اخلاقی عظمت اور دل کے کشادہ ہونے کی علامت ہے۔
EPAPER
Updated: August 01, 2025, 5:51 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اخلاقی عظمت اور دل کے کشادہ ہونے کی علامت ہے۔
بلاشبہ انسان خطاؤں اور لغزشوں سے خالی نہیں، اس کی فطرت میں کمزوریاں اور کوتاہیاں شامل ہیں۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ربِ رحیم و کریم نے اپنے بندوں کے لئے توبہ و استغفار کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔ جب کوئی گناہگار بندہ اخلاص کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے، ندامت کے آنسو بہاتا ہے اور سچے دل سے معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت سے اُسے معاف فرما دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں بارہا اللہ تعالیٰ نے اپنی مغفرت کو وسیع اور اپنے بندوں سے قریب بتایا ہے۔
اسی طرح اگر انسان اپنے کسی بھائی پر کسی بھی اعتبار سےظلم یا زیادتی کرے اور پھر شرمندگی کے ساتھ اُس سے معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس رویے کو بھی بہت پسند فرماتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص کسی کی معافی کو قبول کر لیتا ہے، دراصل وہ اللہ کی صفتِ عفو و درگزر کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے، اور یہی صفت انسان کو اللہ کے مقربین میں شامل کر دیتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ معاشرتی ہم آہنگی، باہمی محبت، اور دینی اخوت کی بنیاد اسی درگزر اور معافی سے مضبوط ہوتی ہے۔ آئیے! معاف کردینے کے حوالے سے قرآن و حدیث کی ہدایات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تسلی دیتے ہوئے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں :’’آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقیناً بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (سورہ الزمر:۵۳)
یہ آیت نہ صرف اللہ کی بے پایاں رحمت کا اعلان ہے، بلکہ گناہگار بندوں کے لئے امید کا دروازہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں بار بار اللہ کی صفاتِ مغفرت کا ذکر آیا ہے:’’اور اللہ بہت معاف کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ (سورہ البقرہ:۱۷۳) یہی صفت ِ مغفرت اللہ اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ جو بندے دوسرے بندوں کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں، اللہ اُن سے بہت خوش ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور چاہئے کہ وہ درگزر کریں اور معاف کر دیں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟‘‘ (سورہ النور:۲۲)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث میں دوسروں کو معاف کرنے اور رحم کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ ‘‘(جامع ترمذی) ایک اور حدیث میں ہے: ’’جو رحم نہیں کرتا، اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
افسوس کا مقام ہے کہ قرآن و سنت میں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی واضح اور روشن تعلیمات موجود ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معافی مانگنے والے کے خلوص اور ندامت کو سمجھنے کے بجائے اُسے حقیر سمجھتے ہیں، اُس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور معافی کو قبول کرنے کے بجائے اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ معاف کرنا کمزوری نہیں بلکہ اخلاقی عظمت اور دل کے کشادہ ہونے کی علامت ہے۔ جو شخص کسی کے اعترافِ غلطی کے باوجود اسے ذلیل کرتا ہے، وہ درحقیقت اپنی انسانیت کو مجروح کرتا ہے اور اللہ کی رحمت سے خود کو دور کر لیتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف دینی تعلیمات سے غافل ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں نفرت، دوری اور بغض کے بیج بوتے ہیں۔ اسلئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دلوں کو وسیع کریں اور معافی مانگنے والے کو عزت دیں، تاکہ اللہ کی مغفرت کے بھی ہم مستحق بن سکیں۔
موضوع کی مناسبت سے اس پہلو پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ انسانیت کے لئے کامل نمونہ ہےاور آپؐ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو اعلیٰ اخلاق اور عفو و درگزر کا ترجمان ہے۔ مکہ کی گلیوں میں ستایا جانا، طائف میں لہو لہان کیا جانا، اُحد کے میدان میں شدید اذیتیں پہنچنا،یہ سب ایسے واقعات تھے جن پر انتقام لینا انسانی جبلّت کے مطابق ہوتا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر درگزر کو ترجیح دی۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ کے قدموں تلے وہ دشمن جھکے کھڑے تھے جنہوں نے برسوں آپؐ کو اور آپؐ کے صحابہؓ کو اذیتیں دی تھیں، آپؐ نے صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا: ’’جاؤ! تم سب آزاد ہو!‘‘ یہ وہ عملی درس ہے جو انسانیت کو یہ سکھاتا ہے کہ عظمت انتقام میں نہیں، بلکہ معاف کر دینے میں ہے۔
یاد رکھیں ! عفو و درگزر کوئی کمزوری نہیں بلکہ یہ ایک اعلیٰ فکری و روحانی بلندی ہے۔ معاف کرنا صرف دوسروں کو راحت دینا نہیں، بلکہ اپنے دل کو کینہ، غصہ اور نفرت جیسے زہریلے جذبات سے پاک کرنا ہے۔ جو شخص دوسروں کی خطاؤں کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہ اپنے نفس پر قابو پانے والا ہوتا ہے اور یہی حقیقی بہادری ہے۔ ہمیں بطور اُمتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو نہ صرف پڑھنا بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہئے، خاص طور پر معاف کرنے کی صفت کو اپنانا کیونکہ یہی رویہ ہمارے دلوں میں سکون، ہمارے رشتوں میں نرمی، اور ہمارے معاشرے میں امن کا باعث بن سکتا ہے۔