Inquilab Logo

طلبہ نے امریکہ اور اسرائیل کی دُکھتی رَگ کو پکڑلیا ہے

Updated: April 28, 2024, 6:28 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کا احتجاج اور اس پر امریکہ اور اسرائیل کا جزبز ہونا اور کوئی کارروائی نہ کرپانا اس بات کی دلیل ہے کہ طلبہ اس ہدف تک پہنچ گئے ہیں جہاں تک عالمی لیڈرس نہیں پہنچ پارہے ہیں۔

Demonstrations in favor of Palestine are also taking place in different universities of America. Photo: INN
امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں اسی طرح فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

امریکہ کی متعدد معتبر اور اہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے دن بدن زور پکڑ رہے ہیں۔ طلبہ کا اہم مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیاں اسرائیلی جارحیت کے لئے فنڈنگ فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے اپنے شیئرز ختم کریں اور اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی فوری طور پر بند کریں۔ ان مظاہروں میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے اہم تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں۔ امریکہ کی ۸؍ مشہور اور بڑی یونیورسٹیاں، جو آئی وی لیگ بھی کہلاتی ہیں، اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کے لئے دنیا بھر میں جانی جاتی ہیں لیکن اس وقت ان کی وجۂ شہرت ان اداروں کے احتجاج کرتے طلبہ سے بھرے میدان، فلسطینی پرچم اور پولیس کی پکڑ دھکڑ ہے جس کے دوران اب تک سیکڑوں طلبہ اور اساتذہ جیل بھیجے جا چکے ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کا گراؤنڈ گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج اور جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کولمبیا اور دیگر یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی خیمے لگے ہوئے ہیں جن کی تعداد ۲۰؍ سے زائد بتائی جارہی ہے۔ یہ یاد رہے کہ یہ مطالبات ایسے وقت میں کئے جا رہا ہے جب امریکی حکومت نے حال ہی میں اسرائیل کو ۲۶؍ ارب ڈالرس کی فوری امداد کا بل پاس کیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پولیس کی طلبی اور گرفتاریوں کے بعد فضا شدید کشیدگی کا شکار ہے، جہاں مسلمان اور عرب طلبہ کے علاوہ امریکی شہریوں جن میں یہودی طلبہ کی بھی بڑی تعداد موجود ہے اسرائیلی جارحیت اور اسے امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ 
  امریکی یونیورسٹیوں میں پوری دنیا کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں ہندوستانی، پاکستانی، عرب، افریقی، امریکی، یورپی اور دیگر ممالک کی مختلف نسلوں کے طلبہ شامل ہیں۔ ان کی تقریباً ۸۰؍ فیصد تعداد کھل کر مظاہرے کر رہی ہے اور یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج میں شامل ہو رہی ہے۔ یہ احتجاج کتنا موثر اور طاقتور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ طلبہ کے اس احتجاج پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تک کو ردعمل دینا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہایت سخت الفاظ میں طلبہ کے اس احتجاج کی مذمت کی اور کہا کہ امریکی تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ معروف اور بڑی یونیورسٹیوں پر یہود مخالف ہجوم نے قبضہ کر لیا ہے جو اسرائیل کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے کہا کہ یہ یہود مخالف ہجوم یہودی طلبہ اور اساتذہ پر حملے کررہے ہیں، وہ اسرائیل مردہ باد، یہودی مردہ باد یہاں تک کہ امریکہ مردہ باد کے بھی نعرے لگارہے ہیں۔ نیتن یاہو کو طلبہ کے اس احتجاج پر ردعمل اس لئے بھی ظاہر کرنا پڑا کیوں کہ اس کی وجہ پوری دنیا میں اسرائیلی حکومت کی شیطنت کے بارے میں پیغام پہنچ رہا ہے۔ عالمی رائے عامہ بہت تیزی کے ساتھ فلسطین کے حق میں ہموار ہو رہی ہے اور اسرائیل کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ نیتن یاہو کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی قیادت اور ان کا ملک اس وقت دنیا میں تنہا پڑ گئے ہیں۔ انہیں صرف امریکہ اور مزید ۲؍ سے تین ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پوری دنیا اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سنگین جنگی جرائم کے الزام میں اسرائیلی قیادت کو ہی گرفتار کرلیا جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کانگریس کا انتخابی منشور اور اسے نیا رنگ دینے کی بی جے پی کی کوشش

نیتن یاہو نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ۱۹۳۰ء میں جرمنی کی یونیورسٹیوں میں بھی ایسے ہی یہود مخالف مظاہرہ ہوئے تھے لیکن وہ اس بیان کو دے کر پھنستے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں کیوں کہ ۱۹۳۰ء میں اگر ایسا کچھ ہوا بھی تھا تو اس وقت یہود قوم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور ہٹلر اپنے پروپیگنڈے کیلئے اسے استعمال کررہا تھا جبکہ آج کے دور میں اسرائیل سراسر ظلم پر آمادہ ہے۔ اس کی فوجیں غزہ میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ کل کا مظلوم آج کا ظالم بن گیا ہے لیکن نہ کل اس پر ظلم کئے جانے کا جواز موجود تھا اور نہ آج اس کے ظلم کا کوئی جواز ہے۔ ظلم بہر حال ظلم ہے۔ اسی وجہ سےطلبہ کھل کر احتجاج کررہے ہیں جو اسرائیل کو گراں گزر رہا ہے۔ یہ احتجاج خود امریکی حکومت کی بھی چولیں ہلانے کیلئے کافی ہے کیونکہ دنیا بھر میں کسی بھی تحریک کے کامیاب ہونے اور اس کے منصہ شہودپر پہنچنےمیں نوجوانوں اور خاص طور پر طلبہ کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ دنیاکی تاریخ اٹھاکر دیکھ لی جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ طلبہ کی تحریکوں نے بڑی بڑی اور ظالم حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کا تشویش میں مبتلا ہو نا اور امریکی ارباب اقتدار کا فکر مند ہونا بالکل درست ہے۔ 
امریکی یونیورسٹیاں ویسے بھی دنیا بھر میں اپنے تعلیمی نظام، اظہار رائے کی آزادی اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے معروف ہیں۔ اسرائیل کے خلاف یہاں جو احتجاج ہو رہا ہے وہ اس لئے بھی روکا نہیں جارہا ہے کیوں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہو گا۔ یہاں طلبہ کی گرفتاریاں تو ہو رہی ہیں لیکن اس تحریک کو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اسے ہم بائیڈن حکومت کی انجانے میں ہی سہی لیکن فلسطین کےحق میں کی گئی ایک کوشش قرار دے سکتے ہیں کیوں کہ یونیورسٹیوں کا احتجاج اس وقت پوری دنیا میں موضوع بحث بن رہا ہے۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ جو امریکہ اسرائیل کو ہر جائز و ناجائز حمایت فراہم کررہا ہے، اسے ہر ماہ دو ماہ میں ہتھیاروں کی کھیپ پہنچارہا ہے، اسی امریکہ میں پوری دنیا کے طلبہ زبردست احتجاج کررہے ہیں اور امریکی حکومت چاہ کر بھی انہیں روک نہیں پا رہی ہے۔ 
 پوری دنیا کےمختلف لیڈران اسرائیل سے اپیلیں کرچکے ہیں کہ وہ حملے بند کرے اور جنگ بندی کرتے ہوئے امدادی قافلے غزہ میں اور دیگر علاقوں میں لے جانے کی اجازت دے لیکن اب تک اسرائیل ہر اپیل اور ہر مطالبہ کو پائے حقارت سے ٹھکراتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن کسی نے بھی اتنی شدت کے ساتھ امریکہ سے مطالبہ نہیں کیا جتنی شدت کے ساتھ طلبہ امریکی حکومت سے کررہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ طلبہ نے اسرائیل اور امریکہ دونوں کی دکھتی رگ کو پکڑ لیا ہے۔ اسی لئے امریکہ اور اسرائیل دونوں جزبز ہیں، تلملارہے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کرپارہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK