Inquilab Logo

’’میں نے دلیپ کمار کو سلام کیا، انہوں نے نہ صرف سلام کا جواب دیا بلکہ میری خیریت بھی دریافت کی‘‘

Updated: October 15, 2023, 1:42 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

کرلا کے ۷۵؍سالہ عبدالرشید انصاری کو معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑی پڑی، گزر بسر کیلئے ٹیکسی ڈرائیونگ کی جس کا انہیں ۳۵؍ سال کا تجربہ ہے، اس دوران کئی اہم شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا، فی الحال معاشی سرگرمیوں سے دور بال بچوں کی نگرانی میں مصروف ہیں۔

Abdul Rasheed Ansari Photo: INN
عبدالرشید انصاری۔ تصویر:آئی این این

کرلا ،سی ایس ٹی روڈ پر واقع امبیڈکر نگر کسی زمانے میں ’جوز سوسائٹی‘ سے مقبول تھی۔یہاں صرف یہودی رہتے تھے۔ اب یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔قدیم طرز کی بنگلوں والی سوسائٹی اب جدید طرز کی بلند عمارتوں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ کشادہ فلیٹ ، بڑی بڑی کھڑکیاں ،کمروں کے فرش اور چھت کے درمیان معقول اونچائی یہاں کے گھروں کی خوبصورتی اور کشادگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہاں یہودی نہیں رہے لیکن ان کی ایک عبادت گاہ اب بھی موجودہے۔ 
 یہاں مقیم ۷۵؍ سالہ عبدالرشید محمد انصاری کےگرائونڈ فلور کے گھر میں داخل ہوتے ہی دروازہ سے متصل ایک بڑا زنجیروں والا جھولا، کمرے کے ایک گوشے میں چھوٹے بچوں کے کھیلنے کیلئے پلاسٹک کا سلائڈنگ، ایک جانب مہمانوں کے بیٹھنے کیلئے صوفہ اور مخالف سمت میں آرام دہ کرسیاں سجائی گئی ہیں۔ گھر کےدروازےاور کھڑکیوں پر خوبصورت ڈیزائن والے پردے لگے ہیں۔ ساتھ ہی گھر کی دیواروں کو پُرکشش بنانے کیلئےمصنوی پھولوں کی مدد لی گئی ہے۔ گھر کی آرائش دیکھ کراہل خانہ کےبا ذوق ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔
کرلا کے سماجی کارکن عادل آصف کے معرفت عبدالرشید انصاری سے ہونے والی خصوصی ملاقات کئی اعتبار سے اہم رہی عبدالرشید انصاری کے ساتھ ان کی اہلیہ کنیز فاطمہ(جو ایک سبکدوش معلمہ ہیں )، بیٹا ندیم اور ان کا ایک عزیزبھی گفتگو کاحصہ رہے۔ رسمی گفتگو کے بعد اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے، ان کی پیدائش ،تعلیم اور عملی زندگی سے متعلق باتیں ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی پیدائش ۱۷؍مارچ ۱۹۴۸ءکو امیر بخش چال ،پائپ روڈ ، کرلا میں ہوئی تھی۔ اسی علاقے کے داملہ بی ایم سی اُردو میڈیم اسکول سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعدازیں انجمن اسلام اُردو ہائی اسکول کرلا میں داخلہ لیا۔ یہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن مالی دشواریوں اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ والد کی بیماری ، والدہ کی پریشانی اور بھائی بہنوں کی کفالت کے احساس نے ڈرائیور بنا دیا۔ ۱۹۷۳ء میں ٹیکسی کی اسٹیئرنگ سنبھالی اور تقریباً ۳۵؍ سال تک اسی کے ذریعے اپنی اور گھر والوں کی ضرورتیں پوری کیں ۔ بعدازیں چند برسوں تک ہوٹل کےکاروبار سے وابستہ رہے۔ فی الحال معاشی سرگرمیوں سے دور ہیں۔ گھراور بال بچوں کی نگرانی کے ساتھ عبادت گزاری ان کی مصروفیات کا اہم حصہ ہیں۔
عبدالرشید کی زندگی متعدد نشیب وفراز سے گزری ہے۔ اس دوران ایک مرتبہ بری طرح پھنسنے اور اس سے باہر نکلنےمیں ہونےوالی پریشانیاں انہیں اب بھی یاد ہے۔ وہ روزانہ کرلا سے مومن پورہ (آگری پاڑہ) ٹیکسی چلانے کیلئے آتے تھے۔ دن بھر ٹیکسی چلا کر رات کو آخری ٹرین سے کرلا لوٹنے کا معمول تھا۔ ایک روز مصروفیت کی وجہ سے ان کی آخری ٹرین چھوٹ گئی۔ انہوں نےسوچا کہ ٹیکسی میں ہی وقت گزار کر علی الصباح پہلی ٹرین سے کرلا چلے جائیں گے۔ یہی سوچ کر وہ بائیکلہ (مشرق ) اسٹیشن کے سامنے ٹیکسی میں بیٹھے تھے۔ تقریباً ۲؍ بجے رات ایک شخص نے آکر النکار سنیما( کھیت واڑی) چلنے کیلئے کہا۔ خالی بیٹھے ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس شخص کو ٹیکسی میں بٹھا لیا۔ النکار سنیما پہنچنے پر جب مسافر ٹیکسی سے نہیں اُترا تو تشویش ہوئی۔ پلٹ کردیکھا تو وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں بے سدھ پڑا ہواتھا۔ ایسی حالت میں اسے ٹیکسی سے اُتارنا اور چھوڑ کر چلے جانا خود کو پریشانی میں مبتلا کرنے جیسا تھا۔ اسی چوراہے پر ایک پولیس بیٹ چوکی ہے۔ وہاں جاکر دیکھا ، ایک کانسٹبل موجود تھا۔ اس سے پوری روداد بیان کی ،اس نے کسی طرح کی مدد کرنے سےانکار کرتے ہوئے کہاکہ یہاں سے جا، اسے ٹیکسی سے باہر نکال کر زمین پر چھوڑ دے، میں نہیں آنے والا ہوں۔ بڑی منت سماجت کے بعد کانسٹبل نے قریب کے پولیس اسٹیشن جاکر مدد حاصل کرنے کامشورہ دیا۔ اس کے کہنے پر عبدالرشید پولیس اسٹیشن بھی گئے لیکن وہاں بھی پولیس والوں نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ مجبوراً وہ دوبارہ مذکورہ پولیس کانسٹبل کے پاس آئے۔ اُسے ۲۰؍ روپے دے کر مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی۔ ۲۰؍ روپے لینے کے بعد کانسٹبل نے عبدالرشید کو پولیس چوکی کے قریب مذکورہ مسافرکو چھوڑکر چلے جانے کی اجازت دی۔ اس طرح یہ مسئلہ حل ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک چالاکی کی تھی، انہوں نے کانسٹبل کا بیج نمبر یاد کرلیا تھا تاکہ مستقبل میں کسی طرح کا مسئلہ ہونے پر کانسٹبل کو گواہ بنایاجاسکے۔ 
 کرلا ، پائپ روڈ کی امیر بخش چال سے جڑی ایک تلخ یاد ہے۔ اسے بیان کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور ان کی اہلیہ کی آنکھیں بھی اشکبار ہوگئیں۔ یہ ۱۹۸۴ء کی بات ہے۔ بارش کا موسم تھا۔ رات کے وقت موسلا دھار بارش کی وجہ سے متعدد علاقے زیرآب ہوگئے تھے۔ تیز ہواکی شدت سے شہر ومضافات میں تقریباً ۱۰۰؍ درخت گرےتھے۔ امیر بخش چال کے سامنے ایک تناور درخت تھا۔ جواسی رات ان کے گھر پر آگرا تھا لیکن اللہ کی مصلحت تھی،اسے عبدالرشید کے اہل خانہ کومحفوظ رکھنا تھا۔ درخت کی متعدد شاخیں گھر کی چھت پر آکر گریں لیکن وہیں ٹھہر جانے سے چھت کے نیچے گہری نیند سور ہے، عبدالرشید ، ان کی اہلیہ اور بچوں کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچا۔ عبدالرشید کے گھر پر درخت گرنے سے پڑوسیوں اور محلے میں افراتفری مچ گئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ ان کے گھر کے سبھی افراد دب گئے ہوں گے۔ جب پتہ چلاکہ سبھی لوگ محفوظ ہیں تو انہیں گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کی جانےلگی۔ گھر کے عین سامنے درخت کے گرنے سے دروازہ کھولنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ ایسے میں کھڑکی سے اہل خانہ کو باہر نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن درخت گرنے سے بجلی کے کچھ تار ٹوٹ کر کھڑکی کی آہنی جالیوں سے چپک گئے تھے جس سے کھڑکی میں کرنٹ آرہا تھا۔ پڑوسیوں نے پہلے ان تاروں کو کھڑکی سے علاحدہ کیا بعدازیں کھڑکی توڑکر عبدالرشید اور ان کے اہل خانہ کو گھر سے باہر نکالا۔ 
شہنشاہ جذبات دلیپ کمار اور فلم امرائو جان کے نغموں اورغزلوں کے خالق معروف شاعر شہریار سے ہونے والی ملاقاتوں کو عبدالرشید یادگار قرار دیتے ہیں۔ دلیپ کمار کو قریب سے دیکھنے ،انہیں سلام کرنا اور ان کا جواب دینا ، انہیں اب بھی جذباتی بنا دیتا ہے۔ چوپاٹی پر سکھ ساگر نامی بلڈنگ میں، اپنی ٹیکسی کے ایک مسافر کی آنکھ دکھانے وہ کسی ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ مسافر کو ڈاکٹر کے پاس چھوڑ کر بلڈنگ سے نیچے اُترنے کیلئے لفٹ کے قریب پہنچنے تو دیکھا کہ لفٹ سے دلیپ کمار باہر نکل رہے ہیں۔ انہوں نے دلیپ کمار کو سلام کیا۔ سلام کی آواز سن کر دلیپ صاحب نے رک کر انہیں صرف سلام کا جواب نہیں بلکہ ان کی خیر خیریت بھی لی۔ ایک عظیم فنکار کی سادگی سے وہ بے حد مثاثر ہوئے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ وہ اپنی ٹیکسی سے کیڈل روڈ ،ماہم سے گزررہے تھے۔ اچانک ان کی نظر قریب سےگزرنے والی کار پر پڑی ، جس میں معروف شاعر شہریار موجود تھے۔ اس دور میں فلم اُمرائوجان کے مقبول نغموں کی وجہ سے شہریار کوبڑی شہرت حاصل تھی۔ عبدالرشید نے ٹیکسی چلاتے ہوئے ،ان سے بالمشافہ ملنے کی خواہش ظاہرکی جس پرشہریار نےاپنی کار کنارے لگادی۔ کار سے اُترکر عبدالرشید سے ملاقات کی اور گلے ملنے کی ان کی خواہش کو بھی پوراکیا۔ عبدالرشید کیلئے یہ دونوں ملاقاتیں یادگار ہیں۔ 
شاہ فیصل جب ممبئی آئے تھے تو انہیں دیکھنے کیلئے عبدالرشید کے والد محمد انصاری سانتا کروز ایئرپورٹ جا رہے تھے۔ اس دور میں ممبئی میں سانتاکروز،واحد ایئرپورٹ تھا۔ عبدالرشید نے والد کے ساتھ شاہ فیصل کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ والد انہیں بھی اپنے ہمراہ ایئر پورٹ لے گئے تھے۔ ایئرپورٹ پر شاہ فیصل نے موتیاں ہوا میں اُچھالی تھیں۔ یہ منظر عبدالرشید نے اپنی آ ٓنکھوں سے دیکھا تھا۔
 عبدالرشید سے ہونے والی اس گفتگو کے دوران ان کی اہلیہ کنیز فاطمہ جس طرح ان کاساتھ دے رہی تھیں ، مثلاً کسی واقعہ کوبیان کرتے ہوئے اگر ان کا حافظہ ساتھ نہیں دے رہاہوتا تو وہ انتہائی خوش اسلوبی سے یاد دلاتی تھیں۔ ان کی اس خوبی اورساتھ نبھانے کے جذبے کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ عبدالرشید جو ایک عام ڈرائیور ہونے کے باوجود ایک خاص شخصیت کے حامل ہیں ، اس میں ان کی تعلیم یافتہ معلمہ بیوی کابہت اہم کردار ہے ، جسے وہ اس پیرانہ سالی میں بھی نبھا رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK