کئی صدیوں تک ریاضی، سائنس، طب، نفسیات اورٹیکنالوجی وغیرہ کی بیش قیمت پیش رفت اُن لوگوں کی وجہ سے ممکن ہوئی جو دینی مدارس سے فارغ تھے کیونکہ اُس زمانے میں نہ آکسفورڈ تھا، نہ ہی کیمبرج اور نہ ہی اس طرح کے دیگر عصری ادارے۔ اُس وقت علم کے دریائوں کا ایک ہی نام تھا ’ اسلامی مدرسہ‘
مدرسہ کے طالب علم ۔ تصویر : آئی این این
ہمارے دینی مدارس کے فارغین زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں، اسلئے اُن کا جدید علوم سے جُڑنا بھی ضروری ہے۔ اس کیلئے منطق فلسفہ وغیرہ جیسے مضامین میں تخفیف کرکے حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کو پورا کرنے والے مضامین کو شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ مدارس کے فارغین بھی خود کفیل بنیں اور وقار کے ساتھ زندہ رہیں۔ اسی ضمن میں ہم یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ دینی مدارس کے فارغین کو روزی روٹی سے جُڑنے کے کیا کیا مواقع دستیاب ہیں۔
(۴) اسلامی بینکنگ: دینی مدارس سے فارغین کو بریج کورس میں عام ریاضی پڑھائی جاتی ہے جس سے وہ کامرس کے گریجویٹ بھی بن سکتے ہیں اور وہ کمپیوٹر ائزڈ اکائونٹنگ کا چھ ماہ کا کورس کرتے ہیںتو اسلامی ممالک کی بینکوں اور مالیاتی اداروں میں بڑا عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسلامی بینکنگ پر مبنی مالیاتی ادارے آج دنیا کے کئی ممالک میں قائم ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اسلامی یا غیر سودی بینکنگ نظام میں بھی مسلمان منیجر، اکائونٹنٹ اور پروگرامر دستیاب نہ ہوں؟
(۵) تبلیغ بذریعہ جدید ٹیکنالوجی: دینی مدارس سے فارغین کا ایک واضح ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی تبلیغ میں جُٹ جائیں۔ فی زمانہ دین کے پھیلائو کا کام کتابوں ، رسائل، جرائد یا محلوں میں گشت تک محدود نہیں رہا۔ اب غیر مسلموں تک پہنچنے کا کام جدید ٹیکنالوجی نے آسان کر دیا ہے۔ آج سبھی کے پاس سٹیلائٹ ٹی وی کانیٹ ورک ہے نیز ان کی جیب میں اُس سے زیادہ موثر اسمارٹ فون ہے۔مدارس کے فارغین اِن سٹیلائٹ یا چینلوں سے جُڑ سکتے ہیں اور بجلی کی رفتار سے تیز اِس میڈیا سے دین کی تبلیغ کا کام کرسکتے ہیں۔
(۶) مترجّم : دنیا کے سارے ممالک میں اُن کی قومی زبان سے عربی اور عربی سے قومی زبان میں مترجّم کی سخت ضرورت رہتی ہے۔ اسی بنا پر آج غیرمسلم بھی عربی بول چال اور کاروباری عربی زبانیں سیکھ رہے ہیں۔ عربی مدارس کے فارغین گریجویشن کے بعد ایک سال عربی سے انگریزی یا چینی یا ہندی یا جرمن وغیرہ زبان میں ترجمہ کرنے کے ماہر بن سکتے ہیں اور یہیں سے اُن کے ایک روشن مستقبل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ دنیا کے سارے سفارت خانے ، ایئر پورٹ اور سرکاری دفاتر میں مترجّم کیلئے ہمیشہ ملازمت کے مواقع دستیاب رہتے ہیں۔ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ اب تو انٹرنیٹ پر بھی ترجمہ ممکن ہے۔ انسانی دماغ اور مشین کے فرق کا اندازہ اس ضمن میں ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مشین کا ترجمہ اکثر اوقات اس قدر واہیات اور غیر معیاری ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اچھا مترجّم صرف انسان ہوسکتا ہے روبوٹ نہیں۔
