Inquilab Logo

’’اب اقتدارکے حصول کیلئے نمائندوں کو انتھک محنت کرنی پڑتی ہے یا کم از کم ایسا دکھانا پڑتا ہے‘‘

Updated: April 28, 2024, 6:15 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

مشہور صحافی ’پرنئے رائے‘ اور’دوراب آر سپاری والا‘ ہندوستانی انتخابات سے متعلق اپنی مشترکہ کتاب ’دی ورڈِکٹ: ڈی کوڈنگ انڈیاز الیکشنز‘ میں کہتے ہیں کہ اب پہلے جیسی بات نہیں رہی، کتاب میں کئی اہم سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

Book `The Verdict: Decoding India`s Elections`. Photo: INN
کتاب ’دی ورڈِکٹ: ڈی کوڈنگ انڈیاز الیکشنز‘ ۔ تصویر : آئی این این

پرنئے رائےکو کون نہیں جانتا ؟ انھوں ہندوستانی نیوز براڈ کاسٹنگ کو معیار اور مقبولیت کی غیرمعمولی رفعتوں تک پہنچایا۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو پرنئے رائے اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ ان کا ۸۰ء کی دہائی سے ہندوستانی انتخابات سے گہرا تعلق ہے۔ اوپینیئن اور اِگزٹ پول کی بنیاد پر انتخابات کے دوران رائے دہندگان کے رجحان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کی صلاحیت بدرجۂ اتم رکھتے ہیں۔ اس کام کو علم کی ایک شاخ Psephology (سیفولوجی) کے طور پر ہندوستان میں وسیع پیمانے پر متعارف کروانے میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ انھوں نے دوراب آر سپاری والا کے ساتھ مل کر ایک کتاب ’دی ورڈِکٹ: ڈی کوڈنگ انڈیاز الیکشنز‘ ( فیصلہ: ہندوستان کے انتخابات کی رمز شناسی) اُس وقت پیش کی جب ۲۰۱۹ کے عام انتخابات سر پر تھے۔ دوراب، مارکیٹنگ ریسرچ اور علم اعداد وشمار Statistical Sciences کے ماہر ہیں۔ ہم دہائیوں سے ان کو ٹی وی پر الیکشن سے متعلق نشریات میں پرنئے رائے کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں۔ 
 ہندوستان میں انتخابات جیتنے یا ہارنے والے اہم عوامل کیا ہیں ؟کون سی خصوصیات ہندوستانی جمہوریت کو نشان زد اور نمایاں کرتی ہیں اور کونسی نہیں کرتیں ؟ کیا یہ مخالفت اقتدار کے خاتمے کا دور ہے؟ کیا رائے شماری اور اگزٹ پول پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ ووٹنگ میں خوف کا عنصر کتنا رائج ہوتا ہے؟ ہندوستانی خواتین کے ووٹ کتنے اہم ہوتے ہیں ؟ کیا امیدواروں کا انتخاب، نتائج کو متاثر کرتا ہے؟ انتخابات زیادہ جمہوری ہوتے جا رہے ہیں یا کم جمہوری؟ کیا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن ہے؟ کیا ہندوستانی انتخابات کے نظام کو ایک طرح کا ’جگاڑ‘ کہا جا سکتا ہے؟ ان سب اور دیگر کئی سوالوں کا اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کیا جے این یو کےسابق طلبہ لیڈر اِس بار لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرکےتاریخ رقم کر پائیں گے؟

 آزاد ہندوستان کا پہلا الیکشن ۱۹۵۲ ءمیں ہوا تھا۔ اس کے بعد ۲۰۱۹ء کے انتخابات سے قبل تک کے تمام انتخابات کا اس کتاب میں مختلف اور متعدد زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنفین رجحانات کی تین ادوار میں درجہ بندی کرتے ہیں۔ پہلے ۲۵؍ سال یعنی ۱۹۷۷ء تک کا دور’موافقتِ اقتدار‘ یعنی Pro-Incumbency کا دور تھا۔ جنگ آزادی کی قیادت اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کو لے کر عوام کے قلوب میں کانگریس کیلئے بڑا نرم گوشہ رہا۔ دوسرا دور یعنی ۱۹۷۷ء تا ۲۰۰۲ء حکومت مخالف رجحان یا ’مخالفت اقتدار‘ Anti-Incumbency کا دور رہا۔ اس دور کے انتخابات میں عوام اقتدار کو اُلٹ پلٹ کرتے رہے۔ تیسرے دور یعنی۲۰۰۲ء تا ۲۰۱۹ء کے دوران ووٹر کی ہوشیاری میں اضافہ ہوا۔ حیرت انگیز طور پر تیسرے دور میں ہونے والے ۶۴؍ ریاستی انتخابات میں فتح اور شکست دِلانے کا فیصد تقریباً برار برابر رہا لہٰذا اس دور کو’موافقتِ اقتدار‘ کہا جاسکتا ہے نہ ہی’مخالفت اقتدار‘۔ یہ عوامی نمائندوں کے آرام کے خاتمے زمانہ تھا۔ اب اقتدارکے حصول کیلئے نمائندوں کو انتھک محنت کرنی پڑتی ہے یا کم از کم ایسا دکھانا پڑتا ہے۔ اس تیسرے مرحلے میں ملک میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوئی۔ پہلے دور میں میڈیا نسبتاً آزاد اور ذمہ دار ہوا کرتا تھا۔ 
 مصنفین کہتے ہیں کہ الیکشن کا موجودہ طریقہ حقیقی معنی میں لوگوں کی نمائندگی کا مسئلہ حل نہیں کرتا۔ گہری تحقیق اور پختہ اعداد وشمار کی بنیاد پر انھوں نے مسلمانوں کی کم نمائندگی کے مسئلے کو بھرپور طریقے پر پیش کیا ہے۔ ہمیشہ سے لوک سبھا میں مسلم نمائندگی ۵؍ فیصد کے آس پاس ہی رہی ہے۔ ٹکٹ دینے کے معاملے میں بھی پارٹیاں عدل نہیں کرتیں۔ کم نمائندگی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسلمان ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لوک سبھا کے صرف ۲۹؍ حلقوں میں مسلم آبادی ۴۰؍ فیصد سے زائد ہے۔ لوک سبھا کے ۸۲؍ فیصد حلقوں میں مسلم ووٹ ۲۰؍ فیصد سے کم ہیں۔ 
 ایک اور دلچسپ بات کتاب میں بیان کی گئی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ ایک حلقے میں کئی مسلم امیدواروں کی موجودگی سے وہاں مسلم نمائندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ البتہ ۲۰۱۴ء اور اس سے پہلے چار لوک سبھا انتخابات کا ڈیٹا یہ انکشاف کرتا ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے۔ حقیقتاً ایسے حلقے جہاں زیادہ مسلم امیدوار لڑتے ہیں وہیں سے ایک مسلم ایم پی کی فتح کا امکان زیادہ ہوتا ہے ! ایسا کیوں ہے ؟ اسلئے کہ زیادہ مسلم امیدوار پرچے انہیں حلقوں میں داخل کرتے ہیں جہاں مسلم ووٹروں کا فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ 
پارٹیوں کی بنیاد پر تجزیہ کرنے پرمعلوم ہوتا ہے کہ بالترتیب آر جے ڈی، سماجوادی پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی پارٹیاں مسلمانوں کو زیادہ ٹکٹ دیتی ہیں۔ کانگریس ٹکٹ بٹوارے میں بی جے پی سے کچھ ہی بہتر یعنی نیچے سے دوسری ہے لیکن یہ بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کی کسی مسلم کو کانگریس کا ٹکٹ ملنے پر اس کے جیتنے کا امکان بڑھ جاتا ہے یعنی کانگریس کے مسلم امیدواروں کا اسٹرائک ریٹ زیادہ ہوتا ہے جبکہ بی ایس پی کے مسلم نمائندوں کا اسٹرائک ریٹ سب سے کم ہوتا ہے۔ 
 ریاستی اسمبلیوں میں بھی مسلم نمائندگی کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ مسلم قیادت کو ان اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی اپنی قوم کیلئے حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔ جذباتی تقریروں سے، کبھی کبھار وقتی ٹیکٹِکل فائدہ تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن طویل اور عام پالیسی سازی اور اسٹریٹجک پلاننگ کی دنیا میں گرما گرم تقریروں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ شاید وہ مضرت رساں ہی ثابت ہوتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ووٹرس کے مختلف گروپ تیار کئے جاتے ہیں اور پھر اُن میں منفی یا مثبت جذبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے

خواتین کی نمائندگی ہر الیکشن کے ساتھ بڑھ رہی ہے لیکن اب بھی نصف آبادی ہونے کے لحاظ سے ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین ایک علاحد ووٹ بینک ہیں۔ ملک میں ۱۸؍ تا ۴۰ ؍ کی عمر کے لوگوں کی تعداد ۵۹؍ فیصد تھی لیکن ۲۰۱۴ء تک کے انتخابات میں ۲۵؍ تا ۴۰ ؍ سال کی عمر کے لوگوں کا تناسب صرف ۱۵؍ فیصد تھا.... یعنی نوجوان بھی قلت نمائندگی کا شکار ہیں۔ مذکورہ دور کے اعداد پر مبنی رجحانات کے مطابق این ڈی اے کو عورتوں کی نسبت مردوں کے زیادہ حاصل ہوتے ہیں جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں، نوجوانوں کے مقابلے بڑی عمر کے رائے دہندگان میں مقبول ہیں۔ 
 کتاب میں بحث کی گئی ہے کہ اوپینیئن پول اور اگزٹ پول پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ کون سے پول زیادہ درست اور کون سے بالکل غلط نتائج پیش کرتے ہیں ؟ ووٹنگ کے فیصد کا نشستوں کی تعداد پر کیا اثر پڑتا ہے؟ کسی حلقے میں زیادہ یا کم ووٹنگ ہونےکی صورت میں کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس پارٹی کو فائدہ ہوگا کس کا نقصان ؟ ووٹر لسٹ سے ناموں کے غائب ہونے بالخصوص خواتین کی رائے دہندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس کی وجہ سے لاکھوں خواتین اور مہاجر مزدور حق رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔ اسمبلی انتخاب کے نتائج زیادہ تر آنے والے لوک سبھا کے نتائج کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں جبکہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج آنے والے اسمبلی انتخاب کے نتائج کی عموماً صحیح عکاسی نہیں کرتے۔ 
 کتاب میں مصنفین نے ایک طرح سے ای وی ایم کی تصدیق کردی ہے اور اس کے فوائد بیان کئے ہیں۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد اس موضوع پر نئی تکنیکی معلومات اور کئی ماہرین کی آراء سامنے آئی ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ مصنفین اب اس معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وکلاء کا ایک طبقہ مہم چلا رہا ہے لیکن خود سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اس معاملے پر کوئی بہت شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ کچھ تنظیموں نے مشین کے ذریعہ شمار شدہ ووٹوں کی کاغذی پرچیوں کے ساتھ صد فیصد تصدیق کیلئے سپریم کورٹ میں فریاد کر رکھی تھی جسے گزشتہ دنوں عدالت نے مسترد کردیا ہے۔ راقم یہا ں مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کے تکنیکی امکان یا عدم امکان پر کوئی نقطۂ نظر پیش نہیں کررہا۔ یہاں معاملہ عوامی کی نظرمیں سسٹم کے قابل اعتبار ہونے کا بھی ہے۔ کتاب ہندوستانی انتخابات کی حِرکیات اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کی راہ میں ایک اہم اور ممتاز کاوش تسلیم کی گئی ہے۔ اس قدر اعداد وشمار اور ان کو مختلف زاویوں سے پرکھنے کے اتنے پیمانوں کے سبب کتاب میں پیش کردہ منظر نامہ قابل یقین ہو جاتا ہے۔ کتاب شماریاتی اعداد کی بھول بھلیوں میں قاری کو گُم ہونے نہیں دیتی بلکہ ہاتھ پکڑ کر سیر کرواتی ہے۔ اشاعت کے ۵؍ برسوں بعد اب اس بات کی ضرورت ہے کہ نئے ڈیٹا کے ساتھ اس کا جدید ایڈیشن شائع ہو لیکن اپنی موجودہ شکل میں بھی یہ قیمتی معلومات کا ایک ذخیرہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK