Inquilab Logo

احتجاج کا بنیادی حق اور مختص شدہ مقامات کی شرط

Updated: September 11, 2022, 10:16 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

بہت کم لوگ اس شرط کی بابت جانتے ہوں گے۔مگر اس کی وجہ سے احتجاج کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے جبکہ جمہوری ملک میں احتجاج فطری ہے۔ پُرامن احتجاج جمہوریت کی روح ہے۔

The Supreme Court of India has very generously given the right to the citizens of the country to protest at "designated places".
سپریم کورٹ آف انڈیا نے نہایت فراخدلی کے ساتھ ملک کے شہریوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ’’مختص شدہ مقامات‘‘ پر احتجاج کرسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ آف انڈیا نے نہایت فراخدلی کے ساتھ ملک کے شہریوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ’’مختص شدہ مقامات‘‘ پر احتجاج کرسکتے ہیں۔ یہ بات عدالت نے اس وقت کہی تھی جب سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں احتجاج جاری تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’مزاحمت اور جمہوریت شانہ بہ شانہ چلتے ہیں مگر مزاحمت یا احتجاج مختص شدہ مقامات پر ہونا چاہئے۔ وہ مزاحمت جو احتجاج کی شکل میں شروع ہوئی تھی، شہریوں کی آمدورفت میں خلل کا باعث بنی۔ ہم نے شاہین باغ کے سلسلے میں یہی دیکھا۔‘‘
 بہت سے قارئین نہیں جانتے ہوں گے کہ ’’مختص شدہ مقامات‘‘ سے کیا مراد ہے۔ مَیں خود بھی نہیں جانتا تھا مگر سول سوسائٹی تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھ پر یہ عقدہ کھلا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مختص شدہ مقامات کا معنی وہ جگہیں ہیں جو احتجاج کیلئے مخصوص کی جاتی ہیں جیسے دہلی میں جنتر منتر اور بنگلور میں فریڈم پارک۔ ان جگہوں پر شہریوں کو یکجا ہوکر احتجاج کرنے کی آزادی ہے تاکہ وہ احتجاج کرنے کے بعد منتشر ہوجائیں۔ مگر، ان جگہوں پر احتجاج کیلئے بھی شہریوں کو پولیس اور حکومت کی اجازت طلب کرنی ہوتی ہے۔ قارئین نے یورپ اور امریکہ میں دیکھا ہوگا کہ شہریوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ ہاتھوں میں تختیاں لئے ہوئے اور نعرے لگاتے ہوئے اپنے دفاتر کے قریب بھی جمع ہوجاتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
 دفعہ ۱۹؍ کے مطابق ’’تمام شہریوں کو پُرامن اور غیر مسلح طریقے احتجاج کا حق حاصل ہے۔‘‘ آئین کہتا ہے کہ شہریوں کا پُرامن طریقے سے جمع ہونا بنیادی حق ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بنیادی حق کا کیا معنی ہے۔ اس کا معنی ہے وہ حقوق جنہیں آئین کا صد فیصد تحفظ حاصل ہے اور حکومت ان پر قدغن نہیں لگاسکتی۔
 مگر ہمیں عملاً یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارا بنیادی حق صرف اتنا ہے کہ اگر احتجاج کرنا ہو تو پولیس سے اجازت طلب کی جائے اور اس کے بعد مختص شدہ جگہوں پر جمع ہوں۔ پولیس سے اجازت طلب کرنے جائیے تو وہ آپ کی عرضی کو منظور بھی کرسکتی ہے، نامنظور بھی کرسکتی ہے اور اس پر کوئی جواب نہ دے ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ پولیس کوئی جواب نہ دے ایسا اکثر ہوتا ہے۔ میں ذاتی تجربہ کی بنیاد پر اس کی توثیق کرسکتا ہوں۔ ممکن ہے کہ عملاً کیا ہوتا ہے اس کی خبر ہمارے معزز جج صاحبان کو نہ ہو۔ اس کا بھی امکان نہیں کہ انہوں نے خود کسی احتجاج میں شرکت کی ہو۔
 قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے عدلیہ نے آرٹیکل ۲۱؍ میں بھی ’’ترمیم‘‘ کردی ہے۔ یہ آرٹیکل یا دفعہ شہریوں کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ یہ کام کشمیریوں کو جنہوں نے قید تنہائی کی درخواستوں کو تسلسل کے ساتھ مؤخر کرکے کیا گیا ہے۔ ابھی چند روز ہوئے جب بی بی سی نے انکشاف کیا کہ کشمیر کے گورنر نے میر واعظ عمر فاروق سے کہا تھا کہ وہ حراست میں نہیں لیکن معلوم ہوا کہ عملاً وہ حراست میں ہیں۔ ویسے کشمیریوں کو تو جیسے احتجاج کا حق ہی نہیں ہے۔ 