(۷) وکالت : موجودہ حالات میں اب ہمیں اچھے قانون داں اور وکلاء کی سخت ضرورت ہے۔ دوسرے وکیل صرف قانون جانتے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغینِ ملّت کا ، سلاخوں کے پیچھے سسک رہے بے گناہ نوجوانوںاور ان کے والدین کا درد بھی سمجھتے ہیں لہٰذا ملّت کیلئے ان سے زیادہ کارآمد وکیل کون ہوسکتے ہیں؟کرنا کیا ہے، مدرسے سے فراغت کے بعد تین سال کا کورس کرکے لاء کی ڈِگری حاصل کرنی ہے اور قانون کے پیچ و خم سمجھنے میں مزید ۲/۳سال کھپانے ہیں۔اگرشاہد اعظمی اور محمود پراچہ جیسے وکیل ہمارے پاس نہیں ہوں گے تو مظلوموں کو انصاف کیسے ملے گا؟
(۸) سو ل سروسیز : دینی مدارس سے دو تین فارغین نے حال ہی میں سوِل سروسیز کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے دینی مدارس کیلئے پیغام دے دیا ہے کہ یہ ان کیلئے ممکن ہے کہ وہ ملک کی پالیسی مرتّب کرنے کے عمل کا ایک حصّہ بن سکتے ہیں۔ کیا ہماری کوئی فلاحی تنظیم اس انتہائی اہم اور تاریخ ساز کام کیلئے سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے؟ دینی مدارس کے فارغین کی ذہنی استطاعت، اہلیت، لیاقت اور کمٹمنٹ پر آپ شک مت کیجئے۔ اس امتحان کے اخری مرحلے یعنی انٹرویو میں اگر وہ داڑھی و ٹوپی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ، تب بھی اُنھیں دشواری نہیں آئے گی۔ ہمارے اُن طلبہ کو اگر ہم تمام تر جدید معلومات سے باخبر کراتے ہیں، اُن میںخود اعتمادی کو کوٹ کوٹ کر بھرتے ہیںتو ہمیں یقین ہے کہ تعصّب دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ اس سے بڑی خوش بختی اس قوم کی کیا ہوگی کہ مدرسے کا مولوی ملک کی پالیسیاں مرتّب کرے۔
(۹)مینجمنٹ: درجنوں مدارس میں ہم نے یہ دیکھا کہ داخلہ دروازے پر اُن طلبہ کے چپّل، جوتے بڑی ترتیب سے رہتے ہیں، ان کی قیام گاہ میںجائیے تو آپ دیکھیںگے کہ اُن کی کتابیں،کپڑے، بستر سب ترتیب سے ملیں گے۔ہم یہاںایک مثال مہاراشٹر کے ایک مدرسے کی دینا چاہیں گے جہاں۱۴؍ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔دوپہر ایک بجے وہ ۱۴؍ہزار بچّے کھانا شروع کرتے ہیں۔دو بجے تک کھانے کا سیشن کامیابی سے ختم۔ رات ۸؍بجے اُسی تعداد میں طلبہ کھانا کھانے جمع ہوتے ہیں اور۹؍بجے تک سب طلبہ کھانے سے فارغ۔ یہ سارا نظام ، یہ انتہائی احسن انتظامی صلاحیت اِن مدارس کے طلبہ میںخود بخود آجاتی ہے۔ہمارے یہاں ولیمہ کی دعوت میں ۵۰۰؍سے ایک ہزار افراد کو مدعوکیا جاتا ہے، اُن کے ایک وقت کے کھانا کھلانے کی منصوبہ بندی چھ چھ ماہ قبل سے ہوتی رہتی ہے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ دینی مدارس کے یہ فارغین دنیا کا کوئی بھی مینجمنٹ کا کورس انتہائی کامیابی کے ساتھ کرسکتے ہیں؟ آج ان کیلئے کئی کُل/جُزوقتی مینجمنٹ کے کورسیز دستیاب ہیں۔مدرسے کے فارغین بڑی بڑی کمپنیوں میں منیجر بلکہ سی ای او کے عہدے تک فائز ہوسکتے ہیں۔
(۱۰) ہنر مندی : مدارس کے فارغ طلبہ کو کئی قلیل مدّتی کورسیز سے بھی روزی روٹی سے جوڑا جاسکتا ہے البتہ اُس سے قبل اُن کو ذہانت ناپنے کے ٹیسٹ سے گزارنا ہوگا کیوںکہ اِن مدارس میںکثیر تعداد میں ذہین و فطین طلبہ پڑھتے ہیں۔ اُنھیں اعلیٰ درجہ کے کریئرس سے آراستہ کیا جا سکتا ہے البتہ اگر کچھ طلبہ فطری طور پر کند ذہن ہیں ، وہ جدید علوم کے حصول کو مشکل پاتے ہیںتو ایسے طلبہ چند ایسے کورسیز کرسکتے ہیں جو اُنھیں روزی روٹی سے فوری طور پر جوڑدیں ، جیسے موبائیل رِپیرنگ ، میڈیکل لیب ٹیکنالوجی، ایکسرے ٹیکنیشن، ڈینٹل کلینک، فوڈ ٹیکنالوجی اورگارمنٹ ٹیکنالوجی وغیرہ۔
دوستو! آج کووِڈ ۱۹؍کی صورت میں ہمارے دینی مدارس دوسری بڑی مصیبت سے دوچار ہیں۔ پہلی اس سے بھی بڑی مصیبت آئی تھی نائن الیون کی صورت میں جب عالمی پیمانے پر ہمارے مدارس کو بدنام کیا گیا۔ اُس وقت یہ بھی کہا گیا کہ اِن مدارس میں(الف) معاشی طور پر پسماندہ (ب) کند ذہن اور (ج) معاشرے کو غیر مطلوب طلبہ کو داخل کیا جاتا ہے۔ اس کڑے امتحان میںہمارے مدارس کھرے اُترے۔ دنیا بھر میںاِن مدارس کے نصاب و نظم پر جو فکر ہونے لگی تو آج اس کا مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا کہ (الف) معاشی طور پر مستحکم (ب) ذہنی صحت مند اور (ج) صاحبِ حیثیت گھروں کے ذہین بچّے بھی مدرسے کا رُخ کرنے لگے۔ اب ہمارے یہاں مدرسہ تعلیم کے تعلق ہمارے رویّہ میں فکری تبدیلی کی بڑی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم مسجد کو جتنا ضروری سمجھتے ہیں، مدرسے کو بھی اُتنا ہی ضروری سمجھیں اور اپنے علاقوں میں مساجد کیلئے جیسی تجوریاں قائم ہوتی ہیں ویسی ہی مدارس کیلئے بھی ہوں۔ کووِڈ نے دنیا بھرکی معیشت کو تہہ و بالا کردیا ہے، اِن حالات میں دینی مدارس کیلئے فند جمع کرنا بڑا چیلنج ہے مگر ہمیں وہ دَور واپس لانا ہے جب اِن مدارس سے القاسم، الرشید، الانصار، دارالعلوم، تعمیر حیات، معارف، محدّث، الندوہ اور حیاتِ نو جیسے مجلّے شائع ہوا کرتے تھے۔ (اِن میں صرف ’معارف‘ کے تعلق سے عرض کریں کہ اُس کے مشمولات پر کچھ اتنی ریسرچ ہو سکتی ہے کہ دوچار درجن افراد کی پی ایچ ڈی ہوسکتی ہے)۔ہم ذمہ داران کو یاد دلانا چاہیں گے کہ اِنہی مدارس نے اردو زبان وادب کا دامن کن کن گرانقدر ہیرے اور موتیوں سے بھردیا۔ ان میں ولی دکنی، میر تقی میر، داغ دہلوی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، مولوی ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی، نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی،مولانا شبلی نعمانی، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