Inquilab Logo

پسماندہ طبقات سے ہمدردی اور اظہار ِیک جہتی

Updated: May 03, 2024, 2:58 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

مظلوموں اور دبے کچلے طبقے کی مدد کرنا مسلمانو ںکیلئے صرف سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دینی اور ملی فریضہ ہے۔

Even today there is a section in the homeland that is struggling for a better life. Photo: INN
وطن عزیز میں آج بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو بہتر زندگی کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔ تصویر : آئی این این

قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جب بھی کسی قوم میں آئے تو عام طور پر دو طبقوں سے ان کا سابقہ ہوا، ایک ’’ملأ قوم‘‘، یعنی قوم کے سر برآور دہ لوگ، جن کو باعزت اور بلند مرتبت سمجھا جاتا، دوسرے وہ لوگ جن کو قرآن نے ’’ ارا ذل قوم ‘‘ یا’’مستضعفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یعنی قوم کے معمولی اور کمزور لوگ جن کو سماج میں بے وزن اور کم حیثیت خیال کیا جاتا ہے۔ ہر نبی کی دعوت اپنی قوم میں ایک اجنبی دعوت کی حیثیت سے اُبھرتی تھی، قوم کے سربرآوردہ لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے؛ البتہ ان میں جو لوگ حقیقت پسند اور نیک خو ہوتے تھے، وہ اپنی بڑائی کو قربان کر کے نبی کی دعوت پر لبیک کہتے تھے لیکن ابتداء ً ان کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ جو لوگ معمولی سمجھے جاتے ان کو دعوتِ حق قبول کرنے میں کوئی عار نہ ہوتی، وہ پہل کرتے اور پھر ظلم و جور کی بھٹی میں تپائے جاتے، غالباً یہ بھی نظام غیبی کے تحت ہوتا؛ کہ چونکہ وہ پہلے سے مظلوم و ستم رسیدہ ہوتے؛ اس لئے ان کے لئے ظلم و زیادتی اور تحقیر و تذلیل کا رویہ کسی درجہ میں قابل تحمل ہوتا۔ 
دعوت حق کو قبول کرنے میں سردارانِ قوم ہی اصل میں رکاوٹ بنتے ہیں، اہلِ مکہ نے آپ ﷺکی کس قدر مخالفت کی، اس لئے نظامِ غیبی کے تحت غزوۂ بدر میں تمام سرداران مکہ جمع کر دیئے گئے، اور وہ سب بدر میں ہلاک ہوئے، اسی ضمن میں رسول اللہ ﷺنے صحابہ ؓ سے فرمایا تھا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں۔ بدر کے بعد اہلِ مکہ کے دو ہی قابلِ ذکر سردار باقی رہ گئے، ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن اُمیہ، اور ان دونوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ مدینہ میں جو اسلام کی اشاعت آسانی کے ساتھ اور تیزرفتاری سے ہوئی، تو اس کی ایک وجہ وہی تھی، جس کی طرف حضرت عائشہؓ نے اشارہ فرمایا کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے اوس و خزرج کی خانہ جنگی میں عبد اللہ بن ابی کے علاوہ صف ِاوّل کے تمام قائدین لقمۂ اجل بن چکے تھے؛ اسلئے یہاں اسلام کے خلاف مزاحمت کرنے والی کوئی منظم طاقت موجود نہیں تھی۔ عبد اللہ بن ابی نے اپنے اندرونی نفاق کے ذریعہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن انصارِ مدینہ پر نشۂ ایمانی چڑھ چکا تھاکہ وہ کسی اور چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، گویا خدا کے غیبی نظام کے تحت بعثت محمدیؐ سے پہلے ہی سرداران مدینہ رخصت ہو چکے تھے اور مدینہ کی سرزمین اسلام کیلئے نرم و ہموار اور یہاں کی فضا موافق ہو چکی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: حق رائے دہی، اُمیدواروں کا انتخاب اور مسلمانوں کی فراست کا امتحان

یہی صورتحال مختلف انبیاء کرام کے ساتھ پیش آئی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو حق کی طرف بلایا تو یہی طبقہ ان کی دعوت پر ایمان لایا۔ جو لوگ ان کے معاند تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی (معاشرہ کے) انتہائی نچلے اور حقیر (طبقات کے) لوگ کر رہے ہیں۔ ‘‘ (شعراء:۱۱۱) شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے آیت کے لفظ ’’ ارذلون ‘‘ کا ترجمہ ’’کمینہ ‘‘ سے کیا ہے، اس تعبیر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس طبقہ کو کتنی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ قرآن نے ایک اور مقام پر قومِ نوح کی اس تمسخر آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے کہ سرداران قوم نے حضرت نوحؑ سے کہا :’’اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ‘‘ (ہود:۲۷)
ہم جس ملک میں رہتے ہیں، اس میں کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو ’’ ملأ قوم‘‘ بنا رکھا ہے، اور لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بسا دیا ہے کہ وہ فرمانروائی اور حکمرانی ہی کیلئے پیدا کئے گئے ہیں ؛ کیونکہ ان کی پیدائش خدا کے سر اور بازؤں سے ہوئی ہے، وہ خدا اور بندہ کے درمیان واسطہ ہیں۔ ایک بہت بڑی قوم کو انہوں نے پیدا ئشی غلام بنا رکھا ہے، اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھا دی ہے کہ وہ نیچ اور کم تر ہیں اور وہ دوسروں کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ایسا کہنے، سمجھنے اور سمجھانے والے طبقے سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طبقہ کا عددی تناسب بہت معمولی ہے؛ لیکن وہ ملک کے ۶۵؍ فیصد کلیدی عہدوں پر قابض ہے اور اقتدار کے دروبام پر اس کا ایسا قبضہ ہے کہ اس کی مرضی و منشاء کے بغیر پتہ ّ بھی نہیں ہلتا۔ قرآن کی اصطلاح میں اس ملک کے ملا ٔقوم ہیں، جن کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جب تک حالات کے ہاتھوں مجبور نہ ہو جائیں عدل و انصاف اور سچائی کے سامنے سر خمیدہ نہیں ہوتے۔ 
دوسرے طبقہ میں کون لوگ شامل ہیں اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن میں ’’ارا ذل قوم‘‘ کی تعبیر آئی ہے کہ لوگ انھیں نیچ، گنوار اور کم تر خیال کیا کرتے تھے، ہندوستان میں یہ قوم ہزاروں سال سے ظلم و جور کی چکی میں پیسی جارہی ہے اور انتہائی غیر انسانی رویہ کا شکار ہے، اب جبکہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کسی قدر ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے، انہیں تحفظات دیئے جار ہے ہیں، الیکشن کے موقع پر انہیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر بھی سماجی زندگی میں وہ ایک باعزت قوم کا مقام حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ وہ کسی گھڑے کو ہاتھ لگادیں تو اس کا پانی پھینک دیا جاتا ہے، وہ کسی برہمن کے دوش بدوش بیٹھ کر کھانہیں سکتے، اس ملک میں اعلیٰ ترین انتظامی قابلیت رکھنے کے باوجود جگ جیون رام ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکے کیونکہ وہ اچھوت قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ جو لوگ مظلوم، دبے کچلے اور دبائے ہوئے ہوں، ان کی مدد مسلمانوں کیلئے صرف سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دینی اور ملی فریضہ ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان لوگوں کے واسطے نہیں لڑتے، جو مغلوب ہیں، مرد، عورتیں اور بچے۔ ‘‘ (نساء:۷۵)
قرآن نے یہاں مغلوبوں کے لئے ’’ مستضعفین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی وہ لوگ جن کو دبایا گیا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ دلت بھی اس ملک کے ’’ مستضعفین‘‘ ہیں تو شاید بے جانہ ہو؛ اس لئے ان کو ساتھ لینا اور اس ملک کے ظالموں کو مشترک تدبیر کے ذریعہ ظلم سے باز رکھنا ہمارا اسلامی فریضہ ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے اس اہم کام کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی؛ بلکہ ہندوؤں کی اونچی برادری سے متاثر ہو کر ہم نے بھی ان کے ساتھ کم و بیش وہی رویہ اختیار کیا اور خود اپنی قوم میں بھی مختلف دیواریں کھڑی کرلیں۔ بعض اوقات یہ دیواریں اتنی اونچی ہو جاتی ہیں کہ پاس کا آدمی نظر نہیں آتا۔ 
اس صورت حال نے ہمیں دہرا نقصان پہنچایا ہے، ایک تو اس ملک میں دعوت ِاسلام کا کام نہ ہونے کے درجہ میں ہے، اگر ہم اس طبقہ سے قریب ہوتے تو دعوت کے وسیع مواقع پیدا ہو سکتے تھے، ہر قوم میں دعوتِ حق کی فطری ترتیب یہی رہی ہے، کہ پہلے ایسے مستضعفین نے اس پر لبیک کہا ہے۔ پہلے مکہ کے غلاموں نے اسلام قبول کیا، پھر اہلِ مدینہ نے، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ سردارانِ مکہ بھی اسلام لانے پر مجبور ہوئے۔ 
اسلام کی بنیادی تعلیم وحدتِ الہ اور وحدتِ انسانیت ہے، یعنی خدا ایک ہے اور تمام انسانیت ایک ہے۔ کالے، گورے، عرب، عجم کی کوئی تفریق نہیں، ایک ہی مسجد میں سب کو خدا کی عبادت کرنی ہے، جو شخص دین سے زیادہ واقف اور عمل کے اعتبار سے زیادہ صاحبِ تقویٰ ہو، وہ نماز میں امام ہوگا، خواہ کسی خاندان کا ہو، اور اس کی رنگت کیسی بھی ہو، انسانوں کا کوئی طبقہ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ نہیں ؛ بلکہ ہر انسان براہِ راست خدا سے مانگتا اور خدا سے پاتا ہے۔ یہ انسانی مساوات کا اتنا فطری اور مبنی بر انصاف تصور ہے کہ جن قوموں کو نیچ سمجھا جاتا ہے وہ اس کو اپنے لئے بہت بڑی رحمت باور کرتی ہیں، اگر اسلام کے اس عظیم اُصولِ زندگی کو ان محروم و مظلوم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اس سے یقینی طور پر متاثر ہوتے اور اس ابر ِرحمت کے سایہ میں چلے آتے مگر افسوس کہ ہم نے اس جانب سنجیدہ توجہ نہیں دی۔ 
اس سے دوسرا نقصان سیاسی ہوا، آج سیاسی اعتبار سے ہم خود اچھوت ہیں، ہماری آبادی کے تناسب اور قومی اداروں میں ہماری تعداد کے درمیان کوئی نسبت نہیں، اگر مسلمان اس طبقہ کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جاتے تو اگر بادشاہ نہ بنتے تب بھی بادشاہ گر ضرور ہوتے۔ 
وقت ابھی بھی گیا نہیں ہے، اور ہمیں اس پہلو پر پوری گہرائی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ایک منصوبہ کے ساتھ اس طبقہ کو قریب کرنا چاہئے، مسلمان قائدین اور سیاسی تنظیموں کو چاہئے کہ دلت سیاسی و سماجی قائدین کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں اور ان کی ذہن سازی کریں۔ بعض الیکشنوں میں اس کا کامیاب تجربہ ہوا ہے؛ اس لئے مسلمان قائدین کوا علیٰ سطح پر پسماندہ طبقے کے قائدین سے ربط قائم کرنا چاہئے، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے! سماجی سطح پر بھی اِس طبقہ سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے، مسلمان خوشی و غمی کے مواقع پر ایسی تقریب رکھیں، جن میں انہیں مدعو کریں، شادی بیاہ کے موقع پر انہیں تحفے دیں، مسلمانوں کے زیر ِانتظام اسکولوں میں انہیں داخلے دیا کریں، اور جو ممکن ہو ان کے ساتھ رعایت کریں، ایسے الفاظ کے ساتھ ان سے خطاب نہ کریں، یا ان کا ذکر نہ کریں جن سے تذلیل و تحقیر کی بو آتی ہو، موقع بموقع اسلام کی مساوات کی تعلیم کو ان کے سامنے رکھیں۔ اگر ہم اپنے رویہ کو ان کے ساتھ درست کرلیں، تو ان شاء اللہ وہ جلد اور بہت آسانی کے ساتھ آپ کی طرف راغب ہو جائینگے۔ 
 ایک ایسی قوم جو انسان تسلیم کئے جانے کیلئے جد و جہد کر رہی ہے، اس سے تھوڑی سی محبت بھی دل جیتنے کیلئے کافی ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اس معاملہ کی اہمیت کو محسوس کریں اور ایک ٹھکرائی ہوئی قوم کو سینہ سے لگائیں، اور انہیں محبت کی سوغات دیں، اس میں ہماری جان و مال اور عزت و آبر وکا تحفظ ہے، سیاسی حقوق کا تحفظ ہے اور سب سے بڑھ کر اس سے دعوت کے وسیع مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK