Inquilab Logo Happiest Places to Work

خوش تدبیری اور معاملہ فہمی کا نام صبر ہے

Updated: August 02, 2025, 4:33 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

صرف شخصی مصیبت کو سہنے کا نام صبر نہیں، بلکہ اجتماعی اور قومی زندگی میں ضبط و تحمل کا راستہ اختیار کر کے دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کا نام بھی صبر ہے۔

Muslims have been urged to exercise patience, forbearance and wisdom at all times. Photo: INN
مسلمانوں کو ہر موقع پر صبر و تحمل اور حکمت سے کام لینے کی تاکید کی گئی ہے۔ تصویر: آئی این این

انسان کا جسم کتنی ہی بیماریوں کا مخزن ہے۔ یہ بیماریاں ہی ہیں جو انسان کو اس کےعجز و نا طاقتی کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور بہت سے غفلت شعار قلوب واذہان کیلئے یہی خدا کو یاد کرنے کا سامان ہیں۔ ان ہی بیماریوں میں ایک مشہور اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے آج کل کثیر الوقوع بیماری وہ ہے جسے ’’الرجی‘‘ اور ’’ حسامیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اطباء کا خیال ہے کہ جسم میں بعض جراثیم قوت ِبرداشت کھو دیتے ہیں، جیسے ہی کوئی بیرونی اور ناموافق چیز جسم میں داخل ہو، یہ فوج حرکت میں آجاتی ہے اور غیر معمولی رد عمل ظاہر کرتی ہے، پھر تو مریض کا حال نہ پوچھئے، چھینکوں کا ایک طوفانی سلسلہ اور کئی کئی دن اور ہفتے کھانس کھانس کر مریض بے حال ہو جاتا ہے۔ یہ بڑا تکلیف دہ عارضہ اور ہلکان کرنے والی بیماری ہے بلکہ بہت کی بیماریوں کا سر چشمہ ہے۔ 
 جیسے جسمانی سطح پر الرجی انسان کو کمزور کر دیتی ہے اور اس کی معتدل کیفیت کو زیر و زبر کر کے رکھ دیتی ہے، اس طرح قومیں بھی الرجی سے دو چار ہوتی ہیں، بعض قوموں اور گروہوں میں برداشت کی قوت ختم ہو جاتی ہے اور رد عمل کی کیفیت بڑھ جاتی ہے، وہ بات بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں، مخالفین کا ایک بیان مہینوں ان کو الجھا کر رکھتا ہے اور بے برداشت ہونے کی وجہ سے ایسی جذباتیت کا ان سے مظاہرہ ہوتا ہےجس کا نقصان خود ان کو پہنچتا ہے۔ ایسی قومیں دشمنوں اور بدخواہوں کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں، ہمیشہ رد عمل میں الجھی رہتی ہیں، دوسری قومیں تعلیمی، معاشی اور دوسرے پہلوؤں سے آگے بڑھتی رہتی ہیں، اور یہ سنہرا وقت مشتعل مزاج قومیں ما تم وزاری اور سینہ کو بی اور شکوہ و شکایت میں گزار دیتی ہیں۔ 
  مسلمان اس وقت ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں، ہم ایک طرح کی قومی الرجی میں مبتلا ہیں، ہمیں مشتعل کرنے کے لئے بے بنیاد افواہیں بھی کافی ہیں، ایک غیر معروف شخص بھی اگر کوئی معاندانہ بات کہہ دے، تو ہم لمحوں میں سڑک پر آجاتے ہیں اور اس شدت سے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کہ معمولی شخص ہیرو بن جاتا ہے، اور معمولی تحریریں جن کی اصل جگہ ردی کی ٹوکری ہے محض تجسس میں قبول عام و خاص حاصل کر لیتی ہیں۔ اس مزاج کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے پایا بہت کم اور کھویا بہت زیادہ ہے۔ کچھ چیزیں یقیناً ایسی ہیں جن کے بارے میں حکومت سے ہمارا شکوہ بجا ہے لیکن بہت سی چیزیں وہ ہیں جنہیں حاصل کرنے میں ہم حکومت کے محتاج نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں خواندگی کی سطح بہت کم ہے، معمولی اور اوسط درجے کی تجارتوں میں بھی، جن کیلئے کوئی بڑی سرکاری اجازت درکار نہیں، ان میں بھی ہم بہت پسماندہ ہیں، زراعت میں نئے وسائل کے استعمال کی اہمیت کو اب تک ہم نے نہیں سمجھا، حکومت کے بہت سے فلاحی پروگرام ہیں اور بعض فلاحی پروگرام بین الاقوامی تنظیموں کے تحت انجام پاتے ہیں، مسلمان ان فلاحی پروگراموں سے بھی واقف نہیں، ان کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کے پاس بہترین ذہانتیں ہیں، افرادی وسائل ہیں، وہ اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، مسلمان مزدوروں اور ہنر مندوں کے بیرونی ممالک میں جانے سے ان کی معاشی حالت میں بھی فرق آیا ہے، مذہب سے جتنا تعلق آج بھی مسلمانوں کو ہے کسی اور قوم کو نہیں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری پسماندگی کا کوئی علاج نہیں ہو پاتا۔ 
 اس کی ایک اہم وجہ یہی اشتعال اور تحمل و برداشت کا فقدان ہے، ہم وقتی حالات پر اتنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری پوری صلاحیت و قوت یا اس کا بڑا حصہ دفاعی کوشش میں گزرتا ہے اور ہم کوئی طویل العمل اور مثبت و دور رس نتائج کی حامل ٹھوس اور تعمیری منصوبہ بندی نہیں کر پاتے۔ 
 اس حقیقت کے باوجود سیاسی حالات کی ناموافقت نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے اور اب انہوں نے دوسروں کے سہارے جینے کے بجائے خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حوصلہ سیکھ لیا ہے، مسلمان اعلیٰ اور فنی تعلیم کی طرف متوجہ ہیں، دینی تعلیم کی طرف بھی رجحان بڑھا ہے، ملازمت اور تجارت کی طرف ان کے قدم بڑھ رہے ہیں اور اب ان کی توجہ ایک طرف اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور دوسری طرف تعلیم اور معیشت کی طرف ہو رہی ہے۔ یہ صورت حال فرقہ پرست قوتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے اور وہ اس بات کیلئے سرگرداں رہتی ہیں کہ اس قوم کو دوبارہ اس کی بیماری میں مبتلا کریں، اسے مشتعل کریں ، اس کے جذبات کو اکسا ئیں، اس کی انا کو ٹھیس پہنچائیں اور اس کو بے برداشت کریں تاکہ تعمیر سے اس کا ذہن ہٹ جائے اور یہ قوم ایسی ڈور کو سمجھنے میں لگ جائے جس کے سلجھنے کا اسے ایک پائی بھی فائدہ نہیں ، اور جس میں اس کی انرجی اور صلاحیت کا بڑا حصہ ضائع ہو کر رہ جائے۔ 
 لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مسلمان اب جوش کے بجائے ہوش سے کام لے رہے ہیں ۔ یہ بزدلی نہیں، بلکہ خوش تدبیری ہے، یہ فرار نہیں، بلکہ دشمن کے وار کو خالی کرنا ہے، یہ ہزیمت نہیں بلکہ معاندین کی سازشوں کو ناکام و نامراد بنانا ہے، اور اس لئے یہ شکست نہیں بلکہ فتح مندی اور ظفر یابی ہے۔ قرآن کی زبان میں اس کا نام صبر ہے۔ صبر صرف شخصی مصیبت کو سہنے کا نام نہیں، بلکہ اجتماعی اور قومی زندگی میں ضبط و تحمل کا راستہ اختیار کر کے دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کا نام بھی صبر ہے۔ صبر سے انسان د ہرا فائدہ اٹھاتا ہے، ایک تو اپنی قوت کے ضائع ہونے سے بچتا ہے، دوسرے اپنے تعمیری کام میں تسلسل کو برقرار رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے آخرت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے، کہ صبر پر دہرا اجر دیا جائے گا۔ (القصص :۵۴) اس میں گویا اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ دنیا میں بھی صبر دُہرے فوائد کا حامل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آخرت کی مثال بنا کر پیدا کیا ہے۔ 
 صبر کامیابی اور ظفر مندی کی کلید ہے، اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کے بارے میں یہی بات ارشاد فرمائی کہ ان کے صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا وعدۂ انعام ان کے حق میں پورا ہوا۔ (الاعراف :۱۳۷) صبر میں بظاہر ہزیمت محسوس ہوتی ہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ مژدۂ فتح و نصرت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائیے۔ (البقرہ: ۱۵۵) قرآن نے یہ بات بہت واضح طریقہ پر کہی ہے کہ اللہ کی نصرت کو پانے کا ذریعہ دو چیزیں ہیں ، صبر اور صلاۃ اور پھر خاص طور پر صبر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ البقرہ:۱۵۳)
 حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص مال یا جان کے معاملہ میں آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور وہ لوگوں سے اس کا شکوہ نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ وہ اسے معاف کر دے۔ (مجمع الزوائد)
 جیسے یہ بات افراد کے بارے میں کہی جاسکتی ہے، قوموں اور گروہوں کے بارے میں بھی کہی جائے تو بے جانہ ہو گا کہ جو قوم دوسروں کے سامنے کا سۂ گدائی لے کر کھڑی رہے، اور محض ناانصافی کا رونا روتی رہے، وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توجہ بھی اس کی طرف سے ہٹ جاتی ہے، اور جو قوم اللہ پر بھروسہ کر کے ناموافق باتوں کو برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے، کامیابی اس کے قدم چومتی ہے، اور اللہ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہتی ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک بار صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لئے امن اور ہدایت ہے۔ (مجمع الزوائد ) یعنی صبر کی وجہ سے امن وامان کی حالت رہتی ہے، اور وہ صحیح راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ 
 رسول اللہ ﷺ نے عملی زندگی میں اسے برت کر دکھایا، مکی زندگی میں مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر صحابہؓ جواب دینے کی اجازت مانگتے لیکن آپ ؐ ہمیشہ صبر کی تلقین فرماتے رہے، مدینہ میں منافقین نے طرح طرح سے مسلمانوں کو دق کیا، یہاں مسلمان طاقتور موقف میں تھے، اور وہ منافقین کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے تھے لیکن آپؐ ان کی گستاخیوں اور ایذا رسانیوں کو برداشت کرتے رہے۔ جب صحابہؓ نے ان کا جواب دینے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر انہیں (منافقین کو) سزا دی جائے، تو چونکہ لوگ ان کے نفاق سے واقف نہیں ہیں ، وہ سمجھیں گے کہ دیکھو پہلے دشمنوں پر ہاتھ اٹھاتے تھے، اب طاقت ہوئی تو اپنوں پر بھی تلوار اٹھانی شروع کر دی۔ صلح حدیبیہ بظاہر آپؐ نے دباؤ میں فرمائی اور صحابہؓ اس سے پریشان تھے اورمحض آپ ﷺ کے احترام میں خاموش تھے، لیکن اس صلح نے بعد میں مسلمانوں کے لئے راہیں ہموار کیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ ؐنے جو عفو و در گزر سے کام لیا اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عربوں کے درمیان حرم کی جو حرمت تھی، اس سلسلہ میں مسلمانوں کے بارے میں کوئی غلط نہ پیدا ہو۔ 
 غرض، غور کیجئے تو آپ ﷺ کی پوری حیات ِ مبارکہ صبر سے عبارت ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے اصل کام سے غافل اور دور نہ ہو جائیں، یہی صبر ہے جس کی مسلمانوں کو موجودہ حالات میں ضرورت ہے۔ ہم بزدل اور کم ہمت نہ ہوں ، ہم کو تاہ حوصلہ اور بے غیرت بن کر نہ جئیں لیکن ہم اپنی فراست ایمانی کی آنکھ کو کھلی رکھیں اور دوسروں کے ہنگامہ سے متاثر ہو کر راستہ میں اس طرح نہ الجھ جائیں کہ کبھی ہماری منزل نہ آسکے، اسی خوش تدبیری اور معاملہ فہمی کا نام ’’صبر ‘‘ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK