسہ بچتاہے ، جواب دیاکہ ہمارے مطبخ سے حاصل کرلو۔ 
 ’مآثر الامراء ‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بادشاہ ہمایوں  ایک رات بیرم خاں  سے مخاطب تھے۔ بیرم خاں  کو اونگھ آگئی تو ہمایوں  نے غصہ میں  کہا میں  تم سے مخاطب ہوں ۔ بیرم خان نے فوراً یا برجستہ جواب دیا کہ میں  ’متوجہ ہوں ‘ سنا  ہے سلاطین کے حضورآنکھ کی، درویشوں  کے حضور دل کی اور علماء کے حضور زبان کی پاسبانی ضروری ہے۔ آپ کی ذات میں  تینوں  خصوصیات جمع ہیں  اس لئے میں  سوچ رہا تھا کہ کس خصوصیت کی رعایت کروں ۔ یہ سن کر ہمایوں  ہنس پڑا۔ 
 کہاجاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا تمام واقعات حاضر جوابی او ر برجستگی کے ترجمان ہیں  مگر آج کے حالات میں  جب جان بچانا اور روزی حاصل کرنا بھی ایک مسئلہ  بن چکا ہے اور مجلسی زندگی اور مجلسی   آداب برتنے والے رہے نہیں ، تو ان کو دوہرانے یا یاد رکھنے سے کیا فائدہ؟ جواب میں  یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ زبان والی  برجستگی اور حاضر جوابی ماضی  صرف لطف یا انعام واکرام حاصل کرنے کا نہیں  جاں  بخشی اور حاجت روائی کا بھی ذریعہ رہی ہے۔ تخلیقی ذہن اور گفتگو  میں  برجستگی نے مظلوم عوام کو قتل وغارت گری سے بچایا  ہے ۔
 کتاب میں  ’نشتر عشق‘ کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ لکھا ہے وہ یہ کہ نادر شاہ نے جب دہلی میں  قتل عام شروع کروایا اس وقت وہ طرہ باز خاں کی مسجد میں  بیٹھا ہوا تھا۔ یہی مسجد سنہری مسجد کے نام سے مشہور ہے اورجس وقت کا یہ واقعہ ہے وہ کوتوالی کے چبوترے کے قریب تھی۔ مرنے والوں  کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، ہر طرف لاشیں  اور خون کے فوارے تھے لیکن کسی میں  ہمت نہیں  تھی کہ وہ اس ظالم سے معافی کا خواستگار ہوتا۔ نواب نظام الملک آصف جاہ نے ہمت جٹائی اور نادر شاہ کے سامنے حاضر ہوکر دست بستہ ایک شعر پڑھا جس کا مطلب ہے:  اب تو کوئی نہیں  بچا جس کو آپ ناز وادا کی تلوار سے قتل کریں ، ہاں  ایسا ہوسکتا ہے کہ ماردیئے جانے والوں  کو زندہ کیاجائے اور پھر مارا جائے یعنی قتل کیاجائے۔ نادر شاہ  نے یہ شعر سنا تو عام معافی کا اعلان کردیا۔ 
 تاریخ گواہ ہے کہ حکمراں  اور سپاہی اہل ہوتے تو نادرشاہ حملہ آور ہی نہ ہوتا، حملہ آور ہوگیا تھا تو اس کے خلاف مزاحمت ہوتی مگر ایسا کچھ نہ ہوا تو ایک ادب دوست نے اپنی  سیفِ  زباں  سے دہلی والوں  کی جاں  بخشی کروائی۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کام زہر میں  بجھی ہوئی تلوار نہیں  کرسکتی وہ شیریں  زبانی کرسکتی ہے۔ اس واقعے میں  ان ادیبوں  اور شاعروں  کیلئے بھی درس عبرت ہے جنہیں  قدرت نے جہانبانی کیلئےپیدا کیا ہے مگرانہوں نے دربار داری،  چغل خوری اور بہتان تراشی کو اپنا شعار بنالیا ہے۔
 اکثر لوگ پوچھ بیٹھتے ہیں  کہ کیا ذہن وزبان کے اعجاز سے پیٹ بھرے گا؟ اس سلسلہ میں  ’تاریخ فرشتہ ‘ کے حوالے سے درج ہے کہ ناصری ماورالنہر سے ہندوستان آئے تو خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ  کے دربار میں  حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی۔ خواجہؒ نے کہا  التمش کے دربار میں  قصیدہ پڑھو تمہیں  اچھا انعام ملے گا۔ ناصری دربار میں  پہنچا اور قصیدہ کا مطلع پڑھا،  بادشاہ کسی اورکام میں  مشغول رہا۔ ناصری نے سمجھا انعام نہیں  ملے گا مگر پھر بادشاہ متوجہ ہوا اورناصری کا مطلع دُہرا کر پوچھا قصیدے میں کتنے شعر ہیں ؟ ناصری نے جواب دیا ۵۳۔  بادشاہ (التمش) نے حکم دیدیا کہ ۵۳؍ ہزار چاندی کےسکے ناصری کو دیدیئے جائیں ۔ ناصری یہ رقم لے کر خواجہؒ  کی خدمت میں  حاضر ہوا اور التجا کی کہ آپ پوری نہیں  تو آدھی رقم قبول فرمائیں ۔ خواجہ نے آدھی رقم لی اور فقیروں   اور محتاجوں  میں  تقسیم کردی۔
  ان باتوں  کا بظاہر عیدالفطر سے کوئی تعلق نہیں  ہے مگران سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ درد مندی اور شیریں  سخنی انسان کو مصائب ومسائل سے نجات  دلاتی ہے۔ عیدالفطر بھی یہی پیغام دیتی ہے۔ یہ اس کا تہذیبی پہلو ہے۔ عیدالفطر کا پیغام شیخ محمودالحسنات (امام مسجد اقصیٰ) کے لفظوں  میں  یہ ہے کہ تیس ہزار فلسطینیوں کے شہید ہونے، ۷۰؍ ہزار کے زخمی  ہونے اور ۲۰؍ لاکھ سے زائد کے گھربار سے محروم ہونے کے بعد بھی امت مسلمہ میں  بیداری نہیں  پیدا ہوئی تو کب ہوگی؟ جناب شیخ سے درخواست ہے کہ بیداری تو شروع ہوچکی مگر بے سروسامان عوام میں   اصحاب اقتدار اوران سے راہ ورسم رکھنے والے سوئے ہوئے ہیں  مگر کب تک ؟ جب قیامت بپا ہوگی۔

eid Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK