Inquilab Logo

ہربچہ دُنیا میں فطرت سلیم کیساتھ قدم رکھتا ہے

Updated: February 21, 2020, 2:32 PM IST | Maolana Abdul Majid Daryabadi

اگر آپ خود صاحبِ اولاد یا آپ کے کسی عزیز یا دوست کی اولاد آپ کی نگرانی میں ہے تو آپ نے کبھی ان کی تربیت کے طریقوں پر غور فرمایا ہے؟ آپ نے کبھی اندازہ کیا ہے کہ اس سے کتنی اہم ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں؟ اور یہ کہ آپ ان ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کررہے ہیں؟ ان بچوں کی آئندہ زندگیوں کا بننا یا بگڑنا ، سنورنا یا اجڑنا، بڑی حد تک آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

والدین بچوں کو صحیح یا غلط راہ پر ڈالتے ہیں ۔ تصویر : آئی این این
والدین بچوں کو صحیح یا غلط راہ پر ڈالتے ہیں ۔ تصویر : آئی این این

اگر آپ خود صاحبِ اولاد یا آپ کے کسی عزیز یا دوست کی اولاد آپ کی نگرانی میں ہے تو آپ نے کبھی ان کی تربیت کے طریقوں پر غور فرمایا ہے؟ آپ نے کبھی اندازہ کیا ہے کہ اس سے کتنی اہم ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں؟ اور یہ کہ آپ ان ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کررہے ہیں؟ ان بچوں کی آئندہ زندگیوں کا بننا یا بگڑنا ، سنورنا یا اجڑنا، بڑی حد تک آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر بچہ دنیا میں فطرت ِ سلیم کے ساتھ قدم رکھتا ہے ، اس کو سیدھی راہ سے ہٹا کر غلط راستوں پر ڈالنے والے عموماً اس کے ماں باپ اور پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا دامنِ تربیت اس حیثیت سے داغدار نکلے۔ ذرا سوچ لیجئے کہ کہیں خدانخواستہ آپ کی غفلت و بے توجہی، آپ کی فرد اعمال میں اس جرم کے عنوان کا اضافہ تو نہیں کررہی ہے!
 کیا ’’اچھی تربیت‘‘ انتہائی سختی کے مترادف ہے؟ کیا یہ مقصد یوں پورا ہوسکتا ہے کہ بچوں کے دلوں پر حد سے زیادہ رعب و خوف طاری کردیا جائے اور انہیں گویا بالکل بے دست و پا بنا دیا جائے؟ پھر کیا ضرورت سے زیادہ دلار اور پیار مفید ہوگا؟ کیا اچھی تربیت کی غرض یوں حاصل ہوسکتی ہے کہ اپنے تئیں بالکل بچوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور ان کی ہر ضد کو بلاروک ٹوک پورا کرنا ضروری سمجھ لیا جائے؟ تجربہ اس نتیجہ تک پہنچانے کے لئے بالکل کافی ہے کہ یہ دونوں طریقے افراط و تفریط پر شامل اور راہِ حقیقت سے دور ہیں۔ بچوں کی تربیت سے متعلق سب سے پہلا اور سب سے پچھلا جو فرض ایک مسلمان مربی پر عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں وہ بہترین مسلم بننے کی راہ پر لگائے، کہ بڑے ہوکر ان کا شمار امت ِ اسلامیہ کے قابل فخر فرزندوں میں ہو، وہ خدا کے بہترین بندے ثابت ہوں، ان کے عقیدے درست ہوں، ان کے اعمال صالح ہوں اور دینی و دنیوی ہر قسم کی فلاح و برکت ان کے حصے میں آسکے۔ اب آپ اپنی جگہ پر سوچئے کہ آپ اپنے زیرنگرانی بچوں کی تربیت اسی اصول اور اسی مقصد کے لئے کررہے ہیں؟
 آج ہمارے شرفاء کے بچوں کی عام تربیت کا کیا حال ہے؟ جن بزرگوں کو اپنی شرافت خاندانی پر بڑے دعوے ہیں وہ  مہربانی کرکے یہ دیکھیں کہ اپنے خردوں کو وہ کس ڈھرّے پر لگا رہے ہیں؟ کتنے بچے ایسے ہیں جن کے دلوں میں خدائے اسلام و رسولِ اسلامؐ کی محبت پیدا کی جاتی ہے؟ کتنوں کے ذہن میں اصول اسلام کی وقعت جاگزیں کی جاتی ہے؟ کتنوں کے دماغ قرآن کے معنیٰ و مفہوم سے روشن کئے جاتے ہیں؟ کتنوں کے سامنے انسانِ کاملؐ کی زندگی بطور مکمل نمونے کے پیش کی جاتی ہے؟ کتنوں کے دلوں میں صدیقؓ و فاروقؓ، عثمانؓ و علیؓ اور حسنؓ و حسینؓ کے نقش قدم پر چلنے کی امنگ پیدا کی جاتی ہے؟ کتنوں کے سینوں میں خدمت خلق و ہمدردی کی پرورش کی جاتی ہے؟ کتنوں کو بتایا جاتا ہے کہ غیروں کی غلامی ان کے لئے شرمناک و باعث ِ ننگ ہے؟ کتنوں کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ آزادی ان کا فطری حق  و واجبی ورثہ ہے؟ کتنوں کو خودداری و خود اعتمادی کا درس دیا جاتا ہے؟
 صورت ِ حال عموماً ہر جگہ اس کے برعکس ہی نظر آئے گی۔ خدا کی غلامی  کے بجائے انسانوں کی غلامی کی آواز روز اول سے کانوں میں پڑنے لگی ہے۔ ساری کوششوں کا مرکز پہلے دن سے ’نوکری‘ کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ غیروں کا ٹھہرایا ہوا نصاب، بیگانوں کی بنائی ہوئی کتابیں، اجنبیوں کے بتائے ہوئے قانون و قاعدے ، بس انہیں پر وقت ِ پیدائش سے ہمارے بچوں کی ذہنی و قلبی نشوونما ہونے لگتی ہے ۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا باعث ِ ننگ سمجھا جاتا ہے۔ بازار سے سودا خرید کر لانا شرافت کے منافی قرار پا چکا ہے۔ ایثار و تحمل کو  ہماری عزت گوارا نہیں کرسکتی۔ کاشتکاری اور چھوٹے پیمانہ پر تجارت کرنا، باپ کے نام کو بٹہ لگانا  ہے۔ ایک طرف خدا کے قانون  توڑنے میں یہ جرأت  وبے باکی اور دوسری طرف یہ شور و فریاد ہے کہ مسلمان ہر طرح ذلیل و خوار ہیں، مٹ چکے ہیں اور مٹتے جارہے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK