Inquilab Logo

گوشۂ بزرگاں:’’ انگریزفوج کی گولی، سونے کی کالی اینٹیں،حاجی مستان سےگپ شپ اور بنارس تا ممبئی سفر‘‘

Updated: November 05, 2023, 12:52 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

گھیلابائی اسٹریٹ کے ۸۵؍سالہ عزیز الحق انصاری کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کا بنارس سے ممبئی کا ۴۰؍ گھنٹوں کا خوفناک سفر اَب بھی یاد ہے۔ انہوں نے اس سفر کے دوران چہرے پر بندھا انگوچھا مدنپورہ پہنچ کر ہی کھولاتھا۔

Azizul Haq Ansari. Photo: INN
عزیزالحق انصاری۔ تصویر:آئی این این

مولانا آزاد روڈ (مدنپورہ) پر عبدالحق سپاری شاپ علاقے کی ایک قدیم دکان ہے۔ ۱۹۴۶ء میں عبدالحق انصاری نے سپاری اور تمباکو وغیرہ کا معمولی کاروبار شروع کیا تھا۔ ۸۶؍ سالہ پرانی دکان نے اب لینڈ مارک کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ عبدالحق صاحب کی تیسر ی پیڑھی دکان اور کاروبار سے وابستہ ہے۔ ان کے ۸۵؍ سالہ فرزند عزیزالحق انصاری کی نگرانی میں سپاری کیلئے معروف یہ دکان اب بھی کامیابی سے جاری ہے۔ آج بھی صبح ۸؍بجے عزیزالحق دکان کھول دیتے ہیں۔ مضمون نگار کی توجہ اکثر اس دکا ن اور دکاندار پر پڑتی رہی ہے ۔ گزشتہ ہفتہ خیال آیا کیوں نہ اُن سے اس کالم سے متعلق گفتگو کی جائے ۔ بدھ ۲۵؍اکتوبر کو صبح علاقے سے گزرتے ہوئے دکان پر نظر پڑی ، کوئی گاہک نہیں تھا، عزیزالحق تنہا دکان پر موجود تھے۔ سلام دعا کے بعد انقلاب اور کالم سے متعلق بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے کہا کہ میں پابندی سے یہ کالم پڑھتا ہوں۔ اپنے دور کی باتیں عوام تک پہنچانے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ کالم میں میرے دور کی روداد کوبھی جگہ ملے تو خوشی ہوگی۔ ان سے تقریباً سوا گھنٹے بات چیت ہوئی اور پتہ بھی نہ چلاکہ اتنا وقت گزر گیا۔
عزیزالحق ،بنارس کے بڑی بازار علاقے کے رہنے والے ہیں۔ ڈھائی سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ممبئی آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ان کے والد کا گھر گھیلا بائی اسٹریٹ کے غنی عطر والا چال میں ہے۔صفرا بادی اسکول سے چہارم اور ناگپاڑہ پرائمری اسکول سے۱۹۵۲ء میں ۷؍ویں جماعت تک پڑھائی کی۔ پڑھائی کے بعد ۴۔۳؍ سال یوں ہی گزرے، بعد ازیں ۱۹۵۶؍ میں فارس روڈپر واقع پیٹرول پمپ جو اسی سال شروع ہوا تھا، پر ملازمت کی۔ اس کے بعد ۲؍ سال مل میں ملازمت کی ،پھر ساڑی کا کاروبار کیا ،یہ کاروبار بھی راس نہیں آیا،دوبارہ مل میں ملازمت کرلی۔ اس طرح ۱۹۷۷ء تک انہی کاموں میں مصروف رہے۔ ۱۹۷۷ء میں حادثاتی طور پر والد کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے، والد نے دکان کی ذمہ داری عزیزالحق کو سونپی۔ اس وقت سے دکان کا کاروبار سنبھال رہے ہیں۔ تقریباً ۴۶؍ سال سے دکان پر روزانہ بیٹھتے ہیں۔ اس پیرانہ سالی میں بھی وہ مختلف شفٹوں میں ۳؍ بار دکان پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ 