 ملک کے دیگر حصوں میں مقامی یا ریاستی انتظامیہ چاہتا ہے کہ اگر کوئی احتجاج ہونا ہو تو وہ مختص شدہ یا مخصوص جگہوں پر ہی ہو کیونکہ ان جگہوں کو بہ آسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کا جنتر منتر مختص شدہ مقامات میں سے ایک ہے جیسا کہ بالائی سطور میں بتایاگیا۔ اگر آپ نہ گئے ہوں تو جاکر دیکھئے۔ یہ دہلی کے قلب میں واقع ہے جس میں احتجاج کیلئے الگ الگ جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جو برسوں سے نشان زد ہیں۔ یہاں لوگ احتجاج کرتے ہیں اور آس پاس کے لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کو بھی فرق نہیں پڑتا۔
 حکومتیں احتجاج یا مظاہروں کو ایک ایسے بنیادی حق کے طور پر دیکھتی ہیں جن سے اُنہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے اس لئے عملاً وہ چاہتی ہیں کہ ایسے حقوق کاغذ تک محدود رہیں، حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمل میں نہ لائے جائیں۔ حتیٰ کہ گاندھیائی طرز کا احتجاج بھی جو کہ اپنی نوعیت کا پُرامن ترین احتجاج ہوتا تھا، ہمارے ملک میں اسے بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس سے زیادہ شریفانہ اور پُرامن طریقہ احتجاج کا کیا ہوسکتا ہے کہ انسان بھوک ہڑتال کردے مگر ہمارے یہاں وہ بھی منظور نہ ہوا چنانچہ ہم نے دیکھا کہ منی پور کی ایک خاتون جب اپنی ریاست کیلئے انصاف کی طالب ہوئی اور انصاف نہ ملنے پر بھوک ہڑتال پر چلی گئی تو اسے زبردستی کھلایا پلایا جانے لگا (ناک کے ذریعہ نلی ڈال کر) ۔ اس طرح ہم نے اُسے بھوک ہڑتال بھی نہیں کرنی دی جس کی اجازت گاندھی جی کو انگریزوں تک نے دی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ایروم شرمیلا کو ہم ایک بہادر خاتون کے طور پر نہیں دیکھتے اور اُسے بھارت رتن نہیں دیتے کیونکہ ایسے مظاہرے کرنے والوں کو حکومت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔
 حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا مذکورہ حکم جو کہ شاہین باغ کے سلسلے میں دیا گیا تھا، سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں ہے نہ ہی اُن لوگوں کیلئے جو منظم طریقہ سے احتجاج کرتے ہیں اور جن کے پیچھے عوام کی بڑی تعداد ہوتی ہے، مثلاً کسانوں کا احتجاج یا ذات پات کے نظام سے تعلق رکھنے والے گروہ۔ انہیں مختص شدہ مقامات کے علاوہ جہاں وہ چاہیں احتجاج کی غیر تحریر شدہ اجازت مل سکتی ہے، ان کی جانب سے چکہ جام کیا جاسکتا ہے، ریلیں روکی جاسکتی ہیں، کوئی علاقہ یا شہر یا پورا ملک بند کروایا جاسکتا ہے وغیرہ۔ حکومت چونکہ انہیں نہیں روک سکتی ہے اس لئے ان سے انجان بن جاتی ہے، عدالت بھی انجان بننے کو ترجیح دیتی ہے۔ 
 اس گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ حکومت یا عدالت نہیں چاہتی کہ خواتین کا چھوٹا سا گروپ بھی اپنے احساسات منظر عام پر لائے، اپنے خدشات کو جگ ظاہر کرے، مزاحمت کی آواز بلند کرے اور حکومت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرائے۔ لیکن کسی بات کے خلاف آواز بلند کرنا ہی تو احتجاج کی روح ہے۔ احتجاج اس وقت ہوتا ہےجب حکومت اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے چشم پوشی کرتی ہے۔ احتجاج بنیادی طور پر اعتراض ہے، شکایت ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اگر نہ ہو تو جو بات کہی جارہی ہے یا جو مطالبہ کیا جارہا ہے وہ سنا ہی نہ جائے۔ اگر اسے مختص شدہ جگہ پر ہی کرنا ہو تو ان مقامات پر گونجنے والی آواز بھی دب کر رہ جائیگی، سنی ہی نہیں جائیگی۔ شاہین باغ کو وطن عزیز میں بھلے ہی لعن طعن کا سامنا رہا ہو مگر بیرون ملک اس کی قدر کی گئی، اسے بالکل الگ نظریئے سے دیکھا گیا۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK