Inquilab Logo

وڈالا اسٹیشن پر مال گاڑی کے نیچےسے پٹری پارکرکے اسکول پہنچنےکا دَوراَب بھی یادہے

Updated: August 27, 2023, 4:59 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

جے جے جنکشن کی ۷۸؍ سالہ افضل بیگم عبدالرزاق پیرانہ سالی میں بھی پوری فعالیت کے ساتھ امور خانہ دار ی کےعلاوہ قوم کے بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے کوشاں ہیں، اپنی تعلیم کا بہتر استعمال کرتے ہوئے گھر میں رہ کر بچوں کو پڑھانےکی کوشش کررہی ہیں۔

Afzal Begum Abdul Razzaq Sheikh. Photo. INN
افضل بیگم عبدالرزاق شیخ ۔ تصویر:آئی این این

افضل بیگم ضعیفی میں بھی صحت مند اور فعال ہیں ۔ امور خانہ داری بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ پیرانہ سالی میں بھی جاذب نظر، عمدہ شخصیت کی مالک اور اپنی عمر سے چھوٹی دکھائی دیتی ہیں ۔ حافظہ بھی خوب ہے ۔بیماری سےمحفوظ ہیں ۔ زیادہ تروقت لکھنے ،پڑھنے اور عبادت کر نے میں گزارتی ہیں ۔دلچسپی کے باوجو دسماجی کاموں سے دورہونےکا افسوس ہے لیکن قوم کےبچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا جذبہ برقرار ہے۔ اسلئے گھر میں بچوں کو پڑھانےکی کوشش جاری ہے۔ تعلیم یافتہ ہونےسے زندگی کےمختلف ادوار کو قریب سے دیکھنے کاخاصہ تجربہ رہا۔ اسی کی بنیادپر اپنے بچپن کے ایک دلچسپ واقعہ کے بارے میں بتایاکہ ’’ جعفر ہائوس سے قبل ہم لوگ تیلی محلہ ( ناگپاڑہ) میں رہتے تھے۔ لیکن اہل خانہ کو وہ گھر پسند نہیں تھا۔ اس لئے ایک روز میرے والد جعفر ہائوس گئے۔ وہاں کئی گھر وں میں صرف کنڈیاں لگی تھیں ۔ اس دورمیں بلاخوف وخطر لوگ اس طرح کے گھروں کی کنڈیاں کھول کر سکونت اختیارکرلیتے تھے۔ ہم لوگو ں کو یہاں کا گھر پسند آیا۔ ہم نے بھی ایک گھر کی کنڈی کھولی اور رہنے لگے۔ ہمیں نہیں معلوم تھاکہ یہ عمارت کس کی ہے۔ لوگ عمارتیں تعمیر کرکے یوں ہی چھوڑ دیتےتھے۔ جب گھر میں کوئی رہنے لگتاتو مالک مکان آکر حساب کتاب کرتا۔ اس طرح بڑی آسانی سے گھر مل جایاکرتے تھے ۔ والدنے کئی مہینوں بعد مکان مالک سے بات چیت کی او رپھر ہم اسی گھرکے ہوگئے۔ آج بھی یہ گھر ہمارے پاس ہے ۔ میرے بھائی وغیرہ اس میں رہتےہیں ۔‘‘
سگریٹ کے دھوئیں سے مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی
 اپنے اسکول کے دورکا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے افضل بیگم نے کہاکہ ’’میں پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ جے جے جنکشن سے کمو جعفراسکول (محمدعلی روڈ) جانےکیلئے ٹرام چلتی تھی۔ ایک روز میں سونے کا جھُمکا پہن کر اسکول جانےکیلئے ٹرام کے اسٹاپ پر پہنچی ، ویسے ہی ایک شخص سگریٹ پیتا ہوا قریب آیا۔ اس نے دانستہ طورپر سگریٹ کا دھواں میری طرف پھونکا ،جس سے مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ بعدازیں میرا ہاتھ پکڑکر مجھے جے جے اسپتال روڈ سے نور باغ کی طرف لے جانے لگا۔ نورباغ پہنچ کر ایک بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتےہوئے اس نے کہا کہ اس بلڈنگ میں میری بہن رہتی ہے ۔ میں تمہیں اس سے ملانے لے چلوں گا، لیکن میری بہن کو ’ایسے سو نا پہنے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگتے ہیں ‘ اس لئے یہ جھُمکا مجھے دے دو، بعد میں تمہیں لوٹا دوں گا۔ میں اس کی بات سن رہی تھی لیکن میرادماغ کام نہیں کررہاتھا۔ میں نے اسے دونو ں جھُمکے دے دیئےجس کے بعد اس نے کہا، تم یہیں رُکو ، میں آکر تمہیں لے چلتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ گیاتو پھر نہیں آیا۔ میں اسے تلاش کرتی رہی، ڈراور خوف کے عالم میں ،مختلف سڑکوں اورگلیوں سے گزرتےہوئے، جب بھنڈی بازار جنکشن پر پہنچی تو مجھے علاقہ جانا پہچانا لگا۔ وہاں سے ٹرام میں بیٹھ کر میں گھر آئی ۔ والدہ نے بے وقت گھر آنے پر برجستہ پوچھا، اسکول نہیں گئی ، جملہ پورا نہیں ہواتھاکہ ان کی نظر میرے خالی کانوں پرگئی ۔ انہوں نے پوچھا جھُمکاکہاں ہے۔ میں نے کہاکہ اباکے ایک دوست نے لے لیا۔ یہ سنتے ہی والدہ نے سرپیٹ لیا۔ مجھے ایک طمانچہ رسید کیا۔ والد کو بلاکر پوری روداد سنائی۔بعدازیں والدہ کو والدنے ڈانٹ کر کہا کہ،جھُمکاہی گیا ہےنہ اگر وہ کمینہ بچی کو مار ڈالتاتو کیاکرتی؟ یہ کہہ کر والد نے معاملہ رفع دفع کیا اور اسی وقت مجھے نیا جھُمکا دلایا۔ اس واقعہ کےبارےمیں اب بھی سوچتی ہو ں تو جسم پر جھرجھری طاری ہو جاتی ہے۔‘‘
پٹریاں پار کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا
 انٹاپ ہل میں اپنی ملازمت کے تعلق سے ایک انتہائی خطرناک روش کےبارےمیں انہوں نے بتایاکہ ’’ یہ ۶۰ءکی دہائی کی بات ہے ۔ وڈالا اسٹیشن پرایک سے دوسری سمت جانےکیلئے کوئی بریج نہیں تھا۔ ایسی صورت میں ریل کی پٹریاں پارکرکے جانے کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔یہاں کی پٹریوں پر اکثر مال گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں ۔مجبوراً لو گ ان مال گاڑیوں کے نیچے سے پٹریاں پار کرکے دوسری سمت جاتے۔ یہ روز کا معمول تھا۔ میں بھی اس کی عادی ہوگئی تھی۔ اس میں مہارت بھی حاصل ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ بالکل دھیمی رفتار سے چلتی مال گاڑی کے نیچے سے بھی لوگ گزر کر پٹری پار کرلیتے تھے۔۵؍سال تک مال گاڑی کے نیچے سے پٹری پار کرکے اسکول پہنچنے کا دور اب بھی یادہے لیکن اس دوران اسی کوشش میں ایک خاتون کی جان تلف ہونے کا منظر بھی ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔ اس کےباوجود متبادل نہ ہونے سے لوگ اسی روش پر قائم تھے۔میری ایک شناسا تو اس قد ر ماہر تھی کہ میں نے اس کا نام ہی ’’گُڑپ ‘‘ رکھ دیاتھا۔و ہ بڑی تیزی اورمہارت سے مال گاڑی کے نیچے سے گزرتی اورگُڑپ سے دوسری سمت باہر نکل جاتی تھی۔‘‘
جونیئر محمود میرا شاگرد ہے
 افضل بیگم کےمطابق ’’ میری تدریسی زندگی ۳۵؍سال پرمشتمل ہے۔ اس دوران ہزاروں طلبہ کو پڑھایا ۔ جن میں فلم اداکار جونیئر محمود بھی شامل ہے۔ اکثر غیر حاضر رہنے کی وجہ سے ایک دن اس کے والد کو میں نے اسکول بلایا تو پتہ چلاکہ شوٹنگ پر جانےکی وجہ سے وہ غیر حاضر رہتا ہے۔ شوٹنگ سےواپسی کے بعد اسکول حاضرہوتا تو شوٹنگ ، فلم کے ہیرو، ہیروئن اور دیگر اداکاروں کےبارےمیں ہمیں بتاتا۔ اسکول کے دور سے جونیئر محمود کی فلموں میں کام کرنےکی جدوجہد جاری تھی، اس کی محنت رنگ لائی اور وہ ایک کامیاب اداکار بن گیا۔ اُسے جب کبھی ٹیلی ویژن پر دیکھتی ہوں تو اس دورکی باتیں یاد آتی ہیں ۔ ‘‘
برادران وطن نے اپنی جان پر کھیل کر ہماری حفاظت کی تھی
 ۹۳ءکےفرقہ وارانہ فسادکےبارےمیں افضل بیگم نےبتایاکہ ’’اس دورمیں ہم لوگ اندھیری چار بنگلہ کے بلیو آر ک کاپریٹیو ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش پزیر تھے۔سوسائٹی میں صرف ۵؍مسلمانوں کے گھر تھے۔ سوسائٹی سے متصل کام گارنگر کے شرپسند رات کے وقت مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ،حملہ آور ہونےکی کوشش کرتے ۔ایسے میں سوسائٹی کےبرادران وطن نے اپنی جان پر کھیل کر ہماری حفاظت کی تھی۔ ہمارے فلیٹوں میں تالالگاکر، کئی دنوں تک ہمیں اپنے گھروں میں پنا ہ دی تھی جسے فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔اگر سوسائٹی کےبرادران وطن ساتھ نہیں دیتے تو کچھ بھی ہوسکتاتھا۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK