• Mon, 15 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

رب العالمین کے قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں

Updated: May 03, 2024, 2:58 PM IST | Syed Qutb | Mumbai

غزوۂ احد کے موقع پر مسلمان جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا کوئی اندیشہ انہیں غزوئہ بدر کی عجیب و غریب فتح کے بعد نہ تھا۔

Circumstances are a test that never fails. Photo: INN
گردشِ ایام ایک ایسی کسوٹی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی۔ تصویر : آئی این این

غزوۂ احد کے موقع پر مسلمان جس صدمے سے دوچار ہوئے اس کا کوئی اندیشہ انہیں غزوئہ بدر کی عجیب و غریب فتح کے بعد نہ تھا۔ جب مسلمانوں پر یہ مصیبتیں ٹوٹیں تو وہ چیخ اُٹھے: ’’یہ کیونکر ہوا؟‘‘ قرآن کریم (سورہ آل عمران میں ) مسلمانوں کو اللہ کی سنتوں کی طرف، جو اُس کی زمین میں جاری و ساری ہیں، متوجہ کرتا ہے۔ وہ اُن اصولوں کو واضح کرتا ہے جن کے مطابق معاملات انجام پاتے ہیں۔ آخر وہ زندگی سے الگ اور نئی کوئی شے تو نہیں ہیں جو قوانین زندگی پر حاکم ہیں، وہ بلاتوقف جاری و ساری رہتے ہیں۔ امور و معاملات اَلل ٹپ رونما نہیں ہوتے، وہ اِن قوانین کے تابع ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی اِس توضیح کے نتیجے میں مسلمانوں کو اِن قوانین کا علم ہوا، وہ ان کے مقاصد سے واقف ہوگئے، واقعات و حوادث کے پیچھے اللہ کی حکمت اُن پر منکشف ہو گئی، واقعات کے پیچھے جو مقاصد اور اہداف ہوتے ہیں، وہ اُن پر واضح ہو گئے جس نظام کے تحت واقعات رونما ہوتے ہیں، اس کے ثبوت اور اس نظام کے پیچھے جو حکمت ِ خداوندی ہے، اس کے وجود پر انہیں اطمینان ہوگیا اور اِس راہ کے ماضی میں جو کچھ ہوا تھا، اُس کی روشنی میں وہ اپنے سفرکے راستے کو بخوبی دیکھنے لگے۔ وہ یہ بات جان گئے کہ فتح و نصرت اور غلبہ و سربلندی حاصل کرنے کے لئے فتح و نصرت کے اسباب مہیا کئے بغیر، جن میں اوّلین سبب اطاعت ِ خدا اور رسولؐ ہے، صرف اپنے مسلمان ہونے پر بھروسا نہیں کرنا چاہئے۔ 
اللہ کی سنتیں، جن کی طرف آیات اشارہ کرتی اور مسلمانوں کی نظروں کو ان کی طرف ملتفت کراتی ہیں، یہ ہیں : تاریخ کے دوران مکذبین کا انجام، اچھے اور بُرے دنوں کی لوگوں میں گردش، دلوں کی کیفیات کو کھوٹ سے پاک کرنے کے لئے ابتلا و آزمائش، مصائب و شدائد پر صبر و استقامت کی قوت کا امتحان اور ارباب صبرواستقامت کے لئے فتح و نصرت اور مکذبین کے لئے ہلاکت و مغلوبیت کا استحقاق۔ اِن سنتوں کو پیش کرنے کے دوران یہ آیات مشکلات و مصائب کو برداشت کرنے پر اُبھارتی ہیں، شدائد و آلام میں مواساۃ و غم خواری کی تلقین کرتی ہیں اور اُن زخموں پر جو صرف انہیں نہیں، اُن کے دشمنوں کو بھی پہنچے، اُن کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کرتی اور انہیں تسلی دیتی ہیں اور انہیں سمجھاتی ہیں کہ وہ اپنے عقیدے اور مقصد کے لحاظ سے اپنے دشمنوں سے بلند و برتر ہیں، راہِ عمل اور طریق زندگی کے پہلو سے اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور پھر کامیابی بالآخر اُن کے لئے ہے اور اہل کفر کے لیے مغلوبیت اور ذلّت و خواری ہے:
’’تم سے پہلے سنت ِ (الٰہی) کی بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں توزمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ یہ لوگوں کے لئے بیانِ (حقیقت) ہے اور متقیوں کے لئے ہدایت و نصیحت۔ ‘‘ (آل عمران:۱۳۷-۱۳۸)

یہ بھی پڑھئے: موجودہ حالات اور ہمارے ووٹ کی اہمیت

اللہ کے یہ قوانین و سنن زندگی پر حکمراں ہیں اور یہ قوانین اللہ کی مشیت ِ مطلقہ کے وضع کردہ ہیں۔ اسلئے جو کچھ کسی اور زمانے میں رونما ہوا، ویسا ہی اللہ کی مشیت کے تحت تمہارے زمانے میں بھی واقع ہوگا۔ ’تو زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۳۷) زمین پوری کی پوری ایک وحدت ہے۔ زمین پوری کی پوری انسانی زندگی کی آماجگاہ ہے اور زمین اور اُس میں موجود زندگی ایک کھلی کتاب ہے جس میں نگاہوں اور بصیرتوں کے لئے بہت کچھ سامانِ عبرت ہے: ’’تو دیکھو کہ مکذبین کا انجام کیا ہوا؟‘‘(ایضاً)
اِس انجام کی شہادت زمین میں اُن کے پھیلے ہوئے آثار دیتے ہیں۔ یہاں قرآن اِس انجام کی طرف مجمل اشارہ کر رہا ہے تاکہ ایک مجمل فتح تک پہنچا جاسکے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو کچھ مکذبین پر کل گزرا، ایسے ہی انجام سے آج اور کل مکذبین دوچار ہوں گے۔ یہ اس لئے کہ اُمت مسلمہ کے دل انجام کی طرف سے مطمئن ہوں نیز وہ پھسل کر مکذبین کی طرف جانے سے بچ سکیں۔ اس سنت کے ذکر کے بعدنصیحت و عبرت کا بیان ہے جس کے تحت فرمایا گیا: ’’یہ لوگوں کے لئےایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں اُن کے لئے ہدایت اور نصیحت (ہے)۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۳۸)
یہ سب انسانوں کے لئے بیان ہے، اس کے ذریعے (لیکن ایک ہی گروہ) ہدایت سے سرفراز ہوگا اور وہ ’’متقین‘‘ کا گروہ ہے۔ صرف ایمان رکھنے والا دل، جو ہدایت کیلئے کھلا ہوتا ہے، ہدایت دینے والی بات کو قبول کرتا ہے اور نصیحت و موعظت سے خدا ترس دل ہی کو، جو اُس کو سُن کر ہل جاتا ہے، نفع ہوتا ہے۔ مجرد علم اور معرفت کچھ نہیں ! کتنے ہی لوگ ہیں جو حق کا علم رکھتے ہیں اور اس کی معرفت کے حامل ہیں لیکن افسوس کہ وہ باطل کے کیچڑ میں لوٹتے رہتے ہیں، اپنی خواہشات اور نفس کی غلامی و بندگی کی وجہ سے، جس کے ساتھ علم بے سود ہوتا ہے۔اس بیان کے بعد قرآن مسلمانوں کی طرف رخ کرتا ہے اور انہیں تسلی دیتا اور اُن کے لئے ثابت قدمی اور تقویت کا سامان بہم پہنچاتا ہے:
 ’’اور تم پست ہمت نہ ہو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب و سربلند ہو اگر تم مومن ہو!‘‘(آل عمران :۱۳۹)
 وَلَا تَھِنُوْا ’’وھن‘‘ سے ہے جس کے معنی ہیں ضعف۔ ’’غم نہ کرو‘‘ یعنی اُن مصیبتوں کے باعث، جو تمہیں پہنچیں اور اُن چیزوں کے باعث جو تم نے کھو دیں، کمزور نہ پڑو اور غم نہ کرو۔ ’’اور تم ہی غالب و سربلند ہو‘‘۔ غالب و سربلند اس لئے کہ تمہارا عقیدہ بلند و برتر ہے، تم صرف ایک خدا کو سجدہ کرتے ہو جبکہ تمہارے مخالفین اُس کی کچھ مخلوقات کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تم اللہ کے وضع کردہ نظامِ زندگی کے مطابق زندگی کا سفر طے کرتے ہو اور وہ اُس نظامِ زندگی کو اختیار کرتے ہیں جو اُس کی مخلوق کا وضع کردہ ہے۔ تم اِس لئے بھی بلندوبرتر ہو کہ زمین کی وراثت، جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا ہے، تمہارے لئے ہے، اِس کے برعکس تمہارے اعدا کیلئے فنا اور نسیان مقدر ہے۔ اِس لئے اگر تم سچ مچ مومن ہو تو نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ تم بھی مصائب و آلام میں مبتلا ہو اور تمہارے ہاتھوں تمہارے اعدا بھی، اور، ابتلا اور کھرے کھوٹے کے درمیان امتیاز کے بعد انجامِ کار کامیابی تمہارے ہی لئے ہے۔ 
گردشِ ایام
 ’’اور یہ (اچھے اور بُرے) دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں، اور اللہ کو یہ معلوم کرنا تھا کہ کون ہیں جو (واقعی) ایمان لائے ہیں۔ ‘‘ ( سورہ آل عمران :۱۴۰)
 یہ بھی اللہ کی سنت ہے کہ اچھے اور بُرے دن لوگوں کے درمیان گردش کرتے ہیں۔ لوگوں کی نیتوں اور ان کے اعمال کے لحاظ سے اس سنت پر عمل ہوتا ہے۔ حالات میں فراخی ونرمی کے بعد شدت اور شدت کے بعد فراخی و نرمی، انہی سے لوگوں کے جوہر اور دلوں کی طبیعتوں کا علم ہوتا ہے اور انہیں سے اِس بات کا انکشاف ہوتاہے کہ دلوں میں کس درجہ کھوٹ یا صفائی ہے، بے صبری یا صبر ہے، اللہ پر بھروسہ یا مایوسی ہے اور خود کو اللہ کی قضا وقدر کے حوالے کر دینے کا جذبہ ہے یا سرکشی و نافرمانی کا؟ اُسی وقت مسلمانوں کی صف میں لوگوں کے مابین امتیاز پیدا ہوتا اور مومنین اور منافقین کا انکشاف ہوتا ہے۔ اُسی وقت اِن دونوں گروہوں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے، دلوں کے اندرونی جذبات دنیا کے سامنے منکشف ہوتے ہیں۔ 
 گردشِ ایام اور حالات کی شدت و فراخی کا یکے بعد دیگرے آنا ایک ایسی کسوٹی ہے جو کبھی خطا نہیں کرتی اور ایک ایسی میزان ہے جو کبھی زیادتی نہیں کرتی اور اس معاملے میں حالات کی فراخی حالات کی شدت کی طرح ہے۔ کیونکہ کتنے ہی نفوس ہیں جو شدید حالات میں صابر و ثابت قدم رہتے ہیں اور اپنے آپ کو تھامتے رہتے ہیں لیکن خوش گوار اور نرم حالات میں وہ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ مومن وہ ہے جو مصیبت میں صبر کا رویہ اختیار کرتا ہے اور خوش حالی و فراخی سے وہ سبک سراور غافل نہیں ہوتا۔ دونوں حالتوں میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اسے اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ خیراور شر، جس سے بھی اُسے سابقہ پیش آتا ہے، سب اللہ ہی کے اِذن (حکم) سے ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK