آج بھارت جوڑو یاترا کی پہلی سالگرہ ہے۔ گزشتہ سال آج ہی کے دن کانگریس کے سابق صدر، وائیناڈ کے رُکن پارلیمان اور کانگریس کے جواں سال لیڈرر اہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک کا پیدل مارچ شروع کیا تھا
EPAPER
Updated: September 07, 2023, 9:50 AM IST | Mumbai
آج بھارت جوڑو یاترا کی پہلی سالگرہ ہے۔ گزشتہ سال آج ہی کے دن کانگریس کے سابق صدر، وائیناڈ کے رُکن پارلیمان اور کانگریس کے جواں سال لیڈرر اہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک کا پیدل مارچ شروع کیا تھا
آج بھارت جوڑو یاترا کی پہلی سالگرہ ہے۔ گزشتہ سال آج ہی کے دن کانگریس کے سابق صدر، وائیناڈ کے رُکن پارلیمان اور کانگریس کے جواں سال لیڈرر اہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک کا پیدل مارچ شروع کیا تھا۔ ہرچند کہ ہمارے ملک میں یاترائیں ہوتی رہی ہیں مگر اتنی طویل یاترا کی تاریخ پہلی مرتبہ راہل نے مرتب کی۔ تب سے لے کر اب تک صرف ایک سال میں ملک کے سیاسی حالات میں اتنی تبدیلی آئی ہے کہ پچھلے نو سال میں اس کی جھلک دیکھنے کو ملی تھی نہ ہی کسی کو یہ احساس تھا کہ تبدیلی کی ایسی آندھی آئیگی جو اقتدار کی چولیں ہلا دے گی۔ یاترا کی وجہ سے کانگریس کے کیڈر میں جوش و خروش پیدا ہوا،راہل کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا، ’’نادان شہزادہ‘‘ کی شبیہ، جو مخالفین نے بنادی تھی، کنیا کماری سے کشمیر کی جانب بڑھنے والے ہر قدم کے ساتھ بدلنے لگی اور راہل ایک ایسے پُرعزم سیاستداں کے طور پر اُبھرنے لگے جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہے اور نفرت کی تاریکی میں محبت کا چراغ لے کر ملک کے گوشے گوشے کو روشن کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ نفرت کی سیاست سے عوام پریشان تھے اس لئے یاترا پہلے دن سے کامیابی کی مثال قائم کرنے لگی۔ اس کی وجہ سے ملک کے منجمد اور یکطرفہ سیاسی حالات میں بھی تیزی سے تبدیلی آئی جو اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پر منتج ہوئی جس کے تین اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔’’انڈیا‘‘ کی تشکیل اور نہایت خود اعتمادی کے ساتھ آئندہ انتخابات کیلئے اس کا کمربستہ ہونا راہل کی بھارت جوڑو یاترا ہی کا مرہون منت ہے اس کی تائید ہر خاص و عام کرے گا۔
یاتر ا کے فائدوں کی فہرست طویل ہے۔ ان کا احاطہ مشکل ہے البتہ چند بڑے فائدوں میں یہ شامل ہے کہ ’’بھارت جوڑو‘‘ کی وجہ سے عوام کا اعتماد بحال ہوا، اُن میں اُمید جاگی اور حوصلہ پیدا ہوا۔ اُنہیں محسوس ہوا کہ نفرت اور تقسیم کے خلاف صف آراء نہیںہوئے تو یہ خطرناک سیاست ملک کی سالمیت کیلئے سنگین خطرات پیدا کردے گی۔ ملک کے عوام نفرت کی اس سیاست کو سمجھ نہ رہے ہوتے تو راہل کا فقرہ کہ ’’نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان کھول رہا ہوں‘‘ اتنا مقبول اور زبان زد خاص و عام نہ ہوتا۔ اس یاترا نے سیاسی و انتخابی بساط پلٹ دی۔ ہماچل پردیش اور کرناٹک کی کامیابی کے اور بھی اسباب ہیں مگر ایک سبب بھارت جوڑو یاترا کا خوشگوار اثر بھی ہے جس کی وجہ سے بجرنگ بلی تک پہنچ جانے والی ہائی وولٹیج انتخابی مہم بے اثر ہوگئی اور کنول کے بدلے محبت کا پھول کھلا۔ یاد رہنا چاہئے کہ یاترا نے سب سے زیادہ دِن (۲۱) جس ریاست میں گزارے وہ کرناٹک ہی تھی۔
یاترا نے عوام کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا تانہ بانہ منتشر کرنے کے منصوبوں کے خلاف عوام کا مل جل کر رہنا اور ملک کی ترقی میں ایک دوسرے کا سہارا بننا اسلئے ضروری ہے کہ ترقی اور تحفظ کی ضمانت اسی میں ہے۔ دُنیا نفرت سے نہیں جیتی جاتی، اس لئے و ہ چاہے وشو گرو بننے کا خواب ہو یا پانچ ٹریلین ڈالر کی اکنامی میں تبدیل ہونے کا عزم یا ایسے منصوبوں کے ذریعہ ملک کے عوام کی مجموعی فلاح کا ہدف، کوئی بھی جدوجہد محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ نفرت کا بلڈوزر انتقام اور انہدام کے علاوہ کچھ جانتا، اس کے ذریعہ ملک کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں۔ بھارت جوڑو یاترا نے اسی پیغام کو عام کیا جو دلوں میں اُترتا چلا گیا۔ n