ملک کی آزادی کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کی وجہ سے اس دور میں لگنےوالے کرفیو کو آزادی کا کرفیو کہاجاتا تھا۔ ممبئی میں بھی کرفیو لگا تھا۔ مدنپورہ کی بڑی مسجد کے قریب انگریز فو ج تعینات تھی۔ کرفیو کی وجہ سے سڑکوں پر سناٹا تھا۔ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ عزیزالحق کے والد عبدا لحق بال بچوں کے ساتھ مذکورہ مکان میں مقیم تھے۔ کرفیو کا نظارہ کرنے کیلئے عبدالحق نے گھر کی کھڑکی سے گردن نکا ل کر جھانکنے کی معمولی غلطی کی تھی۔ دوسرے لمحے ایک دن دناتی گولی ان کی کھڑکی سے آکر ٹکرائی۔ خوش قسمتی سے ،برق رفتاری سے کھڑکی سے گردن ہٹالینے سے عبدالحق بال بال بچ گئے۔ یہ واقعہ عزیزالحق کو اچھی طرح یاد ہے۔ وہ اپنے والد سے وابستہ اس واقعہ کےبارے میں سوچتے ہیں تو ابھی بھی ا ن کے جسم پر جھرجھری آجاتی۔ 
 عزیزالحق نے بیلارڈ پیئر سے جانےوالے پانی کے جہاز پر متعدد برسوں حاجیوں کی رضاکارانہ طورپر خدمت کی ہے۔ عازمین کا سامان سر پر اُٹھا کر موٹر گاڑیوں اور ٹیکسیوں تک پہنچا یا ہے۔ جس کے عوض کبھی کسی سے ایک پیسہ نہیں لیا۔ یہ ۶۰ء کی دہائی کی بات ہے ۔ یہی وہ دورتھا جب اسمگلر حاجی مستان مرزا بھی یہاں قلی کا کام کرتے تھے۔ نیکر اور نیلے بوشرٹ میں ملبوس مستان مرزا کو حاجیوں کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے قریب سے دیکھا ہے۔ اس دور میں سعودی ، اکبری، نورجہاں اور محمدی پانی کے بڑے جہاز تھے۔ جن کا حج پر جانے اورلوٹنے کا کرایہ صرف ۵۰۰؍ روپے تھا۔ عزیزالحق کی نانی ۱۹۶۱ء میں حج پر گئی تھیں۔ ان کا ٹکٹ فورٹ پر واقع مغل لائن کمپنی سے عزیزالحق نے ۵۰۰؍ روپےمیں خرید ا تھا۔ ۲؍ہزار روپے میں حج کے سارے اخراجات پورے ہوگئے تھے۔ 
 ممبئی بندر گاہ (ڈاک) پر ۱۹۴۴ء میں ہونے والے بھیانک دھماکے سے پوری ممبئی دہل اُٹھی تھی۔ پانی کے جہاز میں ہونے والے دھماکہ سے شہر پر سیاہ دھواں کی چادر تن گئی تھی۔ جہاز میں رکھے سا ز و سامان دھماکہ کی گرج سے ہوا میں اُڑ کر مختلف علاقوں میں بکھر گئے تھے۔ ان میں سونے کی اینٹیں بھی شامل تھیں۔ عزیزا لحق کے والد نے اپنے بچوں کو بتایا تھا کہ کچھ سونے کی اینٹیں ڈنکن روڈ پر آکر گری تھیں لیکن یہ اینٹیں اس قدر کالی ہوگئی تھیں کہ لوگ انہیں لات مار کر ایک سے دوسری جگہ پھینک رہے تھے۔ ان اینٹوں کی صفائی ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ سونے کی تھیں۔ حادثہ کے ۷۔۶؍ مہینے بعد عبدالحق، عزیزالحق سمیت اپنے دیگر بچوں کو جائے وقوع پر لے گئے تھے۔ جہاں پانی میں جس جگہ جہاز میں دھماکہ ہوا تھا، وہاں سے اس وقت بھی دھواں اُٹھ رہا تھا۔ 
 عزیرالحق کے خالو سے حاجی مستان مرزا کے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے مرزا اکثر ان کی سپاری کی دکان پر آتے تھے۔ دکان پر گھنٹوں دنیا جہان کی باتیں ہوتی تھیں۔ چائے اور سگریٹ کا دور جار ی رہتا۔ 
 ابھی یہ بات چیت چل ہی رہی تھی کہ ناگپاڑہ پولیس اسٹیشن سے وابستہ ایک مسلم پولیس اہلکار نے دکان کے سامنے موٹرسائیکل پارک کی اور عزیزالحق کو مخاطب کیا: ’’حاجی صاحب السلام و علیکم ، کیسے ہیں ،سنا کہ آپ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔‘‘ عزیزالحق نے بتایا کہ مجھے ٹائیفائڈ ہوگیا تھا بعد ازیں ایک دن رات میں اچانک پیٹ میں درد ہونے پر پوتے سے کہا کہ پانی دم کر کے دے، اس نے پانی دم کر کے دیا تو آرام ملا۔ موسمی تبدیلی سے کافی لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ حاجی صاحب اور اطراف کے دکانداروں کی خیر خیر یت لینے کے بعد پولیس اہلکار رخصت ہوا، تب ہماری گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شرع ہوا۔ 
بابری مسجد کی شہادت سے جڑی یادیں اور ممبئی سے اجمیر ،اجمیر سے دہلی ، دہلی سے بنارس اور بنارس سے ممبئی کا سفر عزیزالحق ابھی بھی نہیں بھولے ہیں۔ ۴؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو وہ ممبئی سے اجمیر گئے ، ۵؍دسمبر کو دہلی سے بنارس کیلئے روانہ ہوئے ، صبح ۱۱؍بجے بنارس پہنچے۔ پورے شہر میں ہوکا عالم تھا۔ مسجد شہید ہوچکی تھی۔ ۸؍دسمبر کو بنارس سے ممبئی کیلئے مہانگری ٹرین سے ٹکٹ بُک تھی۔ گھر والوں کے علاوہ دوستوں نے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن عزیزالحق کا ممبئی آنا ضروری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ لنگی میں سفر کیا تھا لیکن اس سفرکیلئے ایک دوست سے پینٹ لی۔ پینٹ پہن کر اپنا چہرہ انگوچھا ( تولیہ ) سے ڈھانپ کر وہ کسی طرح بنارس اسٹیشن پہنچے۔ اسٹیشن کی ساری دکانیں بند تھیں۔ اس وقت تو کوئی پلیٹ فارم پر نظر نہیں آیا لیکن جیسے ہی مہانگری گاڑی پلیٹ پرفارم پر لگی ۔ اچھا خاصا ہجوم ٹرین پر سوار ہونے کیلئے دوڑا۔ عزیزالحق اپنی اُوپری برتھ پر کسی طرح منہ چھپا کر بیٹھ گئے جبکہ بوگی میں شرپسندوں کی غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی بھی جاری تھی۔ جن مسافروں کا ریزرویشن تھا ، انہیں ان کی برتھ سے اُٹھاکر وہ زبردستی ا ن کی سیٹوں پر بیٹھ رہے تھے۔ جے شری رام کے نعروں سے ڈبہ گونج رہا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف نعرے جاری تھے۔ بابری مسجد کی اینٹیں ان کے ہاتھوں میں تھیں ۔ وہ اینٹ اُٹھاکر جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔ بڑا خوفناک منظر تھا۔عزیزالحق ان سب نعروں کے درمیان انتہائی خاموشی سے اپنی برتھ پر پڑے رہے۔ تقریباً ۲؍ گھنٹے کا سفر طے ہونے کے بعدگاڑی مرزا پور پہنچی۔ یہاں کچھ اور ہنگامہ بڑھا۔ اس کے بعدپورا سفر اسی کیفیت میں گزرا۔ دوسرے دن دوپہر میں ۳؍بجے سی ایس ٹی پہنچنے والی گاڑی تیسرے دن علی ا لصباح ۵؍بجے دادر اسٹیشن پہنچی ۔یہاں سے لوکل ٹرین پکڑکر عزیز الحق بائیکلہ اسٹیشن پہنچے ۔ بائیکلہ سے مدنپورہ کا سفر بھی خوف بھرا رہا۔ گھر پہنچنے پر اہلیہ نے دروازہ کھولا، عزیزالحق کو دیکھ کر حیر ت زدہ رہ گئیں ۔ بنارس سے ممبئی کےاس ۴۰؍ گھنٹے کے سفر کے دوران عزیز الحق اپنی برتھ سے نہیں اُترے تھے نہ ہی کچھ کھایا حتیٰ کہ پینےکا پانی تک انہیں نہیں ملا تھا۔ وہ اس سفر کےبارےمیں سوچ کراب بھی خوفزدہ ہوجاتےہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK