مضمون نگار نے ۲۶، ۲۵؍ جون ۱۹۷۵ء کی درمیانی رات میں نافذ کی گئی ایمرجنسی اور موجودہ حکومت کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: July 04, 2025, 12:30 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai
مضمون نگار نے ۲۶، ۲۵؍ جون ۱۹۷۵ء کی درمیانی رات میں نافذ کی گئی ایمرجنسی اور موجودہ حکومت کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں ایمرجنسی نافذ کئے جانے کا پس منظر کیا تھا، ایمرجنسی کے دوران کیا زیادتیاں ہوئیں، ایمرجنسی کے خلاف کس طرح احتجاج ہوا اور اس احتجاج کا کیا نتیجہ سامنے آیا؟ یہ سارے سوالات اور جوابات میرے ذہن میں ہیں۔ میں ایمرجنسی نافذ کئے جانے کا مخالف تھا اور ہوں مگر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ چندر شیکھر نے حکمراں جماعت میں رہ کر ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی اور جیل گئے تھے۔ جگجیون رام، نندنی ست پتھی اور بہوگنا نے حکومت چھوڑ کر حزب اختلاف کا ساتھ دیا تھا مگر آر ایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس اور شیوسینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے اور صرف الیکشن کے موقع پر سرگرم ہونے والے کئی مولانا صاحبان نے بھی ایمرجنسی کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی۔ آج ایمرجنسی کے مخالفین ایک صف میں ہیں نہ ایمرجنسی کے نفاذ پر چپ رہنے والے، اس لئے ایمرجنسی کے نفاذ کا دفاع کئے بغیر کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے کے اس بیان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ، ’’موجودہ حالات میں ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔‘‘ کھرگے کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ جن حالات میں ایمرجنسی نافذ ہوئی ان حالات میں اور اس وقت کانگریس یا اندرا گاندھی کی پارٹی میں تو ایسے لوگ تھے جو اپنی بات کہتے اور پھر قیمت بھی چکاتے تھے مگر آج کی حکمراں جماعت بی جے پی میں ایسے لوگ نہیں ہیں یا حاشیے پر رکھ دیئے گئے ہیں جو صحیح موقع پر، صحیح لوگوں کے منہ پر صحیح بات کہہ سکتے ہوں۔ یشونت سنہا اور ریتا بہوگنا سے کام نکالا جا چکا ہے۔ جگدمبیکا پال کو اپنے بنائے ہوئے وقف قانون کا دفاع کرنے کے لئے پارٹی میں رہنے دیا گیا ہے۔
جگدمبیکا پال کا نام ایک پورے طبقے کی یا جماعت کی علامت سمجھئے تو ملک کے چیف جسٹس گوَئی صاحب، رام داس اٹھاولے، چراغ پاسوان اور رام داس کووند سے پوچھا جاسکتا ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر نے دستور کا جو مسودہ لکھا اس کی تمہید میں ’سوشلزم‘ اور ’سیکولرازم‘ شامل رہا ہو یا نہ رہا ہو، اور یہ دونوں لفظ چاہے جب دستور ہند میں جوڑے گئے ہوں مگر یہ دستور کی روح بلکہ ہندوستانیت کی روح سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟ دستور ہند میں بہت کچھ شامل اور حذف کئے جا چکے ہیں مگر اس کی روح زندہ ہے اس لئے ان دونوں لفظوں کو بنیاد بنا کر نئی بحث چھیڑنا میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی لیڈران بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے مذہب یا عقیدہ پر عمل کرنے کا حق ہے اور یہ ملک سیکولر اس لئے ہے کہ یہاں ۸۰؍ فیصد سے زائد ہندو رہتے ہیں۔ جب حج سبسڈی ختم کی گئی یا عائلی قانون ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے تو اسی بنیاد پر کہ یہاں سب کو انسانی یا برابری کے حقوق حاصل ہیں، سوشلزم کا اس کے علاوہ کیا مطلب ہوتا ہے؟ بات تلخ ہے لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ اس دور میں انسان انسانیت کے شرف سے ہی نہیں، لفظ اپنے حقیقی مفہوم اور تقدس سے بھی محروم کئے جا رہے ہیں۔ روس میں کمیونزم کی روح تو مر ہی چکی ہے پاکستان میں نظام مصطفےٰ اور ہندوستان میں ’ہندوتوا‘ کی بات بھی محض اس لئے کی جا رہی ہے کہ ایسے بے ایمانوں کو بچایا جاسکے جو اپنے حاشیہ بردار یا شریک کار ہوں۔ آج بھی ہندوستان میں ایسی کئی بحثیں چل رہی ہیں جن کی جگہ حقیقی مسائل کو حل اور خطرات کو دور کیا جانا چاہئے تھا۔ سائبر کرائم بڑھ رہے ہیں پیدا ہونے والے بچے اور فوت ہونے والے والدین کے سرٹیفکیٹ رشوت کے بغیر نہیں حاصل ہوتے۔ مذہب، ادب، تہذیب.... کی ایسی ترجمانی کی جا رہی ہے جس سے ارباب اقتدار کی پیشانی پر بل نہ پڑے، عدالت کے دیئے ہوئے ایسے کتنے فیصلے ہیں جن پر عمل نہیں ہوا ہے مگر کتنے معاملات میں ’بلڈوزر‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ایمرجنسی نہیں ہے! جس ایمرجنسی کی آج مخالفت کی جا رہی ہے اور جس کی مخالفت ہم جیسوں نے بھی کی تھی اس کے دوران ریلیں صحیح وقت پر چل رہی تھیں۔ حکومت کے کارکن سدھر رہے تھے اسی لئے شمالی ہند میں اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا تھا مگر جنوبی ہندوستان میں وہی پارٹی بڑی تعداد میں اپنے امیدواروں کو کامیاب بنانے میں بااثر ثابت ہوئی تھی جس کی قیادت یا لیڈر شپ نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ میرے حافظے میں کانگریس کا ٹوٹنا بھی ہے اور جنتا پارٹی کا بکھرنا بھی۔ کانگریس کے بکھرنے کے بعد مہاراشٹر میں شرد پوار اور بنگال میں ممتابنرجی نے کانگریس کے ایک دھڑے کو یا کم از کم نام کو زندہ رکھا مگر جنتا پارٹی کا نام تو سبرامنیم کی ذات میں سمٹنے کے بعد ختم ہوگیا۔ جنتا دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنم بھی جنتا پارٹی سے ہی ہوا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے مگر اس کا زندہ اور جمہوری پارٹی ہونا مشکوک ہے جبکہ سماجوادی پارٹی، راشٹریہ اور یونائیٹڈ جنتا دل، بیجو جنتا دل، جنتا دل (سیکولر) کی الگ الگ کارکردگی بھی یہ بتانے میں کامیاب ہے کہ بکاؤ مال کو اپنے اندر سموئے ہونے کے باوجود ایک ہونے کی صورت میں یہ پارٹی بڑی جاندار ہوسکتی تھی لیکن اس کی یہی خوبی اس کی سب سے بڑی خامی بن گئی ہے اور اسے متحد ہوکر ایک پارٹی کی صورت میں ابھرنے نہیں دیتی۔ آر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری (سرکاریہ واہ) کا بیان اور مرکزی وزیر چوہان کی تائید بھی اسی ضمن میں ہے اور غلط فہمیوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔
جمہوریت کا مقصد اکثریت کو من مانی کا موقع عنایت کرنا نہیں، ہر جمہوری ادارے کو جمہوری اور اصولی طریقے سے کام کرنے دینا ہے۔ ایمرجنسی کے دوران دستوری اداروں نے اقتدار کے سامنے خود سپردگی کر دی تھی۔ غیر معمولی جلد بازی میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور اسمبلیوں میں دستور میں ترمیم کا قانون یا مسودہ قانون پاس کرکے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے پہلے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگ موہن لال سنہا کو ترقی کا جھانسہ دے کر فیصلہ نہ صادر کرنے یا فیصلہ بدلنے کا دباؤ ڈالا گیا تھا۔ کیا آج ویسا ہی نہیں کیا جا رہا ہے جیسا ایمرجنسی نافذ کئے جانے سے پہلے یا دوران حکومت کر رہی تھی؟ اس سوال کا جواب ان لوگوں نے مزید مشکل بنا دیا ہے جنہوں نے اندرا دشمنی میں یا اقتدار کے حصول کیلئے آج کے حالات سے آنکھ بند کر لی ہے یا جنہیں زندگی میں تو اندرا گاندھی اچھی لگتی تھیں مگر بعد میں انہوں نے ان کو برا کہنا شروع کر دیا تھا۔ ایسے بہت سے سوالات اور حقائق ہیں جو یہی کہنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایمرجنسی بھی ناقابل برداشت تھی جو اندرا گاندھی نے ۲۶، ۲۵؍ جون ۱۹۷۵ء کی درمیانی رات میں نافذ کی تھی اور وہ ایمرجنسی بھی ناقابل برداشت ہے جس کو ایمرجنسی کا نام تو نہیں دیا گیا ہے مگر جس میں اس سے زیادہ دم گھٹ رہا ہے جتنا پہلی ایمرجنسی میں گھٹ رہا تھا۔n